تین روزہ ورکشاپ ’’اچھا انائونسر کیسے بنیں‘‘۔

294

افسانہ مہر
علم و ہنر کے آسمان پر جتنی پرواز بلند کی جائے اس کی وسعتوں کا اندازہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ احساس ہمیں زبیر منصوری کی تین روزہ ورکشاپ میں شرکت کے بعد ہوا، جو ادارۂ نورحق میں ’’اچھا انائونسر کیسے بنیں‘‘ کے عنوان سے کرائی گئی تھی۔ ہم انائونسر بننے کے لیے جائیں گے، ایسا تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا… لیکن جماعت اسلامی کی تنظیم و تربیت کے باب میں یہ خوبی بھی نمایاں نظر آتی ہے کہ وہ اپنے افراد کے لیے مسلسل تربیت کے پروگرام ترتیب دیتی ہے اور ان میں پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھار کر انہیں ایک نئے محاذ پر کھڑا کردیتی ہے۔ اور آج قلم کے سپاہیوں میں اگر کسی درجے پر کوئی ہمیں کھڑا کرے تو اس کا تمام سہرا جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی کے سر ہی جاتا ہے۔
ورکشاپ کرانے والی عظیم ہستی کا نام سنا تو خواہش اور شوق میں نئے گل بوٹے پھوٹنے لگے۔ محترم جناب زبیر منصوری صاحب کی جتنی تعریف سنی تھی اب اتنے ہی شوق میں ابال پڑنے لگے تھے۔ سو زندگی کی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر ہم نے بھی ورکشاپ میں شرکت کا عزمِ قوی باندھ لیا۔
پر ورکشاپ کیسی ہوگی؟ کچھ بھی اندازہ نہ تھا۔ کانفرنس روم طرز پر مرتب شدہ میز کرسیوں کو دیکھ کر گمان ہوا گویا یہاں کچھ چیدہ چیدہ نکات پیش کیے جائیں گے اور اصول و ضوابط کی لسٹ پکڑا کر فارغ کردیا جائے گا… لہٰذا ہم اطمینان سے نشست پر براجمان ہوگئے۔
وقت تیزی سے گزرنے کا احساس جاگا تو گھڑی کی طرف نظر اٹھ گئی، جہاں سوئی کی ٹک ٹک 20 منٹ اوپر ہوجانے کی خبر سنا رہی تھی کہ زبیر منصوری صاحب کی آمد کا اعلان ہوا۔ اور دل میں خوشی کے جذبات گردش کرنے لگے۔ ایک دم دروازے سے سفید کرتا شلوار، بلیک ویسٹ کوٹ میں ایک شخصیت تیزی سے اندر آتی نظر آئی، جو کانفرنس ٹیبل کے وسط میں پہنچتے ہی ایک دم پلٹ کر ’’مارکر لیتی‘‘، کچھ جیب میں تلاش کرتی نظر آئی… پھر وہ عقب میں لگے پردے کی طرف دیکھ کر بولے:
’’بی بی کم از کم پروگرام کا نام تو لکھ کر لگاتیں‘‘… اعتراضی لہجہ کانوں سے ٹکرایا تو نظر مینجمنٹ اسٹاف کی طرف گھوم گئی جو اچانک اس سوال پر صرف’’جی‘‘ کہہ پائیں۔ ابھی ہم سامنے موجود پیکر کی پیشانی پہ بل، پریشان حال حلیے، ناک پر ٹکی عینک اور پیروں میں ہوائی چپل پر غور کر ہی رہے تھے کہ ایک سخت آواز کانوں سے ٹکرائی ’’آپ کو پتا ہے آپ آج کس سلسلے میں جمع ہوئی ہیں؟‘‘ ساتھ ہی عینک کے عقب سے گھورتی نظروں نے تمام خواتین کے چہروں کی طرف سفر کرنا شروع کردیا… ہم نے فوراً اپنی نگاہ اپنی ڈائری اور قلم پر مرکوز کردی۔
’’جی وہ انائونسر بننے کا اور پروگرام مینجمنٹ کے بارے میں…‘‘ بالکل سامنے بیٹھی خاتون پر زبیر صاحب کی نظر اٹکی تو وہ بھی اٹک اٹک کر بولنے لگیں… ’’یعنی آپ کو پروگرام کا نام بھی نہیں پتا اور آپ یہاں آگئیں…؟‘‘ زبیر صاحب نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
اسی دوران منتظمین میں سے ایک خاتون طالبات و خواتین کی پشت کی طرف سے انہیں پرچہ تھماتی اور اُس پر نام لکھنے کی ہدایت دیتی نظر آئیں، تو زبیر صاحب کی نظر بھی اُن کی طرف مڑ گئی۔
’’آپ کا یہ کام میری ورکشاپ سے زیادہ ضروری ہے؟‘‘ زبیر صاحب ناگواری کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے بولے۔
’’جی وہ بس ہوگیا‘‘… خاتون بھی غیر متوقع سوال پر گڑبڑا گئیں۔ اور ابھی ان کے منہ سے جملہ پوری طرح مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ زبیر صاحب واپس مڑے اور بولے…
’’آپ اپنے کام کرلیں، میں بعد میں ورکشاپ کرالوں گا…‘‘
’’نہیں نہیں سر… بس ہوگیا‘‘… خاتون بولتی رہیں مگر سر تیزی سے چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا… باتیں سرگوشیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہ ایک دم کیا ہوا…؟ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
’’سر پہلے تو ایسے نہیں تھے… میں نے پہلے بھی ان کی ایک ورکشاپ لی ہے‘‘… دائیں نشستوں سے ہلکی سی آواز ابھری۔ ہمارے دل میں گردش کرنے والے خوشی کے جذبات و احساسات اب انجانی سی گھبراہٹ میں تبدیل ہوچکے تھے۔ ہم نے خود کو سیدھا کیا اور اپنی کمر کرسی کی پشت سے ٹکالی تاکہ گھبراہٹ پر قابو پایا جا سکے۔ تھوڑی دیر بعد سر زبیر کی آمد کا دوبارہ اعلان ہوا۔ دوبارہ دروازے کا پردہ ہلا اور… اور یہ کیا…؟؟؟ تمام طالبات و خواتین پھر حیران رہ گئیں۔ سامنے نظر آنے والی ہستی اب بالکل نئے رنگ روپ میں کھڑی تھی۔ چند لمحے قبل والا لباس اب ان کے تن پر تھا نہ وہ پریشان حالی تھی… اب تو بہترین استری کیا ہوا خوش رنگ لباس تھا، چال و انداز میں نرمی اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کندھے پر بیگ اور ہاتھ میں فون تھا۔ کانفرنس ٹیبل کے نزدیک آکر انہوں نے احتیاط سے پانی کی بوتل ایک طرف رکھی اور خواتین کی طرف رخ کرکے بشاش لہجے میں کہا:
’’السلام علیکم… کیسی ہیں آپ سب‘‘۔ اس نرم لہجے اور دوستانہ انداز نے دل میں امنڈنے والی گھبراہٹ میں کمی کردی تھی۔
’’یہ جو صاحب ابھی کچھ دیر قبل یہاں آئے تھے وہ کون تھے؟‘‘ زبیر منصوری نے اسی نرم لہجے اور دوستانہ انداز میں سوال کیا۔
’’آپ تھے…‘‘ کہیں سے جواب ہوا میں لہرا گیا۔
’’اچھا یہ بتائیں کہ کچھ دیر قبل آپ لوگوں کے کیا تاثرات تھے؟ اور جو صاحب ابھی ورکشاپ کرانے آئے تھے وہ آپ کو کیسے انائونسر لگے… اور یہ جو صاحب بعد میں آئے… وہ کیسے انائونسر لگے…؟‘‘
’’اوہو!! تو گویا وہ سب ایک Planed activity تھی… واہ… واہ… سر آپ نے تو ہم سب کی سٹی گم کردی تھی‘‘۔ ایک طالبہ نے کہا۔ اور پھر ’’پہلے‘‘ اور ’’دوسرے‘‘ انائونسر کا تقابل شروع ہوگیا۔ انداز، الفاظ، حلیہ، رویہ تمام ہی پہلوئوں پر بہترین تبصرہ کرتے ہوئے زبیر منصوری صاحب نے اچھے انائونسر کی بنیادی اور لازمی خصوصیات سمجھائیں۔ انائونسمنٹ کے دوران سامعین اور حاضرین کے مابین اچھا تعلق پیدا کرنے والے بہت سے باریک اور اہم نکات انتہائی مہارت کے ساتھ واضح کیے۔ بے شک زبیر منصوری اپنے ہنر میں کمال رکھتے ہیں، ہمارے دل نے ہی نہیں دماغ نے بھی اعتراف کیا۔
آخر میں انہوں نے تمام خواتین کو انائونسمنٹ کے انداز میں اپنا تعارف پیش کرنے کی ایکٹویٹی کرائی جس میں تمام طالبات و خواتین نے بھرپور حصہ لیا۔
پہلے دن کی اس بھرپور ورکشاپ نے اگلے دو دنوں میں شامل ہونے پر مزید اکسایا۔ بے شک یہ زبیر صاحب کے ایک اچھے ورکشاپ کنڈکٹر ہونے کی دلیل تھی۔
اگلے دن کا آغاز بھی ’’پہلے‘‘ اور ’’دوسرے‘‘ انائونسر پر تبصرے سے ہی ہوا۔ دونوں کرداروں کے تناظر میں سامعین و حاضرین کی ذہنی کیفیات کا اتار چڑھائو کیسا رہا اور کیوں رہا؟ اس کے ساتھ ساتھ زبیر صاحب نے سمجھایا کہ کسی بھی نکتے کو مثبت یا منفی رخ دینے میں انائونسر کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ وہ انائونسر بہترین انائونسر ہوتا ہے جو اپنے دائیں بائیں موجود اشیاء کی مدد سے ایک نئی ایکٹویٹی پیدا کرکے لوگوں کو دیکھنا اور سوچنا سکھا دے۔ اور کامیاب انائونسر اپنے انداز، حلیہ اور جادوئی لہجے سے سامعین کے دماغ میں وہ سب اتارنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے جو وہ اُن میں اتارنا چاہتا ہے۔ اپنے حاضرین کی توجہ حاصل کرلینا اور ان میں تجسس پیدا کرکے پروگرام کے آخر تک لوگوں کو تھامے رکھنا بھی اچھے انائونسر کی خوبیوں میں شامل ہے۔ ان خوبیوں کی تعمیر کے لیے ایک انائونسر کا اپنے پروگرام کے تمام نکات اور اس کے مرکزی پیغام سے اچھی طرح آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ زبیر صاحب نے پروگرام مینجمنٹ کے لیے ناگزیر معلومات حاصل کرنے کے ذرائع اور نکات بھی بہت اچھی طرح سمجھائے۔ انہوں نے کہا کہ انائونسر کو سامعین کی علمی اور ذہنی سطح پر آکر سوچنا چاہیے کہ وہ کیا پسند کریں گے اور کیا ناپسند کریں گے۔ اور پھر اپنا اسکرپٹ مرتب کرے۔ اسکرپٹ کی تیاری کے لیے ماہر انائونسرز کے تجربے اور مشوروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے اور گوگل سے بھی۔ اس کے بعد تمام طالبات و خواتین کو ماضی اور حال کے چند بہترین انائونسرز کے وڈیو کلپ دکھائے گئے۔ زبیر منصوری صاحب نے یہ بھی کہا کہ ایک انائونسر کو کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کسی پروگرام کے دوران اچانک بارش ہونے، آگ لگنے یا کوئی اور غیر متوقع صورتِ حال پیش آجانے کی صورت میں انائونسر کو اپنے حواس مضبوط اور خود کو مربوط رکھنا چاہیے تاکہ سامعین و حاضرین کو بھی پُرسکون رکھا جا سکے اور مجمع کو بھگدڑ سے بچایا جا سکے، اور افراد کو بحفاظت باہر نکالا جا سکے۔
ورکشاپ کا تیسرا اور آخری دن کچھ سیکھنے نہیں بلکہ سیکھے گئے نکات کو عملی طور پر کرکے دکھانے کا دن تھا، جس کے لیے تمام ہی طالبات و خواتین بالکل تیار ہوکر آئیں۔ آج ہمیں خود کو برنگِ انائونسر پیش کرنا تھا۔ ہماری آدھی الجھن یہ سن کر ختم ہوگئی کہ عملی نمونہ کی نگرانی زبیر منصوری صاحب نہیں بلکہ مینجمنٹ ٹیم کرے گی…
اس ایکٹویٹی کے لیے بنائے گئے تینوں گروپس الگ الگ کمروں میں بھیج دیے گئے، جہاں انہیں اپنے اپنے موضوع کے مطابق اسٹیج سجاکر انائونسمنٹ کرنا تھی۔ اور ہر ایک کی کارگزاری باریک بینی سے چیک کی جانی تھی۔ ہر انائونسر کے لیے 5۔6 منٹ کا وقت طے تھا۔ ہم سب گروپ ممبرز سرگرمی میں مگن تھے کہ اچانک ہمارے کمرے میں مینجمنٹ کی ایک خاتون چکرا کر کرسی پر ڈھیر ہوگئیں۔ ہم سب ایک دم بوکھلا گئے اور انائونسمنٹ پر کھڑی خاتون بھی رک گئیں، پھر ایک دم ہماری ایک ساتھی کو احساس ہوا کہ کہیں یہ ہمارے امتحان کا حصہ تو نہیں؟ اس نے ہمیں چوکنا ہونے کا اشارہ کیا اور ہم میں سے دو خواتین خاتون کی مدد میں مشغول ہوکر باقی اپنی سرگرمی میں واپس آگئیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ واقعی یہ ہنگامی صورتِ حال میں ہمارا رویہ چیک کرنے کے لیے کروایا گیا تھا۔
ایکٹویٹی مکمل ہونے پر زبیر منصوری صاحب واپس آگئے اور بہترین سرگرمی کرنے والے گروپ کا اعلان کیا… اس کو شاباش دی۔ پھر تینوں گروپس میں بہترین انائونسمنٹ کرنے والی تین طالبات و خواتین کو انعام دیے گئے۔
آخر میں ناظمہ کراچی حلقہ خواتین فرحانہ اورنگ زیب صاحبہ نے تمام طالبات و خواتین کی مسلسل تین دن آمد اور بھرپور حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں استعمال کرکے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اقامتِ دین کی جدوجہد زندگی کے ہر میدان میں کرتے رہنا اور اس میں کمال حاصل کرنا جماعت اسلامی کا مشن ہے۔ اور اس کام میں وہ گاہے بگاہے اپنے کارکنان کی تربیت کرتی رہتی ہے۔ اس موقع پر نائب ناظمہ بھی موجود تھیں۔
بلاشبہ انائونسمنٹ کے حوالے سے یہ ایک منفرد اور بہترین ورکشاپ تھی، جسے ڈیزائن کرنے پر ہم جناب زبیر منصوری صاحب کے بے حد مشکور و ممنون ہیں، اور جس کے انعقاد پر ہم جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کراچی کے احسان مند رہیں گے۔

حصہ