چین امریکا تعلقات نئے تقاضے

310

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ چین سے پہلے بھی کوئی ڈرامائی توقعات وابستہ نہ تھیں البتہ دلچسپی ضرور تھی کہ اس دوران صدر ٹرمپ کوئی ایسی ویسی بات نہ کردیں جو اخبارات اور میڈیا کی شہ سرخی اور بریکنگ نیوز بن جائے۔ چینی صدر زی چن پنگ تو ایک سنجیدہ شخصیت ہیں اور وہ صرف طے شدہ موضوعات پر نپی تلی بات کرتے ہیں، لیکن ٹرمپ کا معاملہ جدا ہے، وہ کسی بھی وقت کوئی بھی بات کرسکتے ہیں۔ صدارتی دوڑ میں اُن کی کامیابی کی ایک وجہ بھی اُن کی اشتعال انگیزی اور منہ پھٹ ہونا تھا۔ وہ امریکی کلچر کا ایک نادر نمونہ تھے۔ وہ زیادہ رکھ رکھائو اور سلیقے سے بات کرنے کے قائل نہ تھے اور کسی کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ لیکن صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد ان کو اب سفارتی آداب، اور دیگر اقوام کی قیادت سے ملاقات اور مذاکرات کے دوران امریکی مفادات کا خیال بھی رکھنا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں اب چین کا ایک اہم کردار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی مارکیٹ کی سرمایہ کاری میں چین کا حصہ 4.5 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ آئندہ اپنی اقتصادی پالیسیوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہوسکتا ہے کہ امریکی حکومت کو چین سے قرضہ لینا پڑے۔ امریکی مارکیٹوں میں چینی سرمایہ کار بری طرح گھس چکے ہیں۔ وہ چند لاکھ ڈالر لے کر نیویارک ایئرپورٹ پر اترتے ہیں، وہاں سے ٹیکسی پکڑ کر چائنا ٹائون کا رخ کرتے ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے، اور پہلے ہی دن سے کوئی کاروبار پکڑلیتے ہیں۔ اگر آپ چائنا ٹائون جائیں تو ایسا لگے گا جیسے آپ چین کے کسی شہر کے بازار میں گھوم رہے ہیں۔ چینی لوگ، مصنوعات، ثقافت، زبان سب کچھ وہاں نظر آئے گا۔ امریکی شہروں میں ایک ڈالر یا دو ڈالر شاپس آپ کو نظر آئیں گی جہاں ہر چیز چینی ساختہ ہوگی۔ سستی چیز صرف چین ہی کی ممکن ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ’’ایک چینی ایک بڑی دکان میں داخل ہوا اورکسی امریکی ساختہ چیز کا پوچھا جو وہ خرید سکے، لیکن ایسی کوئی چیز اس کو نہ مل سکی۔ پھر وہ سیلز گرل کے پاس آیا، اور کہا کہ کیا آپ میرے ساتھ چین جانا پسند کریں گی کیونکہ میری اماں نے مجھ سے تقاضا کیا تھا کہ میرے لیے کوئی امریکی ساختہ تحفہ لے کر آنا‘‘۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ امریکا کی ایک بڑی انڈسٹری آٹو موبائل کی ہے یعنی گاڑیوں کی، لیکن اب اس پر بھی چینی چھا گئے ہیں۔ گاڑی کا انجن، چیسس، باڈی تو امریکا بناتا ہے لیکن اس کے اوپر جو بھی چیز چڑھتی ہے اور تمام Accessories چین کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ مجھے نیویارک سے بوسٹن جانا تھا۔ ریل کا کرایہ 70 ڈالر اور بس کا 40 ڈالر تھا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ چائنا ٹائون سے بس جاتی ہے، فلاں چوک پر بس اسٹاپ پر کھڑے ہوجائو، ایک بس آئے گی اس پر چڑھ جانا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ چینی ڈرائیور بس چلا رہا تھا اور کرایہ صرف 19ڈالر لیا۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران چین کے خلاف بولتے رہے اور امریکی قوم کو لتاڑتے رہے کہ وہ کیوں چینی مصنوعات استعمال کرتی ہے! اب تو سرکاری ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کو مل رہے ہیں۔ امریکی ہسپتالوں کا فرنیچر گوانگ زو سے بن کر آتا ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی توازن بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے، لیکن وہ اب تک کچھ بھی نہ کرسکے۔
اس دورے کا ایک بڑا مقصد شمالی کوریا کو نکیل ڈالنے کے لیے چین کا تعاون حاصل کرنا تھا۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ جونیئر نے اپنے جارحانہ اقدامات سے امریکی قیادت کو زچ کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ مسلسل طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربے کررہا ہے۔ اُس نے اس دوران ایٹمی تجربہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور ہائیڈروجن بم بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وہ امریکی شہریوں کو ہدف بنانے کی دھمکی بھی دے رہا ہے اور امریکی اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا کو بھی دھمکا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیاں اور جوابی کارروائیاں اُس پر کوئی اثر نہیں کررہی ہیں۔ ٹرمپ نے اس کو ماٹا، بے ڈھنگا اور بداخلاق کہا ہے لیکن وہ امریکا کے مقابلے کے لیے پُرعزم نظر آتا ہے۔ شمالی کوریا کا سب سے بڑا کاروباری پارٹنر چین ہے، اور چین کا اس پر اثر رسوخ ممکن ہے۔ اس لیے امریکا کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا کو کسی معاہدے پر مجبور کرنے کے لیے چین اس کا ساتھ دے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ چین اپنی تجارتی منڈیاں اس کے لیے کھولے جس میں کمپیوٹر، کاریں اور جہاز وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن وہ اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی چین کو نہیں دینا چاہتا کیونکہ یہی ایک نکتہ ہے جس میں امریکا کو چین پر سبقت حاصل ہے۔
امریکی صدر نے چین کے معاملے میں ایک اور پالیسی شفٹ بھی کرنے کی کوشش کی تھی، اور وہ تائیوان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بحال کرنا ہے۔ جب سے امریکا نے ’’ون چائنا‘‘ پالیسی اختیار کی ہے اس نے تائیوان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیے۔ تائیوان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جس کو اقوام متحدہ تسلیم نہیں کرتا اور صرف 23 ممالک کے اُس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جب کہ ایک زمانے میں وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن تھا اور جمہوریہ چین کہلاتا تھا۔ صدر نکسن کے دور میں ہنری کسنجر نے پاکستان کے ذریعے چین سے رابطہ کیا اور PIAکے جہاز کے ذریعے پہلی مرتبہ چین کا دورہ کیا۔ 1972ء میں امریکا نے چین کو تسلیم اور 1949ء میں مائوزے تنگ کی قیادت میں بننے والے کمیونسٹ ملک کو چیانگ کائی شیک کی قیادت میں ایک جزیرے پر بننے والی چھوٹی سی ریاست پر ترجیح دی اور چین کا ’’ون چائنا‘‘ماننے کا مطالبہ مانا۔ تائیوان ایک علیحدہ ریاست کی شکل میں اب بھی موجود ہے اور چین سے انضمام کرنے سے انکاری ہے، لیکن چینی قیادت نے بھی کمالِ فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے کوئی غرض یا دشمنی نہیں رکھی بلکہ اس کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے سے پہلے تائیوان کے صدر سائی انگ وین سے فون پر بات کی اور خوشگوار تعلقات کی نوید سنائی۔ جب چین نے اس پر احتجاج کیا تو کچھ عرصے بعد وضاحت کی گئی کہ فون اُس طرف سے آیا تھا اور صرف مبارک باد دینے کی غرض سے کیا گیا تھا اور چین کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔
دنیا کی دو بڑی طاقتوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ، رقبہ 9.6 ملین کلومیٹر ہے، جس میں 5 ٹائم زون ہیں۔ چینی فوج کی کُل تعداد 23 لاکھ ہے جب کہ دفاعی بجٹ کا اندازہ 132ملین ڈالر ہے۔ چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ٹریلین ڈالر سے زائد ہیں۔
امریکا کی آبادی 323.1 ملین اور رقبہ 9.8 ملین کلومیٹر ہے، جس میں 3 ٹائم زون ہیں۔ امریکی باقاعدہ فوج کی تعداد 14لاکھ ہے جب کہ دفاعی بجٹ کا اندازہ 597 بلین ڈالر، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکا کے زرمبادلہ کے ذخائر 18.5ٹریلین ڈالر سے زائد ہیں۔
مبصرین نے اس دورے سے پہلے ان دونوں سپر طاقتوں کے قائدین کا بھی موازنہ کیا۔ 64سالہ چینی صدر چن پنگ 2012ء سے برسر اقتدار ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری، پیپلز آرمی کے کمانڈر انچیف کو حال ہی میں پیپلز کانگریس نے دوسری بار آئندہ پانچ سال کے لیے دوبارہ منتخب کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے بانی آنجہانی مائوزے تنگ کے بعد ان کو چین کی سب سے مضبوط شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کی قیادت اور ملکی معاملات پر گرفت مکمل سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مقابلے میں 72سالہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو گزشتہ 10ماہ سے برسر اقتدار ہیں امریکی افواج کے کمانڈر انچیف ہیں اور دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے قائد ہیں۔ ان کی شرح مقبولیت اس وقت 38 فیصد ہے جو کسی بھی دورِ صدارت میں سب سے کم شرح ہے۔ ان کی صدارت کو بہت سے خطرات لاحق ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ دورانِ انتخابی مہم ان کی حمایت میں روسی حکومت کی لابنگ ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں اور کسی بھی وقت ان کی شخصیت اور منصب کو متاثر کرسکتی ہیں۔ ان کے کئی قریبی ساتھی مستعفی ہوچکے ہیں اور بعض تیاری کررہے ہیں۔
امریکی صدر اور خاتونِ اوّل جب بیجنگ پہنچے تو ان کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا۔ 7نومبر سے 10نومبر تک ان کے لیے زبردست شیڈول بنایا گیا۔ اقتصادی تعاون کے کئی منصوبوں پر مذاکرات اور معاہدے ہوئے۔ امریکی اور چینی نجی کمپنیوں کے درمیان بھی باہمی منصوبے بنے۔ چین میں مزید امریکی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ سرکاری مذاکرات میں چین کے بڑے عالمی منصوبے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کی بھی وضاحت ہوئی جس پر امریکی دانش ور تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ امریکی صدر کو چین کے تاریخی مقامات کا دورہ بھی کرایا گیا۔ مجموعی طور پر دورے میں خیر سگالی کے جذبات رہے۔ دونوں قائدین نے باہمی تعاون اور مفاہمت کا رویہ اختیار کیا۔ دورے کے فوراً بعد دونوں سپر پاورز کے صدور ویت نام اور فلپائین اکٹھے گئے اور وہاں دیگر ممالک کے سربراہان کے ساتھ کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں امن کے لیے ان دونوں طاقتوں کے درمیان مفاہمت ضروری ہے۔ لیکن شمالی کوریا کے معاملے میں غالباً امریکا کو چین سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، کیونکہ اس دورے کے فوراً بعد شمالی کوریا نے دور مار میزائل کا ایک کامیاب تجربہ کیا اور دعویٰ کیا کہ اب وہ امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس پر برانگیختہ ہوکر امریکا نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلالیا۔ لیکن اب چین سے پہلے روس نے شمالی کوریا کی حمایت، اور اس کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کی مخالفت کردی۔ یعنی امریکا کے گلے میں یہ ہڈی پھنسی رہے گی۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

حصہ