خواہش

241

مریم شہزاد
انسانی خواہش کیا ہے؟ اگر ہم اس پر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ضرورتوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ ہے جو خواہش بن کر دل میں سر ابھارتا ہے اور پھر ضرورت بن جاتا ہے، اور ایسی ضرورت جو پہلے تو تعیشات میں شمار ہوتی ہے، پھر آسائش لگنے لگتی ہے اور آخرکار ضرورت بن جاتی ہے جس کی تکمیل میں انسان مشین بن جاتا ہے، دن رات کا چین گنوا دیتا ہے۔ اس کی خواہش اس کے لیے سب سے اہم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ ہر انسان کی خواہش دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ ہماری خواہش اگر ہماری ضرورت ہے تو دوسرے کے لیے آسائش ہے، اور تیسرے کے لیے تعیش… گویا سب اپنے حالات کے مطابق خواہشات کی اقسام مقرر کرلیتے ہیں اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، مگر جب وہ ضرورت پوری نہیں ہوتی تو وہ دوبارہ دل کے کسی کونے میں دب جاتی ہے۔ کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے:
’’ضرورت اگر وقت پر پوری نہ ہو تو ضرورت نہیں رہتی۔‘‘
لیکن اسی اثناء میں دوسری خواہش کا وجود عمل پذیر ہوجاتا ہے اور وہ پہلی خواہش سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے، اور ایک کے بعد دوسری، تیسری اور پھر چوتھی… گویا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو وقت کی طرح بڑھتا ہی رہتا ہے۔ شاید یہ انسانی فطرت ہی ہے جو انسان دل میں دبائے رکھتا ہے، اور اسی طرح دنیا میں دل لگا رہتا ہے۔ مگر دنیا ہی میں کچھ ایسے بھی لوگ مل جاتے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ خواہشات کیا ہیں۔ وہ اپنے اللہ کے آگے راضی بہ رضا رہتے ہیں اور ضروریاتِ زندگی کو بھی اپنے اوپر سوار نہیں کرتے۔ وہ آسائش کو غیر ضروری سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اور صرف ضرورتوں کو ہی پورا کرتے ہیں، ورنہ خواہش کا لبادہ جو اوڑھ لے اُس کے لیے تو شاعر بس یہی کہتا ہے:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے

حصہ