میں انزلیکا ہوں

201

فارحہ کمال
پنوکا (Ponka) سے ایڈمنٹن ائر پورٹ کا سفر کچھ زیادہ طویل نہ تھا، مگر لوط اپنی نیند خراب ہونے کی وجہ سے خاصا بے چین تھا۔ دراصل میں یوسف کے کہنے پر اس کا کافی اسٹرکٹ روٹین رکھتی ہوں۔ وقت پہ اٹھانا، وقت پہ کھانا کھلانا اور کھیلنا، اور وقت پہ سلانا۔ کبھی شاپنگ یا کسی اور کام سے باہر نکلنا ہو تو بھی اس کی نیند کے وقت سب کام چھوڑ کر گھر جانا پڑتا ہے کیونکہ اپنے بستر کے سوا کہیں اور سو ہی نہیں پاتا۔ بس اب تو دعا ہی کررہی ہوں کہ ہوائی جہاز کا سفر، ماما پاپا کے پاس رکنا اور واپسی کا سفر اللہ تعالیٰ میرے لیے آسان بنائے۔ کتنے عرصے سے میں اس دن کا انتظار کررہی تھی جب میں اپنے ننھے شہزادے کو لے کر اپنے پیارے پاپا کے پاس جائوں گی، اور اب ائرپورٹ تک کا سفر کاٹنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔
’’یوسف! تم بھی ساتھ چلتے تو مجھے آسانی ہوجاتی۔ میں کیسے اسے سنبھالوں گی؟ دیکھو تو کتنا پریشان کررہا ہے۔‘‘ میں بالآخر دل کا شکوہ زبان پر لے آئی۔’’انزلیکا! تمہیں پتا ہے میرا سارا بزنس گرمیوں کے موسم ہی میں چلتا ہے۔ پہلی برف پڑتے ہی لینڈ اسکیپنگ کا کام اگلے سات آٹھ ماہ کے لیے معطل ہوجائے گا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ذرا انتظار کرلو سردیوں تک، تو میں بھی ساتھ چل سکتا ہوں، مگر تمہیں ہی اپنے پاپا سے ملنے کی اتنی جلدی تھی۔ اب تم اتنا زیادہ بھی پریشان نہ ہو۔ دیکھنا پورے ٹریول میں تم کو بالکل تنگ نہیں کرے گا۔ بہت پیارا بیٹا ہے میرا۔ اس کو بیسنٹ میں لٹا دینا اورخود بھی اچھی سی نیند لے لینا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر…‘‘ میں کہتے کہتے رک گئی۔ اب اس وقت مزید بحث کا کچھ حاصل نہ تھا۔ میں باری باری بیگ سے مختلف رنگ برنگے کھلونے نکال کر اسے بہلا رہی تھی۔ ائرپورٹ اترکر چیک اِن اور تھوڑے انتظار کے بعد بالآخر ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے میں نے یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ لوط بیسنٹ کے اندر خوش نظر آتا تھا اور ٹیک آف کو چند ہی منٹ گزرے تھے کہ وہ گہری نیند سو گیا۔ میرا خیال تھا کہ میں بھی فوراً ہی سو جائوں گی، مگر شدید تھکن کے باوجود نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی تو سوچیں مجھے جست لگاکر چھ سال قبل کے وقت میں لے گئیں۔ اُس وقت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے رشیا سے کینیڈا آنے کی تیاری کررہی تھی اور میرا خواب تھا کہ میں کچھ بن کر ہی واپس لوٹوںگی۔ ایسا نہ تھا کہ سینٹ پیٹرز برگ میں کوئی اچھی یونیورسٹی نہ تھی۔ بس اُس وقت میرے اندر بڑا جذبہ اور توانائی تھی کہ کچھ خاص کرکے دکھایا جائے۔ دراصل میں اپنے والدین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی تھی، ان کی ساری دلچسپی اور توجہ کا مرکز و محور۔ انہوں نے ہمیشہ میری ہر جائز اور ناجائز خواہش کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کیا، یہاں تک کہ جب میں نے انہیں ٹورانٹو یونیورسٹی میں ایڈمیشن کی خبر دی تو ان کا ردعمل میرے تمام خدشات کے برعکس تھا۔ کینیڈا میں میری تعلیم کی خواہش کو انہوں نے اپنی خوشی جان کر بھرپور تعاون اور مسرت کا اظہار کیا، بلکہ بابا نے تو شارٹ نوٹس پر ایک دعوت بھی منعقد کرلی تھی جس میں چرچ کے پاسٹر کے علاوہ ماما پاپا کے قریبی دوستوں کے خاندان بھی مدعو تھے۔ میں نے بھی اپنی دوستوں کو بلایا تھا، خاص طور پر اُن دونوں کو جنہوں نے میرے ساتھ ٹورانٹو یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔ اس پارٹی میں بہت مزا آیا تھا۔ آج بھی کبھی فرصت ہو تو میں اس تقریب کی تصویریں اور ویڈیوز نکال کر دیکھتی ہوں اور اپنی یادیں تازہ کرتی ہوں۔
میرے پاس تیاری کے لیے زیادہ وقت نہ تھا کیونکہ تین ہفتے کے بعد سیشن شروع ہونے والا تھا۔ جلدی جلدی ضروری سامان کی خریداری کی، قریبی رشتے داروں سے الوداعی ملاقاتیں کیں، اپنی ساری پرانی چیزوں کو چھان پھٹک کر ٹھکانے لگایا اور لے جانے کے لیے دو سوٹ کیسز میں مختصر سامان پیک کیا۔ میں اتنی پُرجوش تھی کہ یہ سوچنے کا خیال ہی نہیں آیا کہ میں اپنے اتنے محبت کرنے والے والدین کے بغیر کیسے رہوں گی!
جانے سے پہلے آخری رات پاپا مجھے دریائے نیوا (Neva) کے کنارے چہل قدمی کے لیے لے گئے۔ وہاں ہمیشہ کی طرح خوب رونق تھی۔ ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔ زیادہ تر لوگ دریا کے اوپر بنے برج کے کھلنے کا دل کش منظر دیکھنے کھڑے تھے جو ٹھیک پانچ منٹ کے بعد دس بجے کھلنا تھا لیکن پاپا مجھے خلافِ معمول آج واک کرتے کرتے آگے لے آئے۔ یہاں نسبتاً کم رش تھا۔ خال خال ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ ہم دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کررہے تھے کہ اچانک پاپا نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر چند قدم چل کر ٹھیرگئے۔ اُس وقت میری ایسی جذباتی کیفیت تھی یا شاید اگلے دن سب کو چھوڑ کر جانے کا تصور تھا کہ میرا دل گویا کسی نے اپنی مٹھی میں بھینچ لیا ہو۔ میں بڑی مشکل سے ہر طرف نظریں گھما کر اور پلکیں جھپک جھپک کر اپنے آنسو روکنے کی کوشس کررہی تھی اور پاپا سے آنکھیں ملانے سے قاصر تھی۔ مگر انہوں نے مجھے آواز دے کر اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا:
’’انزلیکا! میری پیاری بیٹی!!‘‘
’’جی پاپا شا!‘‘ میں نے بھی محبت سے گندھی ہوئی آواز میں بمشکل تھوک نگل کر جواب دیا۔
’’بیٹی! تم ہم سے بہت دور جارہی ہو۔ میری دعا ہے کہ آسمانی باپ ہمیشہ تمہاری حفاظت کرے۔ میں نے پہلے کبھی تمہیں عیسائیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا مگر اب وقت آگیا ہے کہ تم سنجیدگی سے اس بارے میں سوچو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے ایک خوب صورت سبز رنگ کی ڈبیا نکالی اور اسے کھول کر روپہلے رنگ کی نازک سی زنجیر نکالی جس میں ایک صلیب کی شکل کا پینڈنٹ پڑا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے یہ زنجیر مجھے پہنائی تو میں انکار نہ کرسکی۔ شاید اس وقت مجھے بھی کسی غیبی مدد کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جو اجنبی اور انجان جگہ پر میری حفاظت کرسکے۔ میں بے اختیار آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ لگئی اور ان آنسوئوں کو بہہ جانے دیا جو میرے اداس دل پر گررہے تھے۔ ان سے لپٹ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی ہلکی ہلکی ہچکیوں سے رو رہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد ہم دونوں نے خود کو نارمل کیا اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔ ہمارے بائیں طرف موسم گرما کا دریا کا ہموار بہتا پانی تھا جو ریلنگ کے ساتھ لگی خوب ساری لائٹوں کی روشنی کو منعکس کررہا تھا، جب کہ روش کے داہنی جانب تازہ تراشیدہ گھاس کے پتوں پر اوس کے قطرے چمک رہے تھے۔ میری پلکوں پہ ٹھیرے آخری چند آنسو بیک وقت ان تمام روشنیوں سے چمک رہے تھے اور میں اس سارے منظر کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرنے کی حتی الامکان کوشش کررہی تھی۔
یہ تین ہفتے اس طرح پَر لگا کر اڑ گئے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ ہوش آیا تو میں ٹورانٹو ائرپورٹ پر تھی۔ پورا سفر سوتے سوتے گزر گیا کیوں کہ کئی دن مصروفیت کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہو پا رہی تھی۔ یونیورسٹی کے اسکار برو کیمپس میں رہائشی اپارٹمنٹ میں تمام انتظامات ماما نے ہم تینوں کے ایڈمیشن کی تفصیلات معلوم کرکے پہلے ہی کرا دیے تھے۔ ٹیکسی لے کر وہاں تک پہنچنے میں شام کے پانچ بج گئے تھے۔ شکر ہے کہ کلاسز شروع ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ تھکن سے شاید بخار چڑھنے کو ہے۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی میں نے کپڑے نکال کر مشترکہ واش روم میں شاور لیا۔ بیگ سے بخار کی دوا نکال کر کھائی اور لیٹ گئی۔ اگرچہ پورا سفر سوکر گزارا تھا مگر تھکن کے اثرات تھے اور باقی کسر جٹ لیگ نے پوری کردی تھی۔ جب آنکھ کھلی تو دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ اگلے کئی دن یونیورسٹی میں سٹنگ اور پڑھائی کی مصروفیت ایسی رہی کہ سر کھجانے کی فرصت مشکل سے ملتی، یہاں تک کہ میں نے اپنے لمبے حسین بال بھی کاٹ کر چھوٹے کرلیے کیونکہ میں ان کا بالکل خیال نہیں رکھ پا رہی تھی۔ دن بھر کلاسز اور پھر ویک اینڈ پر پراجیکٹ میں اتنا مصروف رہتی کہ ماما بابا سے بھی مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی تفصیلی بات ہوپاتی۔ باقی دن ہم واٹس ایپ پر کنکٹڈ رہتے۔ وہ میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے کم ہی شکوہ کرتے تھے۔ مجھے جب بھی بابا کی یاد آتی تو بے اختیار میرا ہاتھ اپنے گلے میں پڑے پینڈنٹ پہ جاتا اور ایک انجانے اطمینان کی لہر پورے بدن میں دوڑ جاتی۔
سمسٹر ختم ہوا تو کچھ فرصت ملی۔ اگرچہ سمسٹر میں بھی دو مضامین لیے تھے، تاہم اتنا وقت ضرور مل جاتا کہ آس پاس لوگوں سے ہیلو ہائے سے آگے بڑھ کر بھی بات چیت ہوجاتی۔(جاری ہے)

حصہ