ابھی تک زندہ ہوں

245

زاہد عباس
یہ سرٹیفکیٹ بھی کیا خوب ہے۔ دنیا میں آئو تو پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانا ضروری ہے۔ اگر نہیں تو تعلیمی سلسلہ شروع نہیں کرسکتے۔ ذرا سا بڑے ہوجائو تو نادرا کا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یعنی ب فارم کا دردِ سر۔ اگر نہیں بنوایا تو ملک کے شہری ہی نہیں بن سکتے۔ جوان ہوتے ہی شناختی کارڈ کی صورت پاکستانی ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرو، بصورتِ دیگر تارکین وطن کی صف میں کھڑے کردیے جائو۔ تعلیم کے حصول یا کسی ادارے میں نوکری حاصل کرنے کی خاطر اپنا کیریکٹر سرٹیفکیٹ اُن لوگوں سے بنوائو جن کے کیریکٹر معاشرے میں پہلے ہی سوالیہ ہوں۔ غرض یہ کہ زندگی بھر ایسے ہی کاغذ کے ٹکڑوں کو جمع کرکے گھر والوں کے ذمے موت کا سرٹیفکیٹ لگا کر دنیا سے کوچ کرجائو تاکہ آپ کے دنیا میں آنے اور جانے کی پرچیاں کھاتوں میں موجود رہیں۔
ویسے تو ضروری کام کے نام پر بنوائے جانے والے کاغذات کی ایک لمبی فہرست انسانی زندگی سے جڑی ہوئی ہے، لیکن میں اپنی تحریر میں اُن ریٹائرڈ سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہیں عمر کے اس حصے میں جب ان کے جسم میں اتنی بھی طاقت نہ ہو کہ وہ چند قدم بھی چل سکیں، ساری جوانی ملک کے مختلف اداروں کے نام کرنے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چند ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے مختلف قوانین بناکر ان ملازمین کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران کس طرح بے حسی اور بے ضمیری کی حدیں پھلانگتے جارہے ہیں۔ پنشنروں کو آئے دن پریشان کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں تیسرے درجے کا شہری بنادیا جائے! پھر ہمارے ملک میں رائج نظام کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ ہر کوئی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ جس کے پاس بھی اختیارات ہوں وہ انہیں لوگوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے، اور جب معاملہ رقم کا ہو تو اس شخص کی گردن میں سریا آجاتا ہے جس کی ذمے داری پیسے کے لین دین کی ہو۔ وہ سرکار کے مال کو بھی اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے۔ کسی چھوٹے سے کارخانے میں منشی کے کردار کو ہی دیکھ لیں، غریب مزدوروں کو مزدوری دیتے ہوئے اُس کی حالت کسی بڑے تاجر سے کم نہیں ہوتی۔ وہ غریبوں کو ان کی جائز مزدوری بھی احسان کے ساتھ دیتا ہے، گویا جیسے وہ تقسیم کی جانے والی رقم کا مالک ہو۔ شاید یہ فطرتی عمل ہے کہ نوٹوں کے سامنے بیٹھ کر چند ہزار ماہانہ کا ملازم بھی خود کو سیٹھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی صورتِ حال آپ کو تقریباً ہر دوسرے محکمے میں دیکھنے کو ملے گی، یعنی ہر ادارے کا اکائونٹنٹ افسر سے بڑا افسر ہوگا، جبکہ حقیقت میں وہ خود بھی ایک ملازم ہی ہوتا ہے، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کی نوکری کھاتے بنانا اور ہر شخص کو اس کی طے شدہ اجرت کے مطابق رقم ادا کرنا ہے۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ معاشرے میں موجود ایسے اشخاص کے رویّے دیکھ کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے ایسے کئی کردار آپ کو معاشرے کے ہر طبقے میں ملیں گے۔
خیر بات ہورہی تھی ملک میں رائج اُن قوانین کی، جن کی بدولت انسان کو کاغذ کے چند ٹکڑوں جنہیں سرٹیفکیٹ کا نام دیا گیا ہے، پر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایسے ہی ایک سرٹیفکیٹ کا مجھ پر اُس وقت انکشاف ہوا جب ماہانہ پنشن کے حصول کے لیے اردو دنیا کے نامور شاعر رسا چغتائی (جن کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا) کو نیشنل بینک کورنگی نے یہ کہہ کر پنشن دینے سے انکار کردیا کہ پہلے لائف سرٹیفکیٹ بنوا کر لائو۔ بینک کی جانب سے طلب کیا جانے والا لائف سرٹیفکیٹ عالمی شہرت یافتہ شاعر رسا چغتائی کے لیے نہ صرف ایک ایسا کاغذ تھا جو پہلی مرتبہ مانگا گیا بلکہ ایسا حیران کن سرٹیفکیٹ بھی تھا جو سامنے کھڑے ہوئے، معاشرے کے اس شخص کی زندگی کا تصدیق نامہ تھا جسے ادب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ سرٹیفکیٹ بنواکر جمع کروانے کا مقصد یہ ہے کہ پنشن وصول کرنے والا شخص اس بات کی تصدیق بذریعہ سرٹیفکیٹ گریڈ سترہ یا اس سے اونچے عہدے پر فائز شخص سے کروا کر یہ ثابت کرے کہ وہ زندہ ہے۔ بات بھی حیرت زدہ کردینے والی ہی ہے۔ نئے قانون کے تحت ایک زندہ شخص اپنی زندگی کی تصدیق خود اپنے ہاتھوں سے کسی سرکاری گریڈ سترہ کے افسر سے کروائے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے، تب ہی اسے زندہ رہنے کے لیے اس کی جائز پنشن سے دال دلیہ خریدنے کی اجازت ہوگی۔ کسی کی تصدیق کے بغیر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ زندہ رہ سکے۔ اربابِ اختیار کی جانب سے اس قسم کے قانون کا بزرگ پنشنروں پر اطلاق میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ نامور شاعر رسا چغتائی کا گلہ جائز ہے کہ اگر یہ تصدیق نامہ ضروری ہے تو پنشن کے حصول پر جمع کروائے جانے والے فارم کے ساتھ ہی اس کے بارے میں پنشنروں کو آگاہ کردینے سے خاصی حد تک غریبوں کو پریشانی سے بچایا جاسکتا ہے۔ یعنی دن میں دو تین چکر لگانے سے بہتر ہے کہ ایک مرتبہ ہی تمام کارروائی مکمل کرکے بینک لوگوں کی مشکلات کم کرسکتا ہے۔ رسا چغتائی صاحب کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی پر میں نے اس سرٹیفکیٹ کے بارے میں نیشنل بینک کی مختلف برانچوں سے رابطہ کیا تاکہ ان بزرگ شہریوں پر ڈھائی جانے والی اس مصیبت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکوں، شاید میرے اس کام سے حصولِ پنشن کے سلسلے میں کبھی اِس در تو کبھی اُس در کی ٹھوکریں کھاتے لوگوں کی مدد ہوسکے۔ اس دوران میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو اس بارے میں خاصی معلومات رکھتا تھا اور ان دنوں اس کی ڈیوٹی پنشنروں کے معاملات دیکھنے پر تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ پہلے کسی بھی شخص کو ایک فارم جمع کروانا ہوتا تھا جو ہیڈ آفس میں جمع ہوتا تھا۔ پنشن حاصل کرنے والوں کی سہولت کے لیے علاقائی نیشنل بینک برانچ سے بھی ریٹائرڈ ملازمین کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے تاکہ بزرگ پریشان نہ ہوں۔ لائف سرٹیفکیٹ کا مطلب اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ پنشن حاصل کرنے والا زندہ ہے۔ یہ قانون بینک کا نہیں ’اے۔ جی آفس‘ کا ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کے ذریعے اے۔ جی آفس اس بات کی معلومات رکھتا ہے کہ پنشنر زندہ ہے کہ نہیں۔ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ پنشنر کی وفات کے بعد بھی لواحقین پنشن وصول کرتے رہے۔ جس پر سختی کی گئی۔ اس ساری صورتِ حال میں بینک کسی طرح بھی کوئی منفی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ یہ ایک الگ محکمہ ہے جس سے نیشنل بینک کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ جو بھی متعلقہ کاغذی کارروائی ہوتی ہے وہ فنانس ڈپارٹمنٹ اور اے۔ جی آفس کی جانب سے ہوتی ہے۔
بینک ملازم کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کے لیے ضروری تھا کہ میں بینک میں آئے اُن پنشنروں سے بھی بات کروں جو اس سرٹیفکیٹ کے اصل متاثر تھے۔ پنشن کے حصول کے لیے آئے ہوئے زیادہ تر لوگوں نے بتایا کہ انہیں بہت پریشان کیا جاتا ہے، وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انہیں اس بات کی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ان کی پریشانیوں میں اضافہ کہاں سے ہوتا ہے، کسی بھی ریٹائرڈ ملازم کی تو بس اتنی سی خواہش ہوتی ہے کہ اسے وقت پر آسانی سے پنشن مل جائے تاکہ اس کے گھر کا چولہا جل سکے۔ زیادہ تر بزرگ بیمار ہوتے ہیں، پنشن سے دوائی وغیرہ لیتے ہیں، اگر دیر سویر ہوجائے تو مسئلہ ہوتا ہے۔ حکومت تھوڑے بہت پیسے دیتی ہے، وہ بھی نئے نئے قانون بناکر مشکل سے مشکل کرتی جارہی ہے۔ غریب آدمی کہاں جائے! کون ہماری مشکلات حل کرے گا! ابھی تو موسم ٹھنڈا ہے، گرمیوں میں بینک کے باہر تک بوڑھے لوگوں کی لائن لگی ہوتی ہے، لوگوں کو ذلیل کرکے ان کی جائز رقم دی جاتی ہے، جو لوگ پڑھے لکھے نہیں وہ فارم بھی پیسے دے کر بھرواتے ہیں، ہر جگہ پریشانی ہے۔
دنیائے اردو کے نامور شاعر رسا چغتائی سے لے کر ایک عام پنشنر کی باتوں سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے قوانین پر بزرگ شہریوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اے۔ جی آفس سے لے کر بینکوں تک… ہر ایک کو یہ بات سوچنی ہوگی کہ بزرگ خاص کر وہ سرکاری ملازمین جنہوں نے اپنی زندگی وطن کی خدمت کرتے گزاری، کے لیے ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس سے معاشرے میں ون ونڈو کے تحت ان کی پنشن کا حصول ممکن ہو۔ لائف سرٹیفکیٹ بنوانے سے بہتر ہے کہ متعلقہ بینک منیجر کو اس بات کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ پنشن کے حصول کے لیے آنے والوں کی تصدیق کرکے بینک کے ذریعے ہی اے۔ جی و دیگر محکموں کو پنشنرز کے بارے میں بتائے۔ پنشن بک سے لے کر تمام اہم دستاویزات کی موجودگی کے باوجود بینک کی جانب سے لائف سرٹیفکیٹ کا تقاضا بے معنی ہے۔ حکومت فوری طور پر ایسے تمام قوانین ختم کرنے کے احکامات جاری کرے جو غریبوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔

حصہ