یہود و نصاریٰ کی تقلید و مشابہت کیوں

801

افروز عنایت
آج ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اور کفار کی نقل، مشابہت اور اندھی تقلید نے ہمیں پستی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جس برائی سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمیں بچنے کی ہدایت فرمائی، ہمیں روکا آج ہم اس میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ فیشن اور نام نہاد روشن خیالی کے حامی یہ بھی فراموش کرچکے ہیں کہ مغرب کی جس برائی کو اپنا رہے ہیں اس کا کیا پس منظر ہے، اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں، بحیثیت ایک مسلمان کے ہم ’’ان چیزوں‘‘ کو اپنا سکتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے لیے صحیح ہے؟ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس سے ہمیں غرض نہیں۔ ہم اسی رنگ میں رنگتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ان کا کلچر، طور طریقے، تہوار سبھی ہم پر مسلط ہوتے جارہے ہیں، اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اس میں گھرتی جارہی ہے جس سے ہم غافل ہیں۔ آج کفار یہود و نصاریٰ کے کلچر، تہواروں اور طور طریقوں کی میڈیا پر بھرپور تشہیر نے ان کو پروان چڑھانے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اس کی رسائی نے وہ وہ گل کھلائے ہیں جس سے ہر ایک واقف ہے۔ ان کا لباس عریانیت سے بھرپور، ان کے طور طریقے، کھانا پینا حلال و حرام سے مبرا، ان کے مختلف دن (تہوار) فحاشی کا اشتہار۔ کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ان گندگیوں، خرافات اور لہوو لعب کو اپنائیں! ویلنٹائن ڈے، ہولی، دیوالی، ہلووین وغیرہ کچھ کم غلاظت تھی جسے ہم نے اور ہماری نئی نسل نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ اگر ان خرافات کو ابتدا ہی میں روک دیا جاتا ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں، تو شاید مغربیت کی نئی خرافات کا سلسلہ یہیں رک جاتا۔ ہماری روشن خیالی اور لبرل ازم کی وجہ سے ان خرافات کا سلسلہ جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گا۔ اب ایک اور تہوار و دن کا سب کو بے چینی سے انتظار ہے۔ 25 نومبر کو امریکا اور پاکستان میں بلیک فرائیڈے کے نام سے گرینڈ سیل کا شوشا چھوڑا گیا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے گولڈن ریپر (کور) کے اندر گندگی ہو۔ بلیک فرائیڈے یعنی سیاہ جمعہ کا انتظار بڑی بے چینی سے کیا جارہا ہے۔ اس سیاہ جمعہ کا پس منظر کیا ہے، اس کے پیچھے کیا مکروہ سازش ہے؟
اس کی ابتدا امریکا سے ہوئی۔ امریکا میں ماہ نومبر کی آخری جمعرات کو Thanks giving day کے نام سے دن منایا جاتا ہے، اس کے اگلے دن گرینڈ سیل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 1961ء میں امریکا کی ایک ریاست میں جب یہ گرینڈ سیل لگائی گئی تو عوام الناس کا ازدحام امنڈ آیا۔ پورے شہر میں ٹریفک جام ہوگیا۔ اس بری صورت حال کو وہاں کی پولیس نے بڑی مشکل سے کنٹرول کیا اور اس دن کو بلیک فرائیڈے (سیاہ جمعہ) کا نام دیا گیا۔ ہمارے مغرب زدہ معاشرے نے بے سوچے سمجھے اس تہوار یا دن کو بھی کھلے دل سے گلے لگا لیا یہ خیال کیے بغیر کہ اس مبارک دن جمعہ کی ہمارے مذہب میں کیا قدر و منزلت ہے۔ ہم اسے سیاہ جمعہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا یہود و نصاریٰ کی تقلید میں ہم اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ جمعہ کی فضیلت کو فراموش کربیٹھے ہیں! گرینڈ سیل بے شک انسانیت کے بھلے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے لیکن مغرب کی تقلید میں جمعۃ المبارک کو اس نام سے پکارنا ہم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔ مذہبِ اسلام میں جمعہ کا مبارک دن ’’مقدس‘‘ اور ’’معتبر‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ جمعۃ المبارک سے متعلق دینِ اسلام میں بہت سے واقعات اور روایات ہیں جن سے ہم سب مسلمان واقف ہیں۔ کسی خاتون نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک گرینڈ سیل ہوگی جس سے امیر و غریب سب مستفید ہوں گے، اس پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے! بے شک یہ عوام الناس کے فائدے کے لیے ہی ہوگی لیکن ہمارے اپنے قومی یا دینی تہواروں پر لگنے والی سیل پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اگر اس سیل کو بھی کسی اور مثبت نام سے پکارا جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
اصل اعتراض مغرب کی اندھی تقلید، ان کی مشابہت اختیار کرنے اور یوم جمعہ کی تذلیل پر ہورہا ہے۔ پھر یہ ’’دن‘‘ بھی مغرب سے آئے دوسرے دنوں کی طرح معاشرے کی رگوں میں سرایت کرجائے گا اگر اس کا سدِباب نہ کیا گیا تو… جس طرح مغربیت ہم پر مسلط ہوتی جا رہی ہے، کفار یہود و نصاریٰ اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں، خصوصاً اُن کا نشانہ ہماری نئی نسل ہے، تو آگے نہ جانے کیا کچھ ہوتا جائے گا۔ اور ہمارا یہود و نصاریٰ سے متاثر معاشرہ مغربیت کا لبادہ اوڑھنا روشن خیالی اور لبرل ازم کی ضمانت سمجھتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی نے قلم اٹھانے کی جسارت کی تو اسے جاہل، دقیانوس اور گنوار کے ناموں سے نوازا جاتا ہے۔ اپنی روشن خیالی اور ترقی کی راہ میں انہیں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، لیکن حق اور صحیح بات اور سچ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے ہمیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا بے حد ضروری ہے۔ ان احکامات اور تعلیمات ہی پر بے چوں وچرا عمل کرنے میں ہماری فلاح، بھلائی اور نجات ہے۔ ہر حکم کے پیچھے پوشیدہ مصلحت کو ڈھونڈنے سے پہلے اللہ کے حکم کو ماننا بندگی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مشابہت اور تقلید سے امتِ مسلمہ کو روکا ہے تو ہم سب کے لیے یہ حکم ماننا مقدم ہے۔ مجھے مولانا مودودیؒ کی ایک بات یاد آگئی، اُن سے ایک مرتبہ کسی صاحب نے پوچھا کہ کتا تو بڑا وفادار جانور ہے، اس سے تو انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے پھر کیوں دینِ اسلام میں اس جانور کو گھر میں رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے؟ مولانا مودودیؒ نے بڑا خوبصورت جواب دیا: ’’سب سے پہلی بات جو مسلمان مومن کے لیے ضروری ہے وہ ہے اللہ کا حکم بے چوں وچرا ماننا، بغیر کسی اعتراض کے، لیکن اگر تم پوچھ رہے ہو کہ کیوں منع فرمایا، تو کتے کی بہت سی بری خصلتیں ہیں (جو مولانا صاحب نے اس شخص کو بیان فرمائیں)‘‘ لہٰذا ہم سب کو بھی اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے، یہی بندگی کی علامت ہے۔ اور خود کو اور اپنی نسل کو کفار یہود و نصاریٰ کی تقلید سے بچانا چاہیے۔

حصہ