اصل مقصد

222

حذیفہ عبداللہ
ریاض احمد کی مصروفیت دادا جان کو بالکل سمجھ نہیں آرہی تھیں وہ گزشتہ کئی روز سے مصروف دیکھائی دے رہا تھا ریاض نویں جماعت کا ایک اچھا طالب علم تھا اور نماز کی پانبدی اور قرآن کا مطالعہ اُس کا معمول تھا اسکول سے آنے کے بعد کچھ دیر آرام اور ٹیوشن سے فراغت کے بعد وہ کھیل کے میدان میں ہوتا۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی کھیل ختم عشا کی نماز کے بعد دادا جان کے ساتھ ایک نشست جس میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ریاض اپنے دادا کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول میں۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا یہ نشست زیادہ طویل نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھار جب کہ اگلے دن چھٹی ہو یہ نشست کچھ طویل ہو جاتی۔
ریاض احمد کے دادا کا ارادہ تھا کہ 12 ربیع الاول جو کہ جمعہ کے دن ہے اُس سے قبل یعنی جمعرات کو ربیع الاول یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، ان سے محبت اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے گفتگو کی جائے لیکن ریاض احمد کئی روز سے نامعلوم مصروفیات کے باعث نشست تو دور کی بات ملاقات بھی نہیں ہو پا رہی تھی کیونکہ وہ عشا کے بعد بہت تاخیر سے گھر آرہا تھا۔ امی ابو کے معلوم کرنے پر ریاض نے بتایا کہ دوستوں کے ساتھ ایک پروگرام بنایا ہے جس کی مصروفیت چند دن کی بات ہے۔ ابو نے کہا آپ کا جو بھی پروگرام ہو لیکن پڑھائی پر توجہ دیں کیونکہ آپ میٹرک کے طالب علم ہیں۔ نتیجہ اچھا آئے گا تو اچھے کالج میں داخلہ ہو سکے گا پڑھائی سے لاپرواہی قطعی برداشت نہیں کی جائے گی۔
12 ربیع الاول کا دن بھی گزر گیا۔ ریاض رات گئے گھر آیا اگلے دن اسکول کی چھٹی ہونے کے باعث دوپہر تک سوتا رہا۔ دادا جان جب ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا ریاض ناشتہ کر رہا ہے۔ دادا جان نے کہا میاں کیا ہو رہا ہے آپ کئی دن سے غائب ہیں ہماری معمول کی نشست نہیں ہو پا رہی ہے آپ ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر میرے پاس آئیں۔
ناشتہ کر کے ریاض دادا جان کے کمرے میں آیا سلام کے بعد ریاض نے کہا دادا جان کچھ دنوں سے مصروفیت کے باعث میری آپ کے ساتھ نشست نہیں ہو سکی آج طویل نشست کریں کل اسکول کی چھٹی ہے۔
دادا جان نے ریاض کی بات سن کر کہا میاں ریاض بات صرف نشست کی نہیں بلکہ آپ نماز سے بھی غائب ہیں خاص طور پر نماز فجر ایسی کیا مصروفیت ہے کہ نمازیں بھی نہیں ہو پا رہی ہیں۔ آپ کی مصروفیات کا تو پتہ چلے آخر وہ ہیں کیا…
ریاض احمد نے کہا دادا جان 12 ربیع الاول کے حوالے سے پروگرامات جلسے، جلوس، ریلی علاقے کی سجاوٹ میں مصروف ہونے کے باعث وقت نہیں مل رہا تھا رات دیر سے گھر آنے اور دیر سے سونے کے باعث نماز فجر بھی قضا ہو رہی تھیں۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہمارے دوستوں کا گروپ دوسرے محلے کے مقابلے میں زیادہ اچھے انداز میں ربیع الاول منائے اس کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑی اللہ کا شکر ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
دادا جان نے طویل ’’جی‘‘ کے بعد کہنا شروع کیا ریاض احمد ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش پر خوشی اچھی بات، خوشی منانا بھی درست سہی لیکن آپ نے سوچا کہ صرف خوشی کے لیے گلیاں سجانے اور سجاوٹ کے مقابلے کرانے سے اللہ اور اس کا رسولؐ خوش ہو گا جب کہ احکام الٰہی کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ نمازیں چھوڑ دین جائیں جس پر ہمارے نبیؐ نے زیادہ زور دیا بیٹا دراصل ہمارا دین معاملات کو دنوں میں تقسیم کرنے کے لیے نہیں کہ یہ فلاح دن اور یہ فلاح دن بلکہ ہمارا دین تو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے ہمیں کام میں اللہ کی بندگی اور اس کے رسولؐ کی پیروی کرنا ہے تب ہی آخرت میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
ریاض نے دادا جان کی بات کی تائید کرتے ہوئے بے شک ہم نے اپنے معاملات اسے کر لیے ہیں جس کے باعث اپنے اصل سے ہٹتے چلے جا رہے ہیں آئندہ میں غیر ضروری سرگرمی میں اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا اور نبی آخری الزامان کی کے احکامات پر عمل کروں گا جو کہ ان کے ان کی دعوت کا اصل مقصد ہے۔

حصہ