مٹی کا آب خورہ

509

آسیہ بنت عبداللہ صدیقی
کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ مارکیٹ جائوں اور چند نفیس سے، نازک سے کانچ کے گلاس لے آئوں جن سے جھلکتا ہوا ٹھنڈے یخ مشروبات کا رنگ کچھ عجیب طرح کی بہار دیتا ہے۔ نہ صرف دعوتِ نظارہ دیتا ہے بلکہ آنکھوں میں تراوٹ اور روح میں تازگی اترتی محسوس ہوتی ہے۔ لذتِ کام ودہن کے ساتھ ذوقِِ لطیف اور تسکینِ حجاب و نظر کا سماں بہم پہنچاتا ہے۔ مگر فرحت اور تنخواہ کی آمد دونوں کی شدید ضرورت تھی اور دونوں ہی فی الحال ندارد۔
یوں رمضان کا چاند نظر آتے ہی سب کچھ بھول بھال کر سحری کے انتظامات میں لگ جانا ایک قدرتی امر تھا۔ پہلا روزہ، شدید گرمی، نامناسب سا شیٹوں والا مکان ساری دوپہر تپتا رہا۔ شام ہوتے ہوتے طبیعت خاصی نڈھال ہوگئی۔ کھانا پکانے کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ رات کے بچے ہوئے سالن سے کام چلانے اور تندور سے روٹی منگوانے کا فیصلہ کرکے عصر کی نماز کے بعد صحن میں بچھے ہوئے تخت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔
’’امی جی افطاری کے لیے کیا بنے گا؟‘‘بارہ سالہ بچی سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔
’’ہوں… ایسا کرو اپنے ابا سے کہہ کر کھجور اور پکوڑے منگوا لو، اور ہاں زبردست ٹھنڈا بہت سا شربت بھی تیار کرلینا، بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘
اذان ہونے پر تلاوت میں مصروف چونک کر اپنے دائیں جانب نگاہ ڈالی۔ ساری چیزیں موجود تھیں۔ دو پلیٹوں میں کھجور اور پکوڑے رکھے تھے اور جگ بھر شربت بھی تیار تھا۔ کھجور حلق سے اترتے ہی پیاس نے رنگ دکھایا۔ ’’لائو بیٹی جلدی دو‘‘ گلاس لینے کے لیے ہاتھ خودبخود بڑھ گیا۔ اسٹیل کا گلاس شربت سے لبالب بھرا تھا۔ ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے ہاتھ رکنے لگا۔ یہ کیا؟
طبیعت کی نفاست اور ذوقِ لطیف کو زبردست جھٹکا لگا۔ بدہیت لوٹے سے گلاس نے مشروب کی ساری خوبصورتی اور رنگینی کو نگل لیا تھا۔ صرف ٹھنڈک تھی جو ہاتھ میں لینے پر محسوس ہوئی تھی۔ نظر کے سامنے وہ بلوریں نفیس نازک گلاس سے چھلکتے ہوئے مشروب رقص کرنے لگے جو اپنے رنگوں کی بہار کچھ اور طرح سے دکھاتے اور گلاس کی سطح پر آئی ہوئی شبنم کے ساتھ روح افزا منظر ہوتا ہے۔
’’امی جان کیا سوچنے لگیں؟ پی لیں ناں۔‘‘
’’ اوہ… ہاں‘‘۔ جلدی سے گلاس خالی کرکے آگے بڑھا دیا۔
’’اور لیجیے۔‘‘
’’نہیں بس۔ اب سادہ پانی دے دو!‘‘ پانی کا گلاس چڑھا کر خود نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔
’’پروردگار یہ کیسی زندگی ہے؟ چند گلاس کانچ کے نہ خرید سکی، جو ذوقِ لطیف کو تسکین مہیا کریں۔ یہ ذوق بھی تو تیرا ہی عطا کیا ہوا ہے ناں۔‘‘ رفیقِ اعلیٰ کے حضور سارے ہی دکھ کہہ دینے کو دل چاہنے لگا۔ جی بھر آنے لگا اور چند آنسوئوں نے راستہ بھی بنایا۔ تھوڑا سا گریبان بھی بھیگا… اپنی اس نازک مزاجی کو وہ کیا کرتی؟ کہاں لے جاتی؟ کس کونے میں دفن کرکے آتی؟ اس کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں تھا سوائے آنسوئوں کے۔
نماز کے فوراً بعد بیٹی نے دسترخوان لگا دیا۔ وہ بھی اپنی ماں کا مزاج جانتی تھی، سمجھ گئی تھی طبیعت پر کچھ نہ کچھ بار گزرا ہے تبھی چہرہ بدلا بدلا سا ہے۔ جلدی سے دستر خوان لگا دیا۔ شاید کھانا کھا کر طبیعت بہل جائے۔
رات کا سالن بھی تو بہت مزے کا بنا تھا ناں۔ چھوٹا بیٹا تندور سے روٹی لے آیا۔ اخبار کا رنگین کاغذ روٹی پر لپٹا تھا۔ روٹیاں دستر خوان پر رکھ دی گئیں اور اس نے اخبار فوراً لپک لیا۔ رنگین صفحہ بھلا کیسے چھوڑتی! باورچی خانے میں آیا ہوا سامان ڈبوں میں چلا جاتا اور کاغذ ہاتھ میں رہ جاتے۔ بغیر پڑھے چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس مشغلے میں کئی دفعہ بڑی کام کی باتیں نظر سے گزریں اور کئی دفعہ بڑی غمگین خبریں بھی۔ پھر لمحوں اداس رہنے کا سامان بھی ہوا۔ وہ بھی کیا کرتی، فطرت سے مجبور تھی۔ اب جو روٹی والے اخبار پر نظر ٹکی تو نگاہیں ہی ہٹانا بھول گئی۔
بہت ہی قیمتی بات دیکھی تھی۔ اتنی قیمتی کہ سارے جہاں کی دولت اس پر لٹائی جا سکتی تھی۔ اس کے آگے رکھا ہوا کھانا کیسے یاد رہتا! لکھا تھا:
’’…مومنوں کی ماں حضرت عائشہؓ کے گھر کا سامان ایک مٹی کا گھڑا، ایک گدا جس میں کھجوروںکی چھال بھری تھی، ایک لوٹا اور دو مٹی کے آبخورے، جس سے حضور سرورِکائنات طعام و نوش کا کام لیا کرتے تھے…‘‘
’’آہ… شہنشاہِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا یہ سامان… مگر نہیں، وہ مٹی کے آبخورے اپنی قسمت پر کس قدر ناز کیا کرتے ہوں گے۔ آپ ؐ جو معراج کی رات جنت الفردوس کا بہ نفس نفیس مشاہدہ فرما چکے تھے کیا آپؐ کے ذوقِ نفیس سے بڑھ کر بھی کسی کا ذوق ہوسکتا ہے! کیا آپ کے مزاجِ گرامی سے بڑھ کر بھی کسی کا مزاج نازک ہوسکتا ہے!…نہیں ہرگز نہیں۔ پھر آپؐ نے مٹی کے آبخوروں سے تناول فرمایا اور امت کو وہ آیتیں سنائیں جو کہتی ہیں: ’’اہلِ جنت اس روز عیش و نشاط کے مشغلوں میں ہوں گے، ان کے سامنے شیشے کے پیالے گردش کرائے جائیں گے۔ شیشہ بھی وہ جو چاندی کی قسم کا ہوگا۔‘‘
اللہ اللہ، نبیؐ کی امت میں ہونے کے باوجود تجھے اپنے ذوقِ لطیف پر اس قدر ناز ہے؟ اپنے حالات پر اتنی برگشتگی؟ اس قدر افسوس؟ تُو ہے کیا؟ اک ذرۂ بے مقدار، ایک مشتِ خاک!
چٹائی اور پیوند اور یہ زر پوش امت… حرا اور ثور کے غاروں میں جاکر رو پڑوں گا۔
ضمیر نے تازیانے لگائے اور نفس سرنگوں ہوگیا۔
’’اے خدا مجھے معاف کردے، جو کچھ تُو نے مجھے دیا ہے اس پر میرا رواں رواں تیرا شکر گزار ہے۔ یہ فرماں بردار بچے، یہ چاہنے والا شوہر، شفیق والدین… پناہ مانگتی ہوں اس بات سے کہ تیرے ناشکروں میں شمار کی جائوں۔‘‘
کاغذ کو احترام سے تہہ کرکے رکھا اور مطمئن، آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔

حصہ