اعضا کی پیدوند کاری اور فقہائے اسلام

2030

محمد امجد جروار
اللہ تعالیٰ نے جسمِ انسانی کو عین فطرت کے مطابق تخلیق فرمایا۔ اگر انسانی جسم پر عمیق نظر ڈالی جائے تو قدرتِ خداوندی کو دیکھ کر زبان پر بے اختیار رب کی حمد و ثنا جاری ہوجاتی ہے۔
یہ انسانی جسم اعضاء پر مشتمل ہے۔ اللہ نے انسان کو ہاتھ پائوں عطا فرمائے۔ ہاتھ صرف انسانوں کو عطا فرمائے کہ انسان اپنے ہاتھوں کو جب چاہے جیسے چاہے کی بنیاد پر اپنے تصرف میں لاسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں، بلکہ مساواتِ خداوندی کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ اس دنیا میں حسب ونسب، امیر وغریب کی تقسیم تو ہے لیکن اللہ نے یہ خصوصی انعام سب بندوں پر فرمایا کہ انسانی اعضاء بغیر کسی تفریق کے سب کو برابر عطا فرمائے، الا ماشاء اللہ۔
قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت سمجھانے کے لیے انسان کو زمین وآسمان کی مثال دی، وہیں انسان کو اپنے جسم اور اعضاء کی طرف بھی متوجہ فرماکر یہ دعوت دی کہ ان اعضاء کو دیکھ کر اپنے رب کی ربوبیت پر ایمان لے آئے ۔
یہی وجہ ہے کہ جسمِ انسانی کی تخلیق کو اللہ نے ’’احسن‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے پر پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ التین 3)
جب اس جسم پر مختلف امراض کا حملہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانی جسم کا کوئی عضو ناکارہ ہوجائے تو کیا اسے تبدیل کرکے دیگر اعضائِ انسانی لگا کر اس مریض کی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے…؟ یہ وقت کا حل طلب سوال ہے۔
اعضاء کی تبدیلی کو ’’اعضاء کی پیوندکاری‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کوئی انسان حالتِ حیات میں یا مرنے کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنے کی وصیت کر جائے تو شرعاً اس کا یہ عمل کیسا ہوگا؟ ملک میں اس کام کے بڑھتے ہوئے رجحان اور دوسری طرف شریعتِ مطہرہ کی نظر میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
ان تمام سوالات پر ہم فقہاء کرام کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔
اس عنوان کو شروع کرنے سے قبل یہ بات مقدم رہنی چاہیے کہ اس مسئلے پر فقہاء کرام کے دو طبقے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو انسانی اعضاء کی پیوند کاری کو مطلقاً ناجائز قرار دیتا ہے۔ اس طبقے میں ہندوستان، پاکستان کے قدیم فقہاء شامل ہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو مطلقاً تو قائل نہیں لیکن چند شرائط کے ساتھ اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیتا ہے۔
ہم ان فقہاء کرام کی رائے کا ان حضرات کے فتاویٰ جات کی روشنی میں مدلل ذکر کریں گے۔
اس بحث کو شروع کرنے سے قبل حفظِ ماتقدم کے طور پر یہ بات ذکر کرتے چلیں کہ ہمارا مقصد اس مسئلے پر اپنی رائے دینا یا جواز و عدم جواز میں سے کسی قول کو ترجیح دینا نہیں، بلکہ جانبین کی آراء کو دلائل کے ساتھ ذکر کرنا مقصود ہے تاکہ عوام کو آگاہی مل سکے۔
ہم اولاً اُن حضرات کے دلائل پر نظر ڈالیںگے جو اعضاء کی پیوند کاری کے عدم جواز کے قائل ہیں۔
قائلینِ عدم جواز کی پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور بدنِ انسانی انتہائی محترم ہے، کیوں کہ اس بدن کی تخلیق رب تعالیٰ نے خود فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔‘‘ (ص75)
اسی طرح بدنِ انسانی کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے۔‘‘ (الاسراء 7)
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی جسم رب تعالیٰ کے ہاں انتہائی قابلِ عظمت اور مقدس ہے۔ چنانچہ انسانی جسم کے بالوں کا شرعی حکم بھی یہی ہے کہ ان بالوں کو دفن کردیا جائے تاکہ جسم انسانی سے جڑے ان بالوں کو تحقیر سے بچایا جاسکے۔
اسی طرح جسمِ انسانی کی تقدیس اور حفاظت کے لیے جسم کی بے جا خراش تراش سے بھی منع کردیا گیا، بلکہ اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہعورتوں کو بال دینے والی اور دوسری عورتوں کے بالوں کو اپنے بالوں سے ملانے والی عورت اور چہرے پر گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی گئی ہے۔‘‘
عدم جواز کے قائل فقہاء کرام کی دوسری دلیل یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے، یہ اعضاء انسان کی ملکیت نہیں ہیں تو انہیں نہ تو فروخت کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی کو ہدیہ دینے کی اجازت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی انسان کو اجازت نہیں کہ وہ بغیر عذر کے اپنے اعضاء کاٹ دے، یا خود تصرف کرتے ہوئے خودکشی کرلے، اسی لیے خودکشی کو حرام موت کہا گیا ہے۔
حدیثِ قدسی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے مجھ سے سبقت کرنے کی کوشش کی اسی لیے میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث سے فقہاء یہ تصریح فرماتے ہیں کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے تو اس نے کیوں کر اپنے جسم پر تصرف کیا!
جامع الصغیر میں آپؐ کی ایک دعا منقول ہے: ’’یااللہ آپ نے ہماری پیشانیوں اور اعضاء و جوارح میں کسی شے کا مالک ہمیں نہیں بنایا۔‘‘
عدم جواز کے قائل فقہاء کرام کی ایک اہم دلیل یہ بھی ہے: کسی بھی چیز کی خرید وفروخت اُس وقت کی جاتی ہے جب وہ چیز خرید وفروخت کے لائق بھی ہو، اب اگر جسمِ انسانی پر شرعی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا فرمایا اور آزاد انسان کی خرید و فروخت بھی ممنوع ہے۔
حدیثِ قدسی ہے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن تین آدمی میرے خصم اور مدعا علیہ ہوں گے اور میں ان کے خلاف مدعی بنوں گا:
٭ایک وہ شخص جو میرے نام پر عہد کرے، قسم کھائے اور پھر مکر جائے۔
٭دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچا اور اس کی قیمت کھا گیا۔
٭تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور آدمی سے پورا پورا کام لیا لیکن اس کی اجرت نہیں دی۔‘‘
حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زندہ انسانوں کی خرید و فروخت ناجائز ہے تو اعضاء و جوارح کی بیع کیسے جائز ہوسکتی ہے!
اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی شخص مرنے کے بعد اعضاء انسانی عطیہ کرنے کی وصیت کرے، تو شرعی لحاظ سے یہ بات بھی ممنوع ہے۔ کیونکہ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی جسمِ انسانی کا تعلق روح کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔
بخاری شریف میں ایک صحابی کا واقعہ منقول ہے۔ صحابی فرماتے ہیں کہ میں ایک قبر پر بیٹھا ہوا تھا، آپؐ نے فرمایا کہ قبر سے اترو، صاحبِ قبر کو تکلیف مت دو۔
اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد حیاتِ برزخی حاصل ہوتی ہے، اس لیے زندہ انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قبرستان جائیں تو ’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘ کے الفاظ کہہ کر اہلِ قبرستان کو سلام کہیں۔
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح زندہ انسانوں کے اعضاء کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مُردہ انسان کو اُس کے جسم کے کسی بھی حصے کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔
ابودائود کی روایت ہے کہ مُردہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ایسا ہی گناہ ہے جیسا کہ زندہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ہے۔
امام طحاویؒ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ خلاصہ یہ ہے کہ مُردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے۔ (حاشیہ: مؤطا امام مالک، ص 220)
سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ اگر اعضاء کی پیوندکاری کی اجازت بھی دے دی جائے تو جسمِ انسانی کی حقارت اور اہانت کا جو دروازہ کھلے گا اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔
مالدار اپنے عزیز واقارب کی جان بچانے کی خاطر غریبوں کے اعضاء کی بولیاں لگائیں گے اور وہ غریب جو پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہے اور بڑی مشکل سے اپنے کنبے کی کفالت کرتا ہے، وہ مجبوری کے وقت اپنے اعضاء کی بولی لگائے گا۔
اس پر مستزاد انسانیت کے وہ سوداگر جو کسی بھی روپ میں ہوں، انسانی زندگی کے ساتھ کھلواڑ شروع کردیں گے۔ اور کبھی نہ بند ہونے والا انسانی تباہی کا یہ دروازہ کھل جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اگر کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو کیا کرے؟ تو یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اگر شرعی حکم پر عمل کرتے ہوئے موت آجائے تو اسے عزیمت کہا جاتا ہے، ایسا مریض اگر رب کی رضا کی خاطر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو رب کے ہاں اس کے لیے انعام و اجر اور بے بہا خزانے موجود ہیں۔
اب آئیے اُن فقہاء کرام کی رائے کی طرف، جو اعضاء کی پیوندکاری کو شرائط کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن ان حضرات کے ہاں شرائط کا لحاظ بہت ضروری ہے۔
ہم ذیل میں قائلینِ جواز کے دلائل پر نظر ڈالتے ہیں۔
جس طرح انسانی جسم اہمیت کا حامل ہے اسی طرح انسانی جسم و جان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا نہ صرف مباح ہے بلکہ بسا اوقات واجب اور ضروری ہوجاتا ہے۔ انسانی جسم کی حفاظت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’جس نے ایک جان کو زندہ کیا اس نے گویا سب لوگوں کی جانیں بچائیں۔‘‘ (سورۃ مائدہ 22)
اس آیت کی تفہیم میں جو اقوال ذکر کیے گئے ان میں سے ایک قول کے مطابق جو کسی دوسرے انسان کی جان بچانے کی کوشش کرے گا وہ اس آیت کے ثواب اور مصداق میں شامل ہوگا۔
جسمِ انسانی کی حفاظت کی اہمیت بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قیدی کو چھڑائو، اور بھوکے کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت کرو۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث کی تشریح میں شارح بخاری علامہ عینیؒ نے لکھا ہے کہ ’’بھوکے کو کھانا کھلانا عام حالت میں مستحب ہے، لیکن اگر کوئی شخص بھوک سے مر رہا ہو تو ایسی صورت میں اس کی جان بچانا اور اسے کھانا کھلانا فرض ہوجاتا ہے۔‘‘
فقہاء کرام نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو مسائل بیان فرمائے ہیں، ان میں سے بہت سارے مسائل اس بات پر بطور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں جس میں انسانی جان کی حفاظت کے لیے مباح کاموں کی اجازت کے ساتھ ساتھ بسا اوقات حرام کے ارتکاب کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(1) ایک شخص نماز میں مصروف ہو، اسی دوران کوئی نابینا شخص کنویں کی طرف جارہا ہو، یا کوئی بچہ دہکتی ہوئی آگ کی طرف رواں ہوں تو اس صورت میں اس نابینا آدمی اور بچے کی جان بچانے کے لیے نماز توڑنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
(2) اسی طرح عام حکم یہ ہے کہ روزہ توڑنا جائز نہیں، لیکن کوئی شخص روزے میں بھوک پیاس کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ جائے کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو اس کے لیے روزہ توڑنا نہ صرف جائز، بلکہ واجب بھی ہے۔
(3) اسی طرح رمضان کے روزے بلا عذر چھوڑنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی حاملہ عورت کو روزے کی وجہ سے خود کی یا حمل کی جان کا خطرہ ہو تو ایسی حاملہ عورت کے لیے روزہ ترک کرنے کی بھی اجازت ہے۔ (دیکھیے اعضاء کی پیوندکاری کے متعلق دارالعلوم کراچی کا فتویٰ)
جب انسانی جان و جسم کو خطرہ لاحق ہو تو اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ چنانچہ عرب علماء اور ہندوستان کے فقہاء نے چند اصولوں کی بنیاد پر چند شرائط کے ساتھ اعضاء کی پیوندکاری کو مجبوری کی حالت میں جائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے جامعہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والے فتوے میں ان شرائط کو درج ذیل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
واجب العمل شرائط:
اگر کسی مُردے سے اعضاء لیے جائیں تو اس کی شرائط درج ذیل ہیں:
(1) معتمد اور ماہر اطباء بتائیں کہ پیوندکاری کے سوا مریض کا کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں ہے۔
(2) اس بارے میں ظن غالب ہو کہ اس عضو کی منتقلی سے مریض کو شفا حاصل ہوجائے گی۔
(3) حتی الامکان کسی مسلمان کا کوئی عضو کسی کافر کو اور کسی کافر کا عضو مسلمان کو نہ لگایا جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ مسلمان کے جسم میں مسلمان کا عضو استعمال کیا جائے۔
(4) مرنے والا شخص مکلف ہو اور اس نے موت سے پہلے منتقلی کی تحریری اجازت دے دی ہو۔ البتہ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے فیصلے میں ورثا کو بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر میت نے زندگی میں وصیت نہ کی ہو تو موت کے بعد ورثا کی اجازت بھی کافی ہے، اور اگر متوفی شخص لاوارث ہو تو مسلمانوں کے ولی الامر نے اجازت دے دی ہو۔
(5) عضو کی منتقلی کے بعد جسم میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جو مثلہ کے مشابہ ہو۔
(6) مُردہ جسم سے مطلوبہ عضو کو تدفین سے پہلے پہلے نکال لیا جائے، تدفین کے بعد نہیں۔
(7) وہ عضو بغیر کسی قیمت کے دیا جائے۔
مذکورہ بالا شرائط مُردہ جسم سے عضو لینے کے بارے میں تھیں۔
اگر کسی زندہ انسان سے اس کی اجازت سے کوئی عضو لیا جائے تو اس کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
(1) اس عمل سے عضو دینے والے شخص کی طبعی زندگی کو کوئی بڑانقصان نہ پہنچے۔
(2) اس کا کوئی ایسا عضو نہ نکالا جائے جس پر اس کی حیات موقوف ہو جیسے دل وغیرہ۔
(3) کسی ایسے عضو کی منتقلی جائز نہیں جس کے جدا کرنے سے انسان کسی اساسی وظیفہ سے محروم ہوجائے جیسے آنکھیں وغیرہ۔
(4) زندہ جسم سے صرف وہ عضو لیا جائے جس کے متعلق ڈاکٹر نے طے کردیا ہو کہ اس کا جسم کے اندر رہنا ضروری نہیں، اس کے بغیر زندگی بآسانی گزاری جاسکتی ہے۔ (دیکھیے دارالعلوم کراچی کا فتویٰ)
ہم اپنی بحث کا خلاصہ ونچوڑ کچھ یوں بیان کریں گے کہ ہند و پاک کے قدیم فقہاء اور موجودہ دور میں جامعہ بنوری ٹائون کے مفتیانِ کرام کے ہاں اعضاء کی پیوندکاری مطلقاً ناجائز ہے۔ لیکن عرب علماء کے جواز کا اعتبار ہے لیکن شرائط کا اعتبار انتہائی ضروری ہے۔ دوسرے جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں بھی اس پر عمل کرنے کے لیے مجبوراً کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ وہ یہ عمل کرنے کے بعد استغفار کرے۔
دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والے فتویٰ کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ’’احتیاط تو بہرحال اسی میں ہے کہ حتی الامکان اس طریقۂ علاج سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کوئی شخص شدید مجبوری میں مبتلا ہو اور وہ جواز کی رائے رکھنے والے علمائے کرام کی رائے پر عمل کرلے تو امید ہے کہ عنداللہ معذورہوگا۔ تاہم جواز والے قول پر عمل کرنے کی صورت میں احتیاطاً استغفار اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کردے۔‘‘
تمام تر وضاحتوں سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جواز صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو ہر طرف سے مجبور ہوجائیں اور اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔
لیکن موجودہ دور میں جس طرح اعضاء کی پیوندکاری کے معاملے کو فروغ دیا جارہا ہے، یقینا یہ نقصان دہ عمل ہے، اور اگر کوئی اس طرح کی وصیت کر جائے تو اسے قابلِ ستائش سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
اور اسی کی آڑ میں گھنائونا کھیل اعضاء کی فروخت کا شروع ہے جس میں ادارے تک ملوث ہوتے ہیں اور انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
اس لیے جن حضرات نے اس بارے میں جواز کی رائے سے اتفاق کیا ہے وہ بھی بار بار تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کام کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
دارالعلوم کراچی سے شائع شدہ فتویٰ کے آخری الفاظ پر ہم بھی اس بحث کا اختتام کرتے ہیں: اس طرز عمل کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاکہ انسانی جان کی حرمت و شرافت برقرار رہے اور انسانی جان کو عام اشیاء کی طرح استعمال کی چیز نہ بنا لیا جائے۔

حصہ