نصف ایمان

208

حور مختار
میں گھر کی صفائی کر رہی تھی کہ جلدی سے کام کاج سے فارغ ہو جائوں کہ بچے اسکول سے آتے ہوں گے۔ ایک دم سے میری نظر کھڑکی سے باہر گلی پر پڑی جہاں کچرے کا ڈھیر اور گندا پانی بہہ رہا تھا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ مسلم ملک ہے جس کے مذہب میں طہارت کو ’’نصف ایمان‘‘ کہاگیا ہے؟ کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہماری گلی‘ محلے میں نظر آتا ہے؟
یہ سوچتے سوچتے میں آج سے 15 سال پیچھے چلی گئی جب میری شادی ہونے والی تھی اور بھائی اپنی فیملی کے ساتھ امریکا سے آرہے تھے۔ بھائی کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے تھے سب سے بڑا علی جو 12 سال کا تھا‘ ماہم دس سال کی‘ 8 سال کا شعب جس کو پیار سے شوبی کہتے ہیں‘ یہ بہت شرارتی اور نٹ کھٹ بچہ ہے۔ اب جو وہ آرہے تھے تو ان کے ساتھ دو چھوٹے نئے مہمان بھی تھے یعنی ان کے جڑواں بچے عافیہ اور عرفان جو اب ایک سال کے ہوگئے تھے۔
امی‘ ابو کو ان کا بے چینی سے انتظار تھا کیوں کہ ہم دو ہی اولادیں ان کے کل سرمایہ تھے۔ ابو کی محنت اور امی کی کفایت شعاری‘ سلیقہ مندی سے اپنا چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔ ہم دونوں کو اچھی تعلیم دلوائی‘ بھائی تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کو اچھی جاب مل گئی۔ امی نے اس کی شادی کر دی۔ بھابھی اچھی عادت کی تھی‘ کچھ عرصے کے بعد بھائی کو کمپنی کی طرف سے بیرون ملک اچھی نوکری مل گئی‘ وہ اپنی بیوی کو لے کر چلے گئے۔
امی‘ ابو کو اپنے بیٹے کا بے چینی سے انتظار تھا۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آیا جب ہم سب ان کو ائر پورٹ لینے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہماری پھوپھو بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ رات دس بجے کی فلائٹ تھی ہم لوگ آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوئے۔ جب ہم ائر پورٹ پہنچے تو کچھ ہی دیر کے بعد جہاز کی آمد کا اعلان ہوا۔ ہم سب بے چینی سے ان کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کسٹم وغیرہ سے فارغ ہو کر جب وہ آئے تو یہ ایک جذباتی منظر تھا۔ جب امی‘ ابو‘ بھائی‘ بھابھی گلے مل رہے تھے۔ علی‘ ماہم اور شوبی پھوپھو کہہ کر میرے گلے لگ گئے۔ ہماری پھوپھی کی آنکھیں بھی بیٹی اور داماد سے مل کر نم ہوگئیں۔ پھر یہ چھوٹا سا قافلہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر پہنچ کر سب فریش ہوئے‘ کھانا کھایا‘ باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ امی نے کہا بچو! اب آرام کرو باقی باتیں کل ہوں گی۔
دوسرے دن بھائی‘ بھابھی نے سب کو ان کے تحائف دیے۔ میری شادی کے لیے کچھ سامان لائے تھے‘ وہ امی کو دیے۔
امی نے کہا کہ بیٹا ایک‘ دو دن آرام کرلو پھر عائمہ کی شادی کی خریداری کرنی ہے۔
ابو نے کہا جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کی فہرست بنا لو اور جلدی سے سب کام نمٹا دو۔ 15 دن کے بعد شادی کا ہنگامہ شروع ہو جائے گا۔
بھائی بھابھی نے کہا آپ فکر نہ کریں ہم سب کرلیں گے۔
علی اور ماہم‘ جو دادی‘ ماں باپ کے ساتھ بازار جاتے تھے‘ آنے کے بعد مجھ سے بولے ’’پھوپھو آپ کا شہر اتنا گندا ہے… یہاں اتنے گندے لوگ رہتے ہیں… آپ اپنے شہر کی صفائی نہیں کرتے؟ہمارا ملک تو اتنا صاف ستھرا ہے۔ ہم لوگ کبھی بھی کچرا باہر نہیں پھینکتے۔ چھوٹے سے چھوٹا کاغذ بھی ہم روڈ پر نہیں پھینکتے‘ آپ کے یہاں تو کوئی سی بھی جگہ صاف ستھری نہیں ہے۔ اتنی گندی جگہ پر لوگ کیسے کھاتے ہیں؟‘‘ یہ کہہ کر بچوں نے ایک پھریری لی۔
’’پھوپھو ہم تو ایسے میں جی نہیں بھی سکتے۔‘‘ ماہم نے منہ بنا کر کہا۔ ’’ہم تو یہاں سے جلدی واپس چلے جائیںگے اور دادا‘ دادی کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔‘‘
میں سوچتی رہ گئی کہ جو غیر مسلم ہیں انہوں نے تو ہمارے نبیؐ کی حدیث کو لے کر اپنے معاشرے کو خوب صورت بنا لیا لیکن ہم نے روگردانی کرکے اپنی معاشرے کو ہی گندا نہیں کیا بلکہ اپنے رشتوں کو بھی دور کر دیا۔

حصہ