حقوق برائے فروخت

345

سید اقبال چشتی
اخبارات میں اکثر اشتہارات شائع ہوتے ہیں کہ ’’پلاٹ اور مکان برائے فروخت‘‘ اسی طرح بے شمار اقسام کی اشیاء برائے فروخت ہو تی ہیں لیکن آپ نے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا اور سنا ہو گا کہ کسی کمپنی نے اپنا لوگو اور نام بھی بیچ دیا ہو‘ اگر کوئی ایسا کرتا ہے یا پھر بلا اجازت کسی کے حقوق کو استعمال کرتا ہے تو وہ مجرم کہلاتا ہے۔ لیکن کراچی کے حقوق پر دن دھا ڑے ڈاکا ڈالا جاتا رہا اورکسی حکومت اور ادارے کو خیال نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ سونے پہ سہاگہ حقوق کے نام پر جنم لینے والی پارٹی بھی ’’کراچی برائے فروخت‘‘ پر خاموش رہی شاید اس لیے کہ اس پارٹی کے لوگ خود اس کھیل میں شامل ہیں۔
حقوق کا نعرہ اور رنگ چڑھا کر بعض سیاسی پارٹیاں آج تک جدوجہد کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ جن سیاسی جماعتوں نے حقوق کی جدوجہد کا نعرہ لگایا نہ انہوں نے کبھی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا اور نہ ہی انہیں حقوق دلواسکے‘ اگر حقوق کا نعرہ لگانے والی ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ انہوں نے تو عوام کے حقوق ہی فروخت کر ڈالے ہیں اور ’’حقوق برائے فروخت‘‘ ان کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے جس پر انہیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ مہاجروں کا لوگو(Logo) ’’حقوق‘‘ تھا مگر پارٹی نے اس سلوگن ہی کو فروخت کردیا تو پھر وہ ہر چیز فروخت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’میئر تو دیانت دار ہو نا چاہیے‘‘ جو ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہو۔ اور قوم نے دیکھا بھی ہے کہ نعمت اللہ خان نے کراچی کو اس کے حقوق دلائے اور اس شہر کو چمکتا دمکتا ہوا بنا یا آپ کے دور میں 18 ٹائون میں 36 سے زائد فیملی پارکس بنائے گئے لیکن ان کے بعد آنے والوں نے ایسا کمال دکھایا کہ ان پارکس کی حفاظت تو کیا دیکھ بھال بھی نہ کر سکے بلکہ ان پارکوں کو ٹھیکے پر دے کر کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا اور اپنے دور میں ایک بھی پارک نہ بنا سکے۔ لوٹ مار اور قبضے کا جو سلسلہ مصطفی کمال کے دور میں شروع ہوا تھا‘ عدلیہ آج اُسی کا نوٹس لے رہی ہے۔
گزشتہ کئی سال سے سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکمرانی ہے اور ان کے ساتھ ہر حکومت میں شامل رہنے والی ایم کیو ایم نے دیہی علاقوں کو جہاں محرومیوں کے تحفے دیے وہیں ان دو نوں جماعتوں نے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا بھی ڈالا‘ جس طرح سرکاری اور نیم سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی اس کی مثال نہیں ملتی۔
کراچی جو سندھ کا دارالحکومت ہے‘ دونوں جماعتوں کی نااہلی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اس وقت کراچی ICU میں داخل ہے اور اگر اس پر تو جہ نہیں دی گئی تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سندھ کی اعلیٰ عدلیہ نے کراچی کی ابتر صورت حال کو دیکھتے ہو ئے فوری ایکشن لیا اور ایسے اقدامات کر نے کے احکامات دیے جس سے کراچی کے حقوق کے ساتھ اس شہر کے لوگوں کی سانسیں بھی بحال ہوسکیں تاکہ کچھ تو اس شہر میں زندگی کے آثار نظر آئیں۔
کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی KDA نے عدلیہ کا حکم آتے ہی چائنا کٹنگ اور سرکاری املاک پر بننے والے منصوبوں کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کے ساتھ رفاہی پلاٹوں پر قائم شادی ہالوں اور تعمیرات کو بھی گرانا شروع کردیا اور لینڈ مافیا کے قبضے سے چار سو ایکڑ سے زائد زمینیں جس کی مالیت ایک اندازے کے مطابق دس کھرب روپے بنتی ہے‘ آپریشن کر کے ختم کرایا۔ اسی طرح عدلیہ کے حکم پر KDA نے صرف چھ روز میں 70 سے زائد شادی ہال گرادیے۔ یقینا کراچی میں چائنا کٹنگ اور قبضہ مافیا کے خلاف یہ آپریشن خوش آئند ہے‘ جس سے کراچی کی خوب صورتی میں اضافہ ہو گا اور قبضہ مافیا کو بھی معلوم ہوگا کہ کسی پلاٹ اور میدان پر قبضہ کرنا آسان نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چائنا کٹنگ ہو رہی تھی اور میدانوں پر قبضے جاری تھے‘ سرکاری اراضی پر تعمیرات ہو رہی تھیں‘ باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے مکانات ، پلاٹ اور کاروبار کے لیے دکانیں فروخت کی جارہی تھیں تو اُس وقت سرکاری ادارے اور قانون حرکت میں کیوں نہیں آئے؟ کیا ان کے پاس اختیارات نہیں تھے یا کسی مجبوری اور تساہل کا شکار تھے یا پھر یہ بھی اس کام میں برابر کے حصہ دار تھے کیونکہ جن لوگوں نے قبضہ مافیا کے ہاتھوں بیچے گئے مکانات اور پلاٹ خریدے اس میں اُن کا کیا قصور تھا‘ انہوں نے تو اپنی جمع پونجی خرچ کرکے اپنے کاروبا ر یا سر چھپانے کے لیے جگہ خریدی‘ یقینا اس طرح کی کارروائی سے جہاں نفرت کی آگ بڑھے گی وہیں حقوق کا نعرہ لگانے والے بھی اس آگ کو ہوا دے کر اپنے سیاسی فوائد حاصل کریں گے اس لیے جن لوگوں نے یہ زمینیں بیچی ہیں ان کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ متاثرین کی رقم بھی انہی سے د لوائی جائے۔ لیکن کیا کریں اس ملک میں بے ایمانی کا کام سب سے زیادہ ایمانداری سے ہوتا ہے اس لیے وہ تمام ادارے‘ جن کی زمینوں پر قبضہ ہوا اور ناجائز تعمیرات کی گئیں‘ ان اداروں کے افسران بھی اس کام میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ان کی ذمے داریوں میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کی املاک کا تحفظ بھی شامل تھا۔ اگر کسی افسر یا ادارے نے اُس وقت کوئی کارروائی نہیں کی اور عدلیہ سے رجوع نہیں کیا‘ تو وہ بھی مجرم ہے‘ اس لیے عدلیہ قبضہ واگزار کرانے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے افسران کو بھی سزائیں دے تاکہ آئندہ یہ ادارے اپنی املاک اور شہریوں کا تحفظ کر سکیں۔
عدلیہ کے نوٹس لینے کے بعد اب ادارے اور اس کے افسران ہیرو بن رہے ہیں کہ ہم نے بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے لیکن یہ وہی افسران ہیں جن کے دور میں سرکاری زمینوں ،کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر قبضے ہو تے رہے اور یہ سب اندھے، گونگے ‘ بہرے بنے بیٹھے رہے۔
سندھ کے لوگوں نے بھی اندھے ، بہرے اور گو نگے پن کی انوکھی مثال قائم کی جب شہروں میں بسنے والے مہاجروں اور سندھیوں نے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو اپنے حقوق کرپشن کے ساتھ فروخت کرنے کی اجازت دی کیونکہ ہر بار حقوق کا نعرہ لگا لیکن کسی کو بھی حقوق نہیں ملے۔ پھر بھی تیس چالیس سال سے عوام کرپٹ سیاسی عناصر کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منتخب کرتی چلی آئی ہے لیکن ان بدعنوان پارٹیوں نے حکومت ملنے کے بعد بھی عوام کے حقوق کے ساتھ ملک کے وسائل پر بھی ڈاکا ڈالا اور عوام کو بے وقوف بنا کر ملک سے باہر بھاگ گئے یا پھر ایک بار پھر سے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے سیاسی چالیں چل رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ’’جب تک بے وقوف زندہ ہے عقل مند بھو کا نہیں مر سکتا۔‘‘ عوام نے جن نمائندوں کو ایک نہیں کئی بار اپنے حقوق اور خوش حالی کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا اُن نمائندوں نے عوام کے حقوق کی آواز اسمبلی میں بلند کرنے کے بجائے صرف اپنے اثاثے اور بینک بیلنس میں اربوں روپے کا اضافہ کیا اور یہ تمام دہری شہریت والے لوگ ملک اور قوم کا پیسہ لوٹ کر فرار ہو گئے۔
چائنا کٹنگ اور سر کاری اراضی کو بچنے والوں میں بڑے بڑے نام سامنے آرہے ہیں جو حقوق کا نعرہ لگا کر عوام کے ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے‘ صوبائی اور وفاقی وزیر بھی رہے لیکن عوام آج بھی بجلی، پانی، تعلیم ، تفریحی مقامات کے ساتھ بنیادی سہو لیات کو ترس رہے ہیں۔ تیس سال قبل لگنے والا حقوق کا نعرہ آج پھر نئے سرے سے لگا کر ظلم و ستم کا کھیل کھیلا جائے گا۔ کیا اس سے قبل قوم نے اپنی پارٹی اور اس کے قائدین کو محبت اور پیار کے ساتھ نوٹ اور ووٹ نہیں دیا تھا؟ لیکن پارٹی اور اس کے نمائندوں نے اپنے چاہنے والوں کو پیار کے بدلے نفرت‘ کرم کے بدلے ظلم و ستم اور حقوق کے بدلے ذلت و رسوائی کے تحفے دیے۔ آج عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ہم نے صحیح کیا تھا یا غلط یا پھر ہمارے لیڈر ہمیں غلط راستے پر لے گئے۔ نعیم صدیقی نے اپنے ایک شعر میں ایسی ہی صورت حال کا تذکرہ کیا ہے:
تیری عطا پر تیری جفا پر تیرے کرم پر تیرے ستم پر
سوال ہیں بے شمار دل میں سوال ہیں اور جواب گم ہیں
اگر قوم کو سوالوں کے جواب نہیں مل رہے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اس میں قوم ہی قصوروار ہے‘ اگر قوم کو پاکستان بچانا ہے تو اپنے ووٹ دینے کے رویے کو تبدیل کرنا ہوگا اور ایمان دار‘ کرپشن سے پاک قیادت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منتخب کر نا ہوگا کہ یہی طرز عمل ملک اور قوم کی ترقی کے لیے بہتر ہوگا ۔

حصہ