بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

209

فرحین ناز
سات سالہ سعدیہ زندگی سے پر جوش ہوا کرتی تھی، ہنسنے مسکرانے والی بچی اچانک سے خاموش رہنیلگی تھی پڑھائی میں بھی دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی، اس کی ہر جگہ سے پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے کی شکایات اس کی والدہ شبانہ صاحبہ کو موصول ہو رہیں تھیں وہ بھی پریشان تھیں کہ دن بہ دن سعدیہ پڑھائی میں کمزور کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ لیکن اس کا جواب نہ تو خود ان کے پاس تھا اور نہ ہی سعدیہ کے پاس۔ لہذا انھوں نے اس کو سعدیہ کی لاپروائی سمجھتے ہوئے سعدیہ کو ڈاٹنا شروع کر دیا. ابھی وہ سعدیہ کو ڈانٹ ہی رہیں تھیں کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، جب شبانہ صاحبہ نے درواذہ کھولا تو سعدیہ کے کزن ایاز گھر کے اندر تشریف لائیں جنہیں دیکھ کر سعدیہ سہم گئی، ایاز کے آتے ہی شبانہ صاحبہ نے سعدیہ کی پڑھائی میں غفلت کی شکایات شروع کردیں۔ شبانہ صاحبہ کی تمام گفتگو سننے کے بعد ایاز نے مسکراتے ہوئے بڑے اطمینان بخش انداز میں کہا: ’’سعدیہ کو میں سمجھا دوں گا۔”
ایاز دراصل سعدیہ کی پھوپھی کا بیٹا تھا لیکن عمر میں سعدیہ سے کوئی 18 سال بڑا تھا لہذا ایاز کی اور سعدیہ کے والد جمشید صاحب کی عمر میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باعث وہ دونوں آپس میں اچھے دوست بھی تھے اور ایاز کا سعدیہ کے گھر بے تکلف آنا جانا عام بات تھی۔ سعدیہ کے والد اور والدہ ایاز کو بہت پسند کرتے تھے کیونکہ اس کے آجانے سے ان کے گھر میں رونق آجاتی تھی۔ لیکن سعدیہ ایاز کے آ جانے سے پریشان ہو جایا کرتی تھی کیونکہ وہ سعدیہ کو بہت ڈانٹتا تھا جوبات سعدیہ اپنے والدین کی بھی نہیں سنتی تھی اس کی ایک آواز میں سن لیتی تھی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے اشارے سے بھی سہم جایا کرتی تھی سعدیہ کے والدین بھی ایاز کے آ جانے پر سعدیہ کی شکایتوں کی بھرمار اس کے آگے لگا دیتے تھے تا کہ ایازسعدیہ کو سمجھائے۔
لیکن سعدیہ کا ڈر کوئی معمولی ڈر نہیں تھا، سعدیہ ایاز کے رعب سے نہیں بلکہ اسکی درندگی سے ڈرتی تھی جو کہ وہ اس کے ساتھ اس کے والدین کے سو جانے کے بعد کیا کرتا تھا، جس سے سعدیہ کے والدین بیخبر تھے۔ وہ معصوم ایاز کے اتنے خوف میں تھی کہ کسی کو کچھ بتانے کے قابل بھی نہیں تھی بلکہ سعدیہ کو تو یہ معلوم بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ یہ کیا ہوتا ہے جس سے اس کی روح تک کانپ جاتی ہے۔
یہ سلسلہ کچھ عرصے تک یونہی چلتا رہا آخر کار سعدیہ نے ایک دن اپنی والدہ کو سب کچھ بتا نے کی ٹھان لی۔ سعدیہ جب بھی اپنی والدہ سے بات کرنا چاہتی تو وہ اس کی بات غور سے نہ سنتیں کبھی اس کام میں تو کبھی اس کام میں مصروف رہتیں، انکے پاس سعدیہ کی بات سننے کی فرصت ہی نہ تھی آخرکار سعدیہ نے خاموشی اختیار کر لی اور پھر کچھ سالوں بعد ایاز کی شادی ہو گئی یوں ایاز کا سعدیہ کے گھر آنا جانا ختم ہوگیا، یوں سعدیہ نے سکون کا سانس لیا اور پھر وہ آہستہ آہستہ پڑھائی کے میدان میں خوب سے خوب تر ہوتی چلی گئی، کلاس میں فیل ہو جانے والی بچی میٹرک کے رزلٹ میں %81 لے کے کامیاب ہوئی جس پر سعدیہ کے والدین کے ساتھ ساتھ سعدیہ کے اساتذہ کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا، اس دن سعدیہ بہت خوش تھی اور سعدیہ اب اپنی زندگی میں کامیابیوں کی طرف گامزن ہے۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ دوسری جانب ایاز کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو جسمانی طور پر معذور تھی شاید ایاز کو اپنے کیئے کی سزا اپنی زندگی میں ہی اس بچی کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔
سعدیہ پر تو قدرت مہربان ہو گئی لیکن سعدیہ جیسی ہزاروں لڑکیاں آج بھی ایاز جیسے حیوان صفت انسانوں کے ہاتھوں ان کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔ بچے صرف گھر سے باہر ہی نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی غیر محفوظ ہوتے ہیں ایاز جیسے انسان ہمارے درمیان ہی پائے جاتے ہیں اور ان سے اپنے بچوں کے حفاظت کرنا ہر والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔
لیکن افسوس آج کل والدین کے پاس فیس بک، ٹیوٹر، ٹیلی ویڑن کے لیئے تو وقت ہے لیکن دو گھڑی اپنے بچوں سے گفتگو کرنے کا نہیں۔
میں اس سلسلے میں میڈیا کے کردار کو سرہانہ چاہوں گی جس نے ہمارے معاشرے میں یہ آگاہی دی ہے کہ بچوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے ورنہ یہ سلسلہ تو عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ ایاز جیسے حیوان صفت انسان ہر دور میں ہی پائے جاتے رہے ہیں لیکن والدین کو یہ آگاہی ہی نہ تھی کہ عزت کی نگرانی صرف عورتوں کی ہی نہیں بلکہ بچوں کی بھی کرنی پڑتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ عزت کی بد نامی کی خاطر ایاز جیسے حیوانات کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا بلکہ درندگی کا شکار بننے والے کو ہی ڈرا دھمکا کے خاموش کردیا جاتا ہے۔ ایاز جیسے درندے کھولے عام گھومتے ہیں اور سعدیہ جیسی بچیوں کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔
اگر آپ کے ارد گرد میں بھی ایسا کوئی واقعہ موجود ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھائیے، ایاز جیسے حیوان صفت انسانوں کو کِفر کردار تک پہنچائیے ورنہ ان کی حیوانیت کا نشانہ کل آپ کا کوئی اپنا بھی ہو سکتا ہے۔

حصہ