مہم جو

219

حذیفہ عبداﷲ
ادھر اختر اور دانش کے گھر والے ایک دن اور ایک رات گزر جانے اور موبائل پر رابطہ نہ ہونے کے باعث پریشان تھے۔ عجیب عجیب خیالات تھے کہ جو آ رہے تھے اور وہ اپنے بچوں کی خیریت کی دعائوں کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر رابطے کر رہے تھے اختر اور دانش کے والدین فراز سے ان کی دوستی سے نا صرف واقف تھے بلکہ اختر گھر پر فراز کی طرف جانے کا کہہ کر گیا تھا فراز کا فون بھی بند مل رہا تھا لہٰذا دونوں کے والدین نے فراز کے گائوں جانے اور حالات سے واقف ہونے کا فیصلہ کیا وہ جب فراز کے گائوں پہنچے تو فراز کے گھر والے پہلے ہی پریشان اور تلاش میں مصروف تھے۔ تینوں کے والدین نے بچوں کی تلاش میں قرب و جوار کا کوئی گائوں اور واقف کار کا کوئی گھر نہ چھوڑا۔ ہر طرف سے ناکامی ہوئی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کی پریشانی بڑھ رہی تھی وہ اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محسوس کر رہے تھے…
غار کا منہ بند ہونے کے باعث غار میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور ایک نامعلوم سا خوف تھا جو تینوں پر طاری تھا وہ دل ہی دل میں مہم جوئی کے اس فیصلے کو برا کہہ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کاش ہم اس مہم جوئی سے باز رہتے۔ ہمارے والدین بھی پریشان ہوں گے۔ ہمیں تلاش کر رہے ہوں گے جبکہ ہم یہاں اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔ فراز جو کہ اس مہم کا خالق تھا خود بھی خوف میں مبتلا تھا لیکن اپنے دونوں سابقوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
دن ڈھل چکا تھا رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا ایسے میں غار کا منہ بندھ… باہر تیز ہوائوں کا شور… غار میں معمولی ہوا کہ صرف سانس لی جا سکے… گرمی اور گھٹن کے اس ماحول میں بھوک کی شدت…
آخر تینوں نے موبائل فون کی روشنی میں اپنا دسترخوان سجایا لیکن کھانا تو ختم ہو چکا تھا جو بچا تھا وہ کھانے کے قابل نہ تھا صرف روٹیاں تھیں وہ بھی سوکھی۔ تینوں نے سوکھی روٹیوں کو پانی میں بھگو کر کھانا شروع کیا وہ اس راحت اور سکون کو یاد کر رہے تھے جو ان کو گھر میں حاصل تھا۔ سوکھی روٹی کھاتے ہوئے دانش کی آنکھوں میں آنسو آگے۔ فراز گھبرا گیا اس نے دانش کی ہمت بڑھانے کے لیے کہا کہ گھبرائو نہیں ہم اس مصیبت سے جلد نکل جائیں گے۔ دانش نے کہا کہ میں اس مصیبت پر پریشان نہیں بلکہ اپنے گزرے کل پر پریشان ہوں۔
یہ آنسو ندامت کے آنسو ہیں۔ گھر میں دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانوں کے باوجود نقص نکالا کرتا تھا، کھانا کھانے سے انکار کرتا اور سوکھی روٹی کھانے کا تصور محال تھا اختر نے کہا کہ واقعی آج ہم جس سوکھی روٹی اور پانی کے ذریعے توانائی حاصل کر رہے ہیں اور بھوک مٹا رہے ہیں یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اچھی سے اچھی غذا میں عیب نکالنا اور کھانے سے انکار کرنا ہمارے لیے معمولی بات تھی۔ ہم اپنے آج پر صبر کر رہے ہیں ہمیں اپنے گزرے کل پر شکر بھی ادا کرنا چاہیے تھا۔ صبر اور شکر دونوں ساتھ ساتھ چلیں تو زندگی ایک مثالی زندگی ہوسکتی ہے۔
اس کیفیت میں وقت گزارتا رہا۔ تینوں دوست عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرتے اور موجودہ صورت حال پر صبر کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اللہ اس مشکل کو آسان کرے اور خریت کے ساتھ گھر پہنچائے۔
اچانک تیز ہوائوں اور بارش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے بارش بھی ایسی کہ جس کو طوفانی بارش کہا جاتا ہے… کہ اچانک…
(جاری ہے)

حصہ