تلخیص و تحقیق ؍خرم عباسیوقت کا سفر

272

تلخیص و تحقیق ؍خرم عباسی

دو کمانوں سے بھی کم منزلِ سدرہ سے اُدھر
ایک عالم ہے اس عالم کی خبر لاتا کون

اِس کرۂ ارضی پر انسانی زندگی کے آغاز ہی سے نظامِ شمسی انسان کی نگاہوں کا مرکز و محور رہا ہے، اور اس کے جذبۂ تحقیق و جستجو کو امکانات کی نت نئی دنیائوں کی طرف راغب کرتا رہا ہے۔ معلوم تاریخِ نسلِ انسانی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم دَور کا انسان بھی آج کے ترقی یافتہ انسان کی طرح اَجرامِ سماوی کی کرید میں خصوصی دلچسپی لیتا رہا ہے۔ جب ہم نظامِ شمسی سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے مختلف اَدوار میں پنپنے والے افکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ قدیم انسانی معاشروں کے لوگ مظاہرِ فطرت کی پرستش کرتے تھے۔ اُن میں سمیری، کلدانی، بابلی اور مصری اَقوام کا ذکر ملتا ہے۔ وہ لوگ سورج، چاند اور ستاروں کی حرکات پر غور کرتے، اُن کے طلوع و غروب کا مشاہدہ کرتے اور جب اُن کی عقل اِس سارے نظامِ فطرت کو سمجھنے سے عاجز آجاتی تو وہ اُنہی مظاہرِ فطرت کو دیوتا کا درجہ دے کر اُن کی پوجا شروع کردیتے۔ اُن قدیم اَقوام کا نظریہ تھا کہ زمین ساکن ہے جبکہ تمام اَجرامِ سماوی زمین کے گرد گردش کرتے ہیں۔
فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اُس کے گرد حرکت کرتی ہے۔ فیثا غورث کے بعد بطلیموس نے دوبارہ زمین کے ساکن ہونے اور اَجرامِ فلکی کے اُس کے گرد گردش کرنے کا نظریہ پیش کیا، جسے پورے یونان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور زمین کے ساکن ہونے کے نظریے کو مِن و عن تسلیم کرلیا گیا۔ درحقیقت یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا، بطلیموس نے ارسطو ہی کے نظریے کو فروغ دیا تھا۔
اسلامی اندلس کے نامور سائنس دان ابو اِسحق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی نے بطلیموس کے مذکورہ بالا نظریے کا مضبوط دلائل اور مصدقہ شواہد کے ساتھ ردّ کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظام تقریباً ایک ہزار سال سے مسلّمہ حقائق کے طور پر پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا تھا۔ صدیوں سے ذہنوں میں راسخ غلط نظریات کو یکسر بدل کر رکھ دینا یقینا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ زرقالی نے 1080ء میں سورج اور زمین دونوں کے محوِِ حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اِس تھیوری کے مطابق سورج اور زمین دونوں میں سے کوئی بھی مرکزِ کائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ زرقالی کا یہ نظریہ فطرت سے قریب ترین ہے اور یہ سچائی کی دریافت کے سفر میں ایک خوشگوار پیش رفت تھی۔ اِقدام و خطا کا سلسلہ یہاں بھی آکر تھما نہیں اور تحقیق کا سفر جاری رہا۔
کوپرنیکس نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس نظریے کی خرافات پر سے پردہ اُٹھایا اور اہلِ یورپ کو اس نظریے کی فرسودگی سے آگاہ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اِس کرہ ارضی سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں ٹیکوبراہی نامی سائنس دان نے کوپرنیکس کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب تھیوری پیش کی۔ اُس کے مطابق سورج اور چاند دونوں زمین کے گرد محوِ گردش ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
سائنسی حقائق کی تلاش کا سفر جاری رہا۔ جستجو اور تحقیق کے دروازے کھلے رہے۔ تازہ ہوائیں ذہنِ انسانی کو کشادگی اور تازگی عطا کرتی رہیں۔ اٹلی کے مشہورِ زمانہ ہیئت دان گیلیلیو نے 1609ء میں دوربین ایجاد کرنے کے بعد جب کائنات کا مشاہدہ کیا تو اُسے کائنات میں عجائبات کی ایک دنیا آباد نظر آئی۔
گیلیلیو کی توثیق کے بعد جوہانزکیپلر نے ٹیکوبراہی کی دیگر دریافتوں اور رصدگاہی آلات کی مدد سے نئے سرے سے تحقیقات کے بعد کوپرنیکس کے نظریے کو علمی اور تجرباتی سطح پر دوبارہ زندہ کیا۔ واضح رہے کہ کوپرنیکس کے نظریے میں سورج کے گرد تمام سیاروں کے مداروں کو گول (circular) دکھایا گیا تھا۔ کیپلر نے اِس نظریے کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدار بیضوی ہیں، اور یوں کوپرنیکس کی تھیوری میں واقع سقم کو دور کیا۔ اِسی سقم کی وجہ سے یہ نظریہ ایک عرصے تک نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔ اِس سقم کے دور ہوتے ہی اُسے دوبارہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ بالکل وہی نظریہ ہے جو 1080ء میں قرطبہ کے مسلمان سائنس دان زرقالی نے پیش کیا تھا۔
آنے والے کئی سال تک متعدد ہیئت دانوں نے اسی نظریے کی تائید جاری رکھی، لیکن بالآخر 1915ء میں مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن نے نظریۂ اضافیت پیش کیا، جس کی رو سے تمام اجرام فلکی، خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے، گردش میں ہیں۔ آج جدید علم فلکیات کا نظریہ بھی یہی ہے کہ سورج متحرک ہے اور متعدد سیارے اس کے گرد محوِ گردش ہیں، جبکہ سورج اپنے پورے خاندان یعنی نظام شمسی سمیت ملکی وے نامی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سورج کے بارے میں قرآن کریم میں واضح ذکر ہے کہ وہ حرکت کررہا ہے۔ اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش نہیں، بلکہ ’’جریان‘‘ یا ’’سبح‘‘ کے الفاظ سے مراد ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا ہے۔ سال 1881ء میں یورینس سیارے کو دریافت کیا گیا، جبکہ فلکی دوربین کی ایجاد کے بعد 1864ء میں نیپچون کو دریافت کیا گیا۔ یوں تو پلوٹو کو 1930ء میں دریافت کرلیا گیا تھا، لیکن اب سائنس دان اسے نظام شمسی کے سیاروں کی فہرست میں سے خارج کرچکے ہیں اور یوں نظام شمسی میں سورج کے گرد محو گردش سیاروں کی تعداد 8 رہ گئی ہے۔ جدید سائنس آج اس بات کی تصدیق کرچکی ہے کہ سورج اپنے محور کے گرد ایک چکر تقریباً 25 روز میں مکمل کرتا ہے۔ سورج کی اپنے مرکز کے گردگھومنے کی رفتار 220 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور اسے ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر مکمل کرنے کے لیے 25 کروڑ سال درکار ہوتے ہیں۔ سورج اور دیگر سیاروں کی حرکت کے بارے میں قرآن کریم میں سورۃ الانبیاء کی آیت 33 میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اور وہی (رب کائنات) ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج و چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیررہے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی کے مطابق فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار یعنی اوربٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء یعنی آسمان کے مفہوم سے بالکل مختلف ہے۔ رب کائنات کا یہ ارشاد کہ ’’سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘ دراصل چار حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اوّل یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند بلکہ تمام ستارے، سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں، دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے، تیسرے یہ کہ افلاک ستاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کرتے، بلکہ ستارے افلاک میں گردش کررہے ہیں، اور چوتھی حقیقت یہ کہ افلاک میں ستاروں کی حرکت اس طرح ہورہی ہے جیسے کسی سیّال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔
آئن اسٹائن سے پہلے سائنس یہ مانتی تھی کہ کائنات قدیم ہے۔ ٹائم ایبسولیوٹ (مطلق) ہے۔ اسپیس (مطلق) ایبسولیوٹ ہے۔ اُس وقت سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے ماننے والے سائنس کی اِس بات سے انکاری تھے اور کبھی کسی مذہبی نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ سائنس کا کائنات کے بارے میں یہ ماننا کہ ’’کائنات قدیم ہے، ازل سے ہے، زمانہ مطلق ہے، مکان مطلق ہے‘‘ وغیرہ کو محض اس لیے تسلیم کرلیا جائے کہ یہ سائنس کہہ رہی ہے۔ اس موضوع پر فلسفی لائبنز اور بابائے سائنس نیوٹن کے درمیان کتنے ہی مناظرے ہوئے جن میں لائبنز کا مؤقف سامی مذاہب والوں جیسا تھا کہ’’کائنات کی ایک خاص وقت میں ابتدا ہوئی اور یہ کبھی ختم بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اور نیوٹن جسے ہم بجا طور پر بابائے مادیات بھی کہہ سکتے ہیں، کا یہ مؤقف تھا کہ ’’کائنات قدیم ہے، یہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور زمان و مکاں مطلق یعنی ایبسولیوٹ ہیں‘‘۔ نیوٹن اور لائبنز کے مباحث فزکس اور فلسفہ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ کائنات کو قدیم تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ کائنات عدم سے وجود میں نہیں ہے۔ کائنات خدا کے کُن کہنے سے بنی ہے۔ وقت مطلق نہیں ہے۔ کائنات وقت کے ایک خاص لمحے میں بنائی گئی ہے اور امکانی فاصلے حقیقت میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مذہب کا یہ نظریہ سائنس کو چبھتا تھا، یعنی آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو سامی مذاہب اور خصوصاً اسلام کا نظریہ اُس وقت بھی جدید ترین تصور پیش کررہا تھا جب سائنس قدامت پسندانہ خیالات کی حامل تھی۔ یہ مسلمانوں کے عالی دماغ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے کائنات کے قدیم اور حادث ہونے کے مباحث کو عہدِ حاضر جیسی مقبولیت عطا کی اور اپنے وقت میں تمام اکیڈمکس کے علمی موضوعات کا مرکز بنادیا۔ غرض قرآن کا یہ نظریہ کہ کائنات ایک خاص وقت میں بنائی گئی اور یہ ایک خاص وقت میں ختم بھی ہوجائے گی، نہ صرف اُس وقت کے سائنسی نظریے کے مقابلے میں جدید تھا بلکہ آج بھی ویسے کا ویسا ہی تازہ اور طاقتور ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ بعض آیات تو فی الواقع وقت سے بہت پہلے کھلم کھلا پیش گوئی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جن کے ثبوت بعد میں ہم دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ پاک میں ایک آیت ہے: (ترجمہ) ’’ستاروں کے محلِ وقوع کی قسم! اگر تم جان لو کہ یہ کیا ہے تو تم بے اختیار پکار اُٹھو کہ اللہ نے بہت عظیم قسم اُٹھائی ہے‘‘۔ ’’بوڈزلا‘‘ میں جب ستاروں کا محلِ وقوع پہلی بار معلوم ہوا، یا بعد میں ریڈ اور بلیو شفٹ نے دُور دُور کی کہکشائوں کا ایک ایک میل کے حساب سے فاصلہ بتادیا تو کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ایک ایسی ہستی بھی ہے جو ستاروں کے محل ِ وقوع کی قسم کھاتی ہے اور چیلنج کرکے کہتی ہے کہ ’’وانہٗ لقسم لو تعلمون عظیم‘‘ (الواقعۃ- 76) اُس دور میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ستارے اور سیّارے دراصل زمین کی طرح کے بڑے بڑے اجسام ہیں۔ لوگ انہیں جھلمل کرتے چھوٹے چھوٹے سلمیٰ ستارے سمجھتے تھے، یا یہ مانتے تھے کہ یہ جنتیں ہوسکتی ہیں، دوزخیں ہوسکتی ہیں… دیوتا، دیویاں، ملائکہ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان میں کچھ ستارے ہمارے سورج کی طرح ہیں، پھر ان کے سیارے بھی ہیں۔ تو پھر قرآن نے ایسی باتیں کس طرح کردیں؟ مثلاً ’’نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک، ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے‘‘۔ اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں سوار کیا ’’اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی (کشتیاں) بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں‘‘۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کیسے بتایا جائے کہ زمین کے علاوہ بھی سیارے ہیں، جن پر ہماری نسل کے لوگ سوار ہیں۔ مزید یہ کہ کل کو ایسے سیارے بھی ہوں گے جہاں ہماری اولاد آباد ہوگی۔ کیا یہ بات قرآن نے پندرہ سوسال پہلے نہیں بتائی؟ 2023ء میں پہلا انسانی مشن مریخ پر جارہا ہے۔ اس منصوبے پر کئی برسوں سے کام ہورہا ہے۔ یہ ایسا مشن ہے جو مریخ کو آباد کرنے کی غرض سے بھیجا جارہا ہے۔ مشن کا نام ہے ’’مارس ون، ون وے مِشن‘‘ جس کا مطلب ہے کہ وہاں جو لوگ جارہے ہیں وہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے جائیں گے۔ جب ناسا نے درخواستیں مانگیں تو دنیا بھر سے چھ ہزار لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، جن میں سے صرف سو لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ ان میں سے بھی صرف دو جوڑے جائیں گے، لیکن تربیت سوکے سو لوگوں کو دی جارہی ہے۔ یہ لوگ وہاں جاکر شیشے کی ایک عمارت بنا کر اُس میں رہیں گے۔ شیشے کی اس عمارت میں پودے اُگائے جائیں گے اور یوں اس میں آکسیجن ہوگی۔ ذرا سوچیں تو! 2023ء ہم سے کتنی دُور ہے؟ مریخ پر جانے والوں کے دورانِ سفر کُل سات ماہ صرف ہوں گے۔ یہ اتنا ہی سفر ہے جتنا ارسطو کے زمانے میں بخارا سے بغداد تک کا ہوگا۔ یعنی آج سے چند سال بعد ہم مریخ کے نئے باشندوں کی ویڈیوز دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کس طرح مریخ پر رہ رہے ہیں۔ اگر ایک بار یہ مِشن کامیاب ہوگیا تو یقینا جلد ہی دوسرا مشن بھیجا جائے گا، پھر تیسرا۔ اور مریخ پر ہی کیا موقوف… مشن پر مشن نکلیں گے اور ایک سے ایک عمدہ سیارہ دریافت کرکے انسان اُسے آباد کردیں گے۔ اسلام نے حسّی تجربے سے نفرت کرنے والی دنیا کو، جسے اقبال نے ’’خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر‘‘ کہا ہے، اِس کائنات کی تسخیر کے کام پر آمادہ کیا۔ ستاروں کی چالوں سے فال نکالنے والی دنیا کو اس مایا جال سے نکالا اور ستاروں کی تسخیر پر آمادہ کیا۔ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے اقبال نے ہمیشہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ساتھ انسانی عظمت کے بیان کے طور پر بھی لیا ہے:

عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

یہی نہیں بلکہ اسلام کی اس شہ پر کہ ’’اگر تم کائنات کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو! لیکن تم نکل نہ سکوگے، ہاں اگر تمہارے پاس بہت زیادہ توانائی ہو تو نکل سکتے ہو‘‘۔ (الرحمن)
اب ذرا پھر سے سابقہ مضمون کے ساتھ اس تمام کنسٹرکشن کو جوڑیے! مذہب اتنا ماڈرن تھا اور سائنس کی قدامت پسندی مذہب کو ہرگز قبول نہیں تھی۔ چاہے وہ سائنس نیوٹن جیسے جیّد سائنس دان کی طرف سے وارد ہوئی اور ایک دنیا نے اسے مان لیا، لیکن مذہب اور خاص طور پر اسلام نے بالکل نہ مانا۔ پھر جب سائنس نے مذہب کے نظریات کو بالآخر قبول کرلیا، گزشتہ دنوں جب ’’جی ویو‘‘ کی دریافت کا اعلان ہوا اور مذہبی لوگوں نے اس لیے خوشی کا اظہار کیا کہ اس سے ’’اسپیس ٹائم فیبرک‘‘ کا حتمی ثبوت مل گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مذہب کے وہ تمام نظریات جو صدیوں قبل اسپیس ٹائم کے فولڈ ہوجانے کے بارے میں ہیں وہ فی الواقع درست ہیں، اور جیسے بگ بینگ کو تسلیم کرتے ہوئے سائنس دانوں نے اپنے قدیم جاہلانہ تصور کو ترک کردیا، ممکن ہے اب یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ وقت اور خلا لچکدار ہیں، سائنس دان اِس مرتبہ کھلے دل سے مان لیں کہ اسلام تو ہمیں صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے کہتا آرہا ہے کہ اسپیس ٹائم فولڈ ہوسکتی ہے۔ ہم ہی تھے کہ ڈٹے ہوئے تھے اور مذہب کی ہر بات کا انکارکرتے تھے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ