تبصرہ

344

حریم شفیق
’’میں کسی کو قول دے چکی ہوں میرا دل، میری روح میرا جسم سب اس کی امانت ہے‘‘ جی جناب یہ ڈائیلاگ ہے ہم چینل سے پیش کیے جانے والے ڈرامے ’’الف اللہ اور انسان‘‘ کا۔ کچھ اسی طرح کے نادر خیالات کا اظہار آج کل ہر چینل پر دکھائے جانے والے ڈراموں جیسے اے آر وائی، کے ڈرامے ’’تیری رضا‘، ہم چینل کے ڈرامے ’’تو دل کا کیا ہوا‘‘ میں نظر آرہا ہے۔ ان خیالات کے اظہار کے ذریعے نوجوان نسل خصوصاً لڑکیوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح اپنی بے بنیاد محبتوں کا آزادانہ اظہار کیا جائے اور اول تو والدین کے فیصلوں کو مانا ہی نہ جائے اور اگر مان بھی لیا جائے تو شادی کا ڈھونگ رچا کر شریف شوہروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے اور انہیں اپنی محبتوں کے قصے سنا کر خود سے دور رہنے کی تنبیہہ کی جائے۔ خود ساختہ فلسفے جھاڑے جائیں کہ ہمیں جب ہمیں محبت محسوس ہو گی تو ہم میاں بیوی کا اصل کردار ادا کریں گے ورنہ دنیا کے لیے میاں بیوی اور کمرے میں دو اجنبی رہیں گے… اور جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے… جو اللہ کا قانون ہے کہ مرد و عورت جب رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں تو ان میں محبت خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔ وہ اصول بھول کر کیا ہم خود زیادہ عقلمند بن جانے کی کوشش کریں۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے یہ ڈراماز نہ جانے کتنے گھرانوں اور رشتوں کے توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان ڈراموں میں مرد کو جتنا صابر دکھایا گیا ہے حقیقت میں ایسا بہت کم ہوتا ہے اور اگر عورت اس نظم میں رہے کہ وہ ایسے خیالات لے کر شادی میں بندھ کر اپنی من مانی کرتے ہوئے شوہر سے ایسی توقعات رکھے تو میں نہیں سمجھتی کہ ہر مرد اس بات کو برداشت کرے گا۔
دوسرا اہم نکتہ ان ڈراموں کے حوالے سے یہ ہے کہ ایک شوہر کے نکاح میں رہتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے نہ صرف محبت کرنا بلکہ اس محبت کا آزادانہ پرچار مسلم معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ؟؟؟؟؟؟ تو مغرب کا ہے جہاں شادی رچانے کے باوجود بوائے فرینڈز کا کونسپٹ ہے۔ اسلام میں خصوصاً لڑکیوں کے سرپرست ہی ان کا رشتہ طے کرتے ہیں اور ان کے مخلصانہ اور دانشمندانہ فیصلے ان کے حق میں بہتر ہوتے ہیں۔ اگرچہ اسلام میں بھی لڑکیوں کی رضا مندی سے ہی فیصلہ کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لڑکیوں کو شتر بے مہار کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے۔ مغرب میں اسی طرح کے خیالات ہماری نوجوان نسل میں پیدا کرنا چاہتا ہے وہ انہی ڈراموں کے ذریعے ذہن ساری کر رہا ہے تاکہ ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔ کیونکہ جب طلاق کی شرح بڑھ جائے تو خاندانوں کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرہ بگاڑ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی نوجوان نسل کی حفاظت کی دعا ہے اور ان رائٹرز اور پروڈیوسرز کے لیے ہدایت کی بھی کہ وہ معاشرے کے بگاڑ کے بجائے اسے سنوارنے والے ہیں۔

حصہ