نئے شاعر… وصاف باسط

228

اسامہ امیر
خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر وصاف باسط 12 مئی 1994 کو بلوچستان کے خوب صورت شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے، آپ نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 2014 میں کیا۔ اس وقت بلوچستان یونیورسٹی سے نفسیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ آپ کا شمار کوئٹہ کے نمائندہ جدید غزل گو شعرا میں ہوتا ہے، آپ مصرع کہنے کے ہنر سے واقف ہے سوائے چونکنے کے عمل سے قاری کو تہہ در تہہ معنی فراہم کرتے۔ آئیے چلتے ہیں کلام کی طرف اور ان میں چھپے معانی تلاشتے ہیں۔

روز جاتے تھے بہت دور تلک ہم دونوں
پر یہ معلوم نہیں ہے میں کہاں ہوتا تھا
٭
خوف کے بعد بھی وحشت ہی نظر آتی تھی
وحشتوں سے بھی پرے کوئی جہاں ہوتا تھا
٭
کشتیوں کی آگ دفنانے کے بعد
دیکھ لے ساحل،، سمندر کا دھواں
٭
دونوں جانب ایک جیسی آگ ہے
دونوں جانب ہے برابر کا دھواں
٭
مہتاب فضا کے آئینے میں
دیکھا تھا خدا کے آئینے میں
٭
تم خواب سے دو قدم نکل کر
چھپ جاؤ دعا کے آئینے میں
٭
میں کاش ستارے پینٹ کر لوں
افلاک بنا کے آئینے میں
٭
تیرگی نے کوئی تعویذ کیا ہے شاید
اس لیے روشنی ترسیل نہیں ہوپائی
٭
میں نے ہر لفظ نبھایا تھا بڑی شدت سے
پر مری شاعری انجیل نہیں ہوپائی
پھر کسی رات وہ کہسار پہ بیٹھا، بولا
چاندنی رات کی تمثیل نہیں ہوپائی
٭
یہ آسمان جو معمول کے مطابق ہے
زمیں کی چیخ فلک تک نہیں گئی ہوگی
٭
اسے خبر ہے طبیعت ہی میری ایسی ہے
مجھے یقیں ہے وہ شک تک نہیں گئی ہوگی

حصہ