منزلیں اور بھی ہیں!۔

227

فرحت طاہر
(دوسری قسط)
اور پھر صورت حال بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ شیریں کی مصالحانہ کوششیں ، سہیل کی خاموشی ، امی جان اور عادل کی سر گوشیاں کچھ بھی تو حالات کو بہتر نہ بنا سکے! اور پھر ایک دن سعدیہ ننھی حرا کو کندھے سے لگائے ، اٹیچی پکڑے آوارد ہوئی ۔اس دفعہ وہ کوئی محاذ کھولنے نہیں بلکہ شکست کھا کر آئی تھی ۔ عدنان نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اب تمہاری باعزت واپسی کاراستہ صرف یہ ہے کہ سہیل شیریں کو طلاق دے کر ریما سے شادی کر لے ۔گھر میں ایک سنا ٹا سا چھاگیا ۔سعدیہ کو چپ سی لگ گئی ۔اس کو اپنی حیثیت کا احساس ہوگیا تھا ۔شیریں کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو کتنا بر تر محسوس کرتی تھی حالانکہ کتنی بے بس ہے ؟ اس کو اندازہ نہ تھا کہ اس کا حسن ، اکلوتی لاڈلی بہو ہونے کا زعم وہاںجل کر بھسم ہوجائے گا جہاں سے مرد کی برتری کی حدود شروع ہوتی ہیں ۔
سعدیہ کو آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا اور وہ اپنی بچیوں کے بغیر اداس تھی۔ یوں تو وہ پہلے بھی ان کو چھوڑ کر رہ جاتی تھی مگر اب تو ایک مختلف صورت حال تھی۔ گھر کی فضا بظاہر خاموش تھی مگر ایک لاوا سا پک رہا تھا۔ ابا جان جو گھریلو معاملات میں ذرا کم ہی بولاکرتے تھے مگر وہ بھی شیریں کے ساتھ اس صریح زیادتی پر پریشان تھے۔ شیریں اپنے آپ کو مجرم سمجھتے ہوئے چھپی چھپی پھر رہی تھی۔سب سے بری حالت سہیل کی تھی ! ان کا فیصلہ ان کی بہن کاگھر بسا سکتا تھا مگر خود ان کا ؟ ریما سے شادی کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے اور پھر شیریں کوناکردہ گناہوں کی سزا دینا ! سو چ سوچ کر بھی وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھے ۔آخر شیریں نے اس ڈیڈ لاک کو ختم کر نے کا فیصلہ کرلیا ۔یہ سوچ کر کہ صرف وہی اس گھر میں اجنبی ہے ۔اس کے منظر سے ہٹنے سے سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ۔ریما آکر فیصل کو سنبھال لے گی اور تھوڑے دنوں میں سہیل بھی ایڈجسٹ کرہی لیں گے ۔اس کے اس فیصلے پر سب الجھ کر رہ گئے۔ سعدیہ کا دل بھی کہہ اٹھا تھا کہ شیریں کے اس گھر سے چلے جانے کے بعد یہاں کبھی رونقیں نہیں آ سکیں گی اس کو شیریں سے کی گئی اپنی زیادتیاں رلا رہی تھیں ۔
شیریں نے فیصل کو اسکول روانہ کر نے کے بعد اپنا ضروری سامان ایک اٹیچی میں ڈالا،اپنے کمرے پر ایک دلدوز نظر ڈالی اور پھر امی اور ابا جان سے جانے کی اجازت طلب کرنے لگی ۔امی اسے گلے لگاکر رو پڑیں ۔شیریں نے اپنے آنسو پیتے ہوئے ان کو تسلی دی
’’ امی میرے جانے سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے ۔فیصل مجھے بھی اسی طرح بھول جائے گا جیسے اپنی ماں کو بھول گیاہے ۔لیکن اگرخدانخواستہ سعدیہ کا گھر برباد ہوا تو اس کی بچیوں کا کیا ہو گا۔ میرے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن سعدیہ کے بے گھر ہونے سے بہت سے رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔۔۔۔۔‘‘ آگے اس کا گلا رندھ گیا ۔اس نے سعدیہ پر ایک نظر ڈالی اور کوشش کے باوجود کچھ نہ کہہ پائی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔ سیڑھیاں اتر تے ہوئے اس کے قدم من من بھر کے ہورہے تھے ۔چھ ماہ پہلے جب وہ دلہن بن کر یہ سیڑھیا ں طے کر رہی تھی تو کتنی پر امید تھی کہ وہ ایک بکھرے ہوئے گلشن کوسمیٹنے جارہی ہے ! اسے کیا پتہ تھا کہ اہل چمن کو گلشن میں اس کا وجودہی گوارا نہ تھا ؟
یہ خیال کہ فیصل شیریں کو بھول جائے گا خام خیال ثابت ہوا ۔ اسکول سے آیا تو امی ہی گردان اس کے لبوں پر تھی ۔شکوہ کہ آج آپ مجھے لینے کیوں نہیں آ ئیں ؟ ڈرائنگ روم سے کچن اور کچن سے بیڈروم جب کہیں اس نے شیریں کو نہ پایا تو جیسے اس کی چھٹی حس نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ ’’ امی کہاں ہیں ؟ میری امی کہاں ہیں ؟؟ ‘‘ اس نے چلا کر روناشروع کر دیا اور چیزیںاٹھا اٹھا کر پھینکنے لگا ۔دادا دادی ، پھپو تینوں نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی کی نہ سنی ! فرش پر پائو ں رگڑ رگڑ کر روتا رہا ۔نہ اس نے ننھی حرا کو پیار کیا نہ اپنے طو طے کی خبر لی ۔ بس امی امی کہہ کر سسکیاں بھرتا رہا ۔عادل گھر آیا تو اس نے بھی اسے بہلانے کی کوشش کی ،باہر بہلانے لے گیا وقتی طور پر
وہ ضرور بہل گیا مگر سوئی امی پر ہی اٹکی رہی۔کھانا پینا برائے نام ہی کھا یا ۔ اپنے ابو کو بھی مستقل تنگ کرتا رہا ۔وہ اسے رات گئے تک بہلاتے رہے مگر وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا ۔صبح اٹھ کر اس نے سب سے پہلے شیریں کو ہی پوچھا ۔خیر اسے کسی نہ کسی بہلا پھسلاکر سہیل اسے خود اسکول چھوڑ کر آئے ۔
دوپہر میں جب ڈرائیور اسے لینے اسکول پہنچا تو معلوم ہوا کہ آج دن بھر اسکول میں اس کی طبیعت خراب رہی اور گھر پہنچتے ہی اس نے سوال کیا کہ امی آگئیں ؟ جواب نفی میں پاکر وہ اپنے ابو کو جھنجھوڑتا ہوا بولا ’’ امی کہاںہیں ؟ بتائیں نا! ‘‘ سہیل جو پہلے ہی پریشان تھے اوپر سے پچھلے چوبیس گھنٹے سے فیصل نے ایک ہنگامہ کھڑا کیا ہوا تھا لہذا اپنے تمام تر ٹھنڈے مزاج کے باوجود وہ مشتعل ہوگئے اور اس کو ایک زور دار تھپڑ لگاکر بولے ’’ مر گئی تمہاری ماں ! ‘‘ وہ بچہ ہی تو تھا ان کے مضبوط ہاتھوں کی قوت سے زمین پر گر پڑا مگر خاموش پھر بھی نہ ہوا ۔اسی ہٹیلے اور ضدی لہجے میں روتے ہوئے بولا ،’’ میری امی نہیں مری ہیں ۔۔! مجھے شیریں امی چاہیے ! ۔‘‘ اس نے وضاحت کر تے ہوئے کہا ۔ کوئی او ر موقع ہوتا تو اس کی اس بات سے بہت لطف لیا جا سکتا تھا مگر اس وقت صورت حال بہت نازک تھی لہذا وہ غصے میں گھورنے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔ پھر اسے گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہوئے کمرے میں چلے گئے ۔اس دوران ان کی نظریں کھانے کی میز پر پڑی ۔سعدیہ کھانا لگا چکی تھی اور عدنان بھائی سمیت تمام لوگ کھانے کی میز پر تھے مگر شروع کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی ۔سہیل کی نظریں عدنان بھائی کے چہرے پر گڑ گئیں گویا کہہ رہی ہوں ’’ اب تو آپ خوش ہیں اپنی مردہ بہن کے حقوق بحال کروا کے ؟ ‘‘ بندکمرے سے مسلسل فیصل کے رونے کی آواز آ رہی تھی ۔
عدنان نے اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے سوچا ’’ کھانے کا بائیکاٹ احتجاج کا بہت پرانا طریقہ ہے ۔آہستہ آہستہ سب نارمل ہوجائیں گے ۔۔‘‘ عدنان نے الٹا سیدھا کھا نا ختم کیا اور دوبارہ آفس کے لیے روانہ ہو گئے مگر سہیل اور فیصل کو بھوکا دیکھ کر امی ابا کی بھوک اڑگئی تھی اور وہ مختلف بہانوں سے کھانے کی میز سے اٹھ گئے ۔اور تو اور جب عادل نے بھی کھانا کھاتے ہوئے دیکھا کہ برتن سمیٹتے ہوئے سعدیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہیں تو اس کا دل چاہا کہ اسے خوب کھری کھری سنائے مگر پھر اس نے سوچا
’’ اس سارے کھیل میں سعدیہ آپا بھی اتنی مظلوم ہیں جتنی شیریں بھابھی ، سہیل بھائی اور فیصل ؟ ‘‘ اس نے بھی کھانے کی پلیٹ ادھوری چھوڑی اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔’’ نہ جانے ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے ؟ ‘‘ اس نے دکھ سے سوچا ۔نظر کیسی ؟ یہ تو انا ، ضداور برابری کی بے جا جنگ تھی جس میں سارے گھر کی خوشیاں جل رہی تھیں ۔دوپہر بہت بوجھل اور گھمبیر تھی۔ حالانکہ سردیوں میں شام نہیں ہوا کرتی مگر گھر والوں کے لیے دوپہر ہی اتنی لمبی ہو گئی تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی ۔
چار بجے کے قریب فیصل کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور سہیل پریشانی کے عالم میں عادل کے ہمراہ اسے لے کر ہسپتال روانہ ہوگئے ۔ پورا گھر فیصل کے لیے اداس تھا ۔ معصوم سا پیا را بچہ ! جس سے پورے گھرانے کی خوشیاں وابستہ تھیں کل سے بھوک پیاس کی شدت سہہ رہا تھا مگر ماں سے کم کسی چیز سے راضی نہ تھا ۔ سب لوگ حیران تھے کہ اتنا اثر تو اس نے سیما کی موت کا بھی نہیں لیا تھاجو اس کی سگی ماں تھی۔ آرام سے کھیلتا پھر رہا تھا ۔لوگ اسے پکڑ پکڑ کر پیار کر رہے تھے ! دبوچ دبوچ کر آنسو بہا رہے تھے ! یہ بات سوچتے ہوئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ماں کی محرومی کے کرب سے گزر چکا ہے اسی لیے اتنا حساس ہوگیا ہے ، رو رو کر اپنی جان پر بنالی ہے کہ دوبارہ اس کرب سے نہ گزروں ! امی اورابا جان اپنے اکلوتے یتیم پوتے کی حالت پر دل ہی دل میں سیما کی روح سے شر مندہ ہورہے تھے مگر یہ سب اسی کی محبت کے زعم میں ہو رہا تھا ۔مر حومہ بہن کی نشانی ملیا مٹ کر کے اس کی محبت کے چراغ جلائے جا رہے تھے ۔ کتنے نادان تھے سیما کی محبت کے دعویدار؟ سعدیہ جو مستقل اپنے آپ کو ساری صورت حال کا ذمہ دار سمجھ رہی تھی ۔اب تو اسے ایسا لگا کہ جیسے خدا نخواستہ فیصل کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار بھی میں ہی ہوں گی ! نہیں نہیں !!! اس نے شیریں کا فون نمبر گھما یا
’’ ۔۔فیصل کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ! ‘‘ مگرپھر فون کاٹ دیا ۔اب وہ کیوں آئے گی ؟ پھر اس کی نظروں میں اپنی بچیوں کی شکلیں گھوم گئیں ۔ شیریں کی واپسی کا مطلب اس کی اپنی بچیوں سے محرومی تھی ۔ ۔وہ کشمش کا شکار تھی ۔پھر اس نے عدنان کو فون کر کے صورت حال بتا دی یا شاید اس فیصلے کے خلاف اس کی عدالت میں رحم کی اپیل دائر کر دی۔
ادھر ہسپتال میں فیصل کا چیک اپ کر نے کے بعد ڈاکٹر نے کہا ’’بظاہر تو بیماری کی کوئی علامت نہیں ہے ! مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی صدمہ ہے جسے اس کا ذہن قبول نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔!اور ہاں یہ بار بار اپنی ماں کو پکار رہا ہے وہ کیوں نہیں آئیں ؟ “where is his mother ? ڈاکٹر نے تجسس سے پوچھا۔
’’ ۔۔۔she is dead ! ۔۔۔۔‘‘ سہیل نے ان کو بتا یا
’’ـ اوہ ویری سیڈ ! کب ہوا ان کا انتقال ؟ ـ ‘‘ ڈاکٹر افسوس بھرے لہجے میں مخاطب ہوا ۔
’’ ایک سال پہلے ! ‘‘
’’ تو کیا ایک سال سے اس بچے کی یہ حالت ہے ؟ او مائی گاڈ ! ‘‘ ڈاکٹر حیران تھا
’’ نہیں ڈاکٹر صاحب ! دراصل یہ اپنی step mother کو پکار رہا ہے ۔۔۔‘‘سہیل گھٹے ہوئے لہجے میں بولے
’’ اوہ ! یہ بات ہے ! دیکھیں مجھے آپ کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق تو نہیں مگر اس بچے کی خاطر آپ کواپنی مسز سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا ہر قیمت پر ! ورنہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور اور اگر جان بچ بھی گئی تو کسی نہ کسی معذوری کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے ۔۔‘‘ ڈاکٹر
اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ گیا ۔سہیل دل میں سوچ رہے تھے
’’ ڈاکٹر کو کیا پتہ کہ شیریں سے ان کے کیا اختلافات ہیں ؟ Nothing ! تو پھر زندگی کی گوٹ کیوں پھنس کر رہ گئی ہے اور گیم رک سا گیا ہے ؟ ‘‘ خود ساختہ اصولوں اور خاندانی تنازعوں کے بیچ ایک معصوم زندگی سسک رہی تھی ۔خون کے رشتے کیوں خونی رشتے بننے پر تلے ہوئے تھے ؟
دوسری طرف شیریں سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی تھی ۔امی ابا صورت حال جان کر پریشان تھے ۔وہ تو ابھی تک شیریں کے پہلے فیصلے پر لوگوں کی باتوں کی زد میں تھے کہ بیٹی کو بوجھ سمجھ کر اتار پھینکااب اس کا موجودہ فیصلہ لوگوں کی زبانوں کو نیا رنگ دے دے گا !مگر ان کے دل مطمئن تھے ۔جس طرح شیریں کا پہلا فیصلہ نیک نیتی پر تھا اس طرح اب بھی بہت سے چہروںکا سوال تھا جسے وہ رد نہ کر سکتی تھی ! اس سارے کھیل میں وہ بظاہر شکست خوردہ تھی مگر جس وکٹری اسٹینڈ پر وہ کھڑی تھی وہاں عام نظر کا پہنچنا محال تھا ۔اس نے فئیر گیم کھیلا تھا کوئی فائول پلے نہیں کیا تھا لہذا اس کا مورال بلند تھا ۔ مگر اس کو تصور میں اپنے بہن بھائیوں کے خشمگیں چہرے نظر آرہے تھے جنہوں نے اس شادی کی حد درجہ مخالفت کی تھی ۔وہ لوگ تو اس کا جینا دوبھر کر دیں گے ! فی الوقت تو وہ سب وطن سے دور تھے مگر اس کی واپسی کی خبر ایسی نہ تھی کہ ان سے چھپی رہ سکتی ہو!
وہ ان ہی سوچوں کا شکار تھی کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی ! اس نے پر امید نظروں سے فون کو دیکھا کہ شاید گھر سے آیا ہومگر دوسری طرف اس کا کزن نجم تھا جو اس سے شادی کا امیدوار رہ چکا تھا ۔شیریں کی واپسی کی اطلا ع اس تک پہنچ چکی تھی اور اس وقت طنز بھرے لہجے میں پوچھ رہا تھا کہ کیوں اس گھر کو تمہاری قربانی پسند نہیں آئی ۔؟ و ہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکی ۔ریسیور واپس رکھتے ہوئے اس نے سوچا ’’ گویا میراڈی مورالائزیشن شروع ہوگیا ۔۔۔! ‘‘
اسی وقت دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ۔اس نے دیکھا تو عدنان بھائی کھڑے تھے ۔وہ حیرت سے چونک گئی ’’ میں آپ کو لینے آیا ہوں ۔۔۔۔۔پلیز آپ مجھ سے کوئی سوال نہ کیجیے گا ! جلدی کریں ۔۔۔۔۔۔۔‘ ‘ ہڑ بڑا ہٹ میں اس نے پرس اٹھا یا ، چادر لپیٹی اور امی اباکو خدا حافظ کہہ کر عدنان بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ تمام تر اختلافات کے باوجود اسے عدنان بھائی ہمیشہ سے اچھے لگتے تھے ۔ خوش اخلاق ، سنجیدہ ، برد بار !
’’ اپنی ماں بہن کے دبائو میں آکر انہوں نے یہ احمقانہ شرط باندھ دی تھی مگر شاید انہیں اس فیصلے پر پچھتاوا ہے !‘‘ یہ تھا گمان جو شیریں نے قائم کیا مگر اس وقت ان کے چہرے پر اتنی سنجیدگی تھی کہ اسے اپنی رائے غلط محسوس ہوئی ۔ اور جب گاڑی ایک دم شہید ملت روڈ کی طرف مڑ گئی تو وہ چونک پڑی ’’ کیا مجھے عدنان بھائی سے کوئی خطرہ ہے ؟ ‘‘ خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی ۔ کل ہی تو اس نے اخبارمیں پڑھا تھاکہ ایک شخص نے اپنی بہن کی سوکن کو گولی سے اڑا دیا ۔لمحے بھر میں سینکڑوں وسوسے اس کے ذہن میں آگئے ۔سردیوں کی اس تاریک رات میں وہ ان کے رحم و کرم پر تھی ۔ کل جب اخبار میں اس کے قتل یا گم شدگی کی خبر شائع ہوگی تو اس کی سر خی کیا ہوگی ؟ یہ ہوتا ہے خوش گمانی کا انجام ! اور کرو شیریں لوگوں پر اندھا اعتماد !
شیریں کا لوگوں پر اس قدر بھروسہ کرنا خود اس کے لیے خطرہ بن سکتاہے ۔۔۔۔۔! ‘‘ اس کے کانوں میں اپنے بڑے بھائی کی بر سوں پہلے کہی بات گونج گئی ۔وہ آنے والے خطرے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگی۔
(جاری ہے)

حصہ