اولڈ ہائوس کا بوڑھا

212

فرح ناز فرح

اس کے چہرے پہ جال شکنوں کا
ہر شکن اک نئی کہانی ہے
اور اس کے سفید بالوں میں
اس کی گزری ہوئی جوانی ہے
بوجھ دنیا کا اٹھایا تھا ان ہی ہاتھوں نے
آج ان میں خفیف سی لرزش
کل وہ سایہ تھا، آج بے سایہ
اس کو کہتے ہیں وقت کی گردش
اس کی آنکھوں میں اک تلاش سی ہے
اور ہونٹوں پہ ایک پیاس سی ہے
آج شاید کوئی اپنا ملے
دل میں پوشیدہ ایک آس سی ہے
اولڈ ہائوس کے سارے بوڑھوں کی
اک جیسی ہی تو کہانی ہے
بے ضمیری کی ایک علامت ہے
مُردہ قوموں کی یہ نشانی ہے

حصہ