دعا سے بدل جاتی ہے تقدیر

296

تابندہ جبیں
دعا کا موضوع کوئی نیا اور اچھوتا نہیں ہے۔ یہ موضوع اتنا ہی قدیم ہے جتنا کے خود انسان۔ حضرت آدم کو رب کریم نے جو دعا سکھائی وہ قرآن میں موجود ہے۔ اس طرح پے در پے باقی انبیاء کی بھی دعا موجود ہے۔
حضرت محمد ہمارے پیارے نبیؐ ہیں اللہ تعالی نے نبی کریم کے ذریعے ہمیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ دنیا کے آخر تک کس طرح سے ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں دعا کا مفہوم مدد طلب کرنا ہے۔ دعا بذات خود عبادت کا مقام رکھتی ہے رب کریم نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کے ’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے ۔‘‘(سورۃ المومن:40آیت: 60)
یعنی دعا ہمیں اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ قبول ہوگی اور ہمارا پروردگار ہمیں 70ماؤں سے بڑھ کر ہم سے محبت کرتا ہے ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہمارا رب ہماری ماضی حال مستقبل سے خوب واقف ہے بعض دعائیں قبول نہیں ہوتی اس مطلب یہ ہرگز نہیں کے وہ ہمیں پسند نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیں ہمارے طلب سے زیادہ بہتر دینا چاہتا ہے۔ ایک مومن کے تمام طاقتوں وسائل کا حا صل توکل اللہ ہے قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کے: آپ فرمادیجیے! مجھے اللہ کافی ہے، توکل کرنے والے اس پر توکل کرتے ہیں (الزمر:۷۳) انسان اپنی نادانی کی وجہ سے جلد بازی کرنے لگتا ہے اور اپنا وجود کو سوچ سمجھ سے خالی کرنے لگتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور جس سے بندہ توبہ کر کے اپنا نام نیک لوگوں میں شامل کرسکتا ہے۔ دعا کے یہ بھی ضروری ہے کے انسان تدبیر بھی کریں مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بیمار ہے تو وہ علاج ومعالجہ اختیار نہیں کرتا تو یہ غلط ہے۔ ممکنہ اسباب اختیار کر ے اور دعا کرے۔ انسان دعا ہمیشہ پوری توجہ کے ساتھ مانگنی چاہیے ایسا نا ہو زبان سے دعا مانگ رہے ہو اور دل کسی اور طرف متوجہ ہے۔ حدیث پاک ہے کے اللہ تعالیٰ ’’غافل اور بے پروہ دل والے بندے کی دعا قبول نہیں فرماتا‘‘ یعنی ہمیں دعا اس یقین اور اطمینان کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ قبول ہوگی اور اگر ہماری مانگی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہمیں دل برداشتہ ہونے کے بجائے اس بات پے غور کرنا چاہیے اللہ ہمیں ہم سے بہتر جانتا ہے اور ہمارے یقین کا تقاضا یہی ہے ہونا چاہیے کہ ہم اللہ کی رضا میں پورے دل سے راضی ہوں۔
بقول عالامہ اقبال:

تقدیر کے پابند جمادات ونباتات
مومن فقط احکام الٰہی کاہے پابند

حصہ