نئے شاعر… میمونہ عباس خان

168

اسامہ میر
میمونہ عباس خان کا تعلق گلگت سے ہے۔ انہوں نے آغاخان یونیورسٹی کراچی سے ایجوکیشن میں اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان سے انگریزی زبان و ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پیشے کے اعتبار سے لیکچرار ہیں اور مقامی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ شاعری اور افسانہ نگاری سے انہیں خصوصی لگائو ہے جبکہ وقتاً فوقتاً نسوانی، سماجی اور فکری معاملات پر کالم نویسی بھی کرتی ہیں۔ قدرت کی گود میں پلی بڑھی ہیں اسی لیے قدرتی مناظرسے بے حد لگائو ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں موجود کئی استعارے قدرتی حسن سے ماخوذ ہیں۔ ان کی شاعری، کالم نگاری اور افسانہ نویسی کا خصوصی محور عورتوں کے حقوق اور مسائل ہیں۔ ان کے ہاں عورت اپنے روایتی کردار کے برعکس زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف بے باکی و جرأت مندی سے سوال کرتی نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی نظموں میں وجودی معمے، زندگی کی دھوپ چھاؤں سے مزین تجربات اور احساسات نمایاں نظر آتے ہیں۔
وحشت
یہی دل تھا کبھی
جو خون کی ترسیل پر مامور رہتاتھا
دھڑکتا تو نویدِ زندگی لاتا
اب ایسا ہے
رگوں کا جال تو ویسے ہی پھیلا ہے میرے اندر
مگر دل خون کے بدلے
فراوانی سے بہتے
درد کی گردش سے جو بے حال رہتا ہے
تو دھڑکن ٹیس بن کر
سینے میں اک وحشیانہ رقص کرتی ہے
انہی دو انتہاؤں پرکھڑا
یہ جسم وجاں کا سلسلہ میرا
کبھی جینے نہیں دیتا
کبھی مرنے نہیں دیتا !!
چلتی پھرتی دیواریں
کون ہے وہ؟
کچھ نہیں جانتے
دیکھ سکتے نہیں
دنیا کی دیواروں میں
چْنے ہوئے پتھر!
کون میرے خوابوں میں
آسمانوں سے اترتا ہے
جادو زدہ لوگوں کو
دیواروں سے نکال کر
زندہ دلوں کی بستیاں آباد کرناچاہتا ہے
مگر یہ لوگ کیسے ہیں
بضد ہیں
دلوں تک جاتے رستے بند رکھنے پر
آنکھوں،زبانوں اور دماغوں کو
دیواروں میں قید رکھنے پر مصر ہیں
میں حیران ہوں
کہ دیواریں بھی چلتی ہیں
کچلتی جاتی ہیں
رعونت سے
سبھی معصوم جذبوں کو
کتابوں سے امڈتی روشنی کو!
دلوں میں نفرتیں بھر کر
اٹھا کر سر، یہ چلتے ہیں
رعونت سے
سجا کر اپنے ماتھے پر
نشاں سجدوں کے
سب سے فخریہ کہتے ہیں
ہم ہی متقی ہیں اور زاہد ہیں
مگر ان کی قناعت، گریہ زاری، زہد و تقویٰ
دکھاوا ہے،بناوٹ اور سجاوٹ ہے
یہ جس کے نام پر دھوکے بانٹتے پھرتے ہیں
مسجدوں اور بازاروں میں
اسے سجدوں سے کیا مطلب؟
اْسے تو دل بسانے ہیں
اور اس جادو زدہ بستی کو جنت میں بدلنا ہے

حصہ