اے پیکرِ گل! کوشش پیہم کی جزا دیکھ

1650

محمد عدنان دانش
انسان ے عظیم تر اہداف و مقاصد ہی زندگی کے ہر موڑ پر اس کی حیثیت اور قدر و قیمت کا تعین کرے ہیں۔ عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے کی خواہش ہمیشہ بہت سی اعلیٰ خصوصیات کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو اور سفر مسلسل جاری رہے تو انسان بالآخر منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کامیابی کا تصور بہت سے افراد کے نزدیک مختلف ہوسکتا ہے لیکن ایک بات حتمی ہے اور مطالعے‘ مشاہدے اور تجرے سے ثابت ہے کہ دو ہی چیزیں کسی بھی فرد کو شاندار کامرانی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مقصد کی سچی لگن اور جدوجہد مسلسل۔ دنیا کا ہر انسان ایک تھکا دینے والی جنگ لڑنے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ بے شک قدرت ضرورت ساتھ دیتی ہے لیکن بہر حال زندگی کٹھن اور دشوار ہے۔ بعض اوقات بظاہر ٹوٹتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ آزمائش کے لمحات اکثر طویل دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت مشکلات‘ دشواریاں‘ پریشانیاں‘ بیماریاں اور دبائو کی کیفیات پھر بھی وقتی اور عارضی ہوا کرتی ہیں۔ شاعر نے کیا خوب صورت بات کہی ہے:

طولِ غمِ حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی رات ہے جس کی سحر نہ ہو

انسان وہ ذمے ار ہستی ہے جو ہمیشہ فرائض کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔ اگر انسان مستقل مزاجی سے مستعف ہوجائے تو وہ اپنا بوجھ کم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہتا ہے۔ لگاتار کوششیں انسان کو قدم قدم پر کامیابی کی نوید سناتی ہیں اور اسے ہر آن خوشیوں کا سامان فرائم کرتی ہیں۔
جدوجہد مسلسل یقینا سو مسائل کا حل ہے لیکن انسان کو کس محنت کا پھل کب ملے گا‘ کتنا ملے گا اور کس صورت میں ملے گا‘ یہ فیصلہ کرنا قدرت کا کام ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ اس نے مقدور بھر کوشش کی ہے لیکن حسبِ توقع نتیجہ ہاتھ نہیں آتا۔ دراصل کامیابی یا ناکامی کا ملنا صورت حال اور حالات پر بھی منحصر ہوتا ہے اس کے علاوہ اس بات کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں کہ کسی فرد یا کچھ لوگوں کی ظلم و زیادتی کی وجہ سے انسان اپنا مطلوبہ جائز مقصد حاصل نہ کرسکے۔ ان سب باتوں کی موجودگی میں انسان اگرچہ اپنا خاص ہدف مکمل نہیں کرنا پاتا لیکن یہ حقیقت ماننے والی ہے کہ عمل پیہم کی بدولت اس کی صلاحیت‘ قوت‘ طاقت اور توانائی میں مسلسل اور بتدریج اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرنا اور پھر کام کو بالکل ترک کر دینا کسی بہادر اور بڑے انسان کا کام نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ کی رُو سے بھی اللہ تعالیٰ کی وہی عمل محبوب ہے جو مستقل ہو‘ اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔ ایک خوب صورت مثال ہے کہ سمندر میں بعض جگہوں پر بڑی بڑی اونچی چٹانیں موجود ہوتی ہیں۔ جب خطرناک لہریں بھپرتی ہیں تو وہ چٹانیں پانی کے نیچے چھپ جاتی ہیں لیکن اپنی کے گزر جانے کے بعد وہ دوبارہ خشک ہوجاتی ہیں اور پانی کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہتا اس برعکس اگر پانی کا ایک قطرہ انتہائی سخت پتھر پر متواتر گرتا رہے تو وہ کچھ عرصے میں وہاں جگہ پیدا کر دے گا۔ اسی طرح لگاتار عمل کسی بھی شعبۂ زندگی میں اور ہر محاذ پر انسان کے کے قدموں کو جمائے رکھتا ہے۔ دنیاوی امور سے قطع نظر ایک مردِ مجاہد کو بھی مستق مزاجی‘ استقامت‘ پامردی اور استقلال اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ یہی اس کی اصل قوت اور مضبوط کی علامت ہے۔
مقاصد اور سرگرمیوں میں مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہی عمل کی اس دنیا میں پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ ڈٹے رہنا اور جمے رہنا ہی انسان کی وہ اصل خوبی ہے جسے فتح مندی کی ضمانت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے پرامید چہرے اگر کسی وجہ سے مقصد حاصل نہ کرسکیں تب بھی وہ مضمحل نہیں ہوتے۔ یہ وہ محنتی لوگ ہیں جو شاندار کامیابی کا یقین محکم رکھتے ہوئے مسلسل عمل اور انتظار کے سنہرے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ حسرت و افسوس‘ پشیمانی اور کڑھن کسی بھی انسان کو پستی کی جانب دھکیل دیتی ہیں۔ ان کمزوریوں کی موجوگی میں اس کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور بالآخر وہ دل شکستہ ہو کر میدانِ عمل سے راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے جب کہ بندۂ مومن رب کی رحمت سے ہمیشہ پُرامید رہتا ہے۔ وہ مستقل ناکامیوں کا سامنا کرنے کے باوجود بھی فتح و نصرت کی آس نہیں توڑتا اور ہر آن عملِ پیہم ہی اس کا سرمایہ و اثاثہ ہوا کرتا ہے۔ وہ غم میں گھلتے رہنے اور پریشانی کو خود پر طاری کرکے ہمت ہارنے کے بجائے ہر دم بلندیوں پر نگاہیں مرکوز رکھتا ہے۔ نئے عزم و امنگ اور تازہ حوصلوں کی بہ دولت اس کا جوش و جذبہ برقرار رہتا ہے اور استقلال‘ مستقل مزاجی اور لگاتار عمل کے ساتھ اس کے قدم بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یقینا جدوجہد مسلسل پر یقین رکھنے والوں کی زندگی میں مایوسی کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔ ان خوش نصیب انسانوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہتے ہیں اور امیدیں ہر دم قائم۔ یہ لوگ ناکامی کو زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے بھی اپنی قوت بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس غرض سے دنیا کو وجود بخشا ہے کہ یہاں ہر انسان کامیابی حاصل کرے۔ کامیابی کا یقین ہی انسان کو جدوجہد مسلسل پہ قائم رکھ سکتا ہے۔ کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے خیالات‘ افکار‘ جذبات‘ احساسات اور قوتِ عمل سے کبھی بھی مایوسی کا اظہار نہ کرے۔ کوئی بھی انسان لگاتار عمل صرف اس وجہ سے ترک کر دیتا ہے کہ اس کے دل میں کامیابی کا یقین نہیں ہوتا۔ جدوجہد مسلسل اور یقین محکم میں راست تناسب ہے۔ یقین محکم انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اس سے انسان اس صورت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے جب وہ عملِ پیہم سے مستعف ہو۔ یہ دنیا میدانِ کارِزار ہے۔ انسان کو بے پناہ قوتیں اور بے شمار اسباب و وسائل اسی لیے عطا کیے گئے ہیں کہ وہ لگاتار جدجہد میں مستعد رہے اور اپنے روشن اور تابناک مستقبل کی خاطر غیر معمولی کوششوں کا اہتمام کرے۔ محنت کا حق ادا کرنے کے بعد انسان اس کے پھل سے ضرور فیض یاب ہوتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان جدوجہد کے تقاضوں کو پورا کر دے اور محروم رہے‘ البتہ اگر کوئی دنیاوی طاقت اس کا حق سلب کرلے تو یہ الگ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’انسان کے لیے کچھ نہیں ہے‘ مگر وہ جس کی اس نے جدوجہد کی ہے۔‘‘ اشراف المخلوقات ہونی کے ناتے قدرت نے انسان کو عمل کرنے کا ذمے دار بنایا ہے۔ محنت‘ جدوجہد اور کوشش سے کوئی نسبت رکھے بغیر انسان فلاح نہیں پا سکتا۔ اسی طرح عملِ پیہم پر اصرار کرکے انسان بڑے بڑے اہداف کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی قابلیت حاصل کرلیتا ہے جدوجہد مسلسل ہی وہ پیمانہ ہے جسے دیکھ کر کسی بھی شعبۂ زندگی میں انسان کے استحکیام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہر انسان کے لیے دنیا اسباب سے مزین ہے اور امکانات سے بھری ہوئی ہے۔ ترقی و خوش حالی کے مواقع ہر فرد کو ملتے رہتے ہیں لیکن متحرک‘ فعال اور باعمل شخص ہی کسی بھی خوب صورت موقع سے زبردست فائدہ اٹھانے اور خود کو توانا بنانے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی فرد اپنی نااہلی کی وجہ سے مواقع ضائع کر دیتا ہے لیکن وسائل سے لبریز اس دنیا میں مواقع ختم نہیں ہوتے۔ لگاتا کام کرنے کے عادی فرد کے لیے کسی بھی موقع کو اپنے حق میں استعمال کرنا اور اپنی قوت اور توانائی کو قائم رکھنا یقینا مککن اور آسان بات ہے۔ انسان جتنا بھی کامیاب ہو‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتگر جو وقت دسترس میں ہوتا ہے‘ اس کے مقابلے میں ذمے داریاں کچھ زیادہ عائد ہوتی ہیں۔ صحیح اوقات کا تدارک کرتے ہوئے جدوجہد مسلسل یا لگاتار کام کرنا ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر منزل تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کی جاسکتی ہے‘ ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کا حصول انسان کا وہ بلند تر ہدف ہے جس کی خاطر وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ کسی بھی نوعیت کا مسئلہ ہو‘ اس کے حل کے لیے عملی جدوجہد اور خصوصی توجہ لازماً درکار ہوتی ہے۔ زندگی کو پُرسکون بنانے کی خواہش ہو یا عظیم تر اہداف کی تکمیل کا معاملہ درپیش ہو‘ بھرپور‘ منظم اور پیہم جدوجہد ہی انسان کو وہ قوت فراہم کرتی ہے جو کسی بھی بڑی سے بڑی کامیابی کی مضبوط بنیاد بنتی ہے اور یہی وہ خوب صورت شے ہے جو زندگی کو جنت کی طرح انتہائی حسین بنا دیتی ہیں۔ بقول شاعر:

جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

حصہ