’’مسجد قرطبہ‘‘ اور ’’خضرِ راہ‘‘ اقبالؒ کی کرشمہ سازیاں

753

اسما صدیقہ
کسی کی رسائی بہت محدود ہو تو اس کے لیے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’ملّا کی دوڑ مسجد تک‘‘ کہ بے چارہ کہاں جاسکتا ہے‘ یوں مسجد صرف ملّا تک محدود ہوئی ملّا بھی مسجد تک کے لیے رہ گیا مگر صدی کے نہیں صدیوں کے بڑے شاعر اور فلسفی حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی معروف نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ تخلیق کرکے اس خیال کو سرے سے ہی غلط ثابت کیا ہے۔ یہ شاہکار نظم اردو ادب کا تاج محل کہی اور سمجھی جاتی ہے اور اساتذہ سے یہ تذکرہ بھی سنتے آئے ہیں کہ اقبال اپنی کلیات میں اور کچھ نہ کہتے محض ’’بال جبرئیل‘‘ ہی تخلیق کرلیتے تو ان کی عظمت میں کمی نہ آتی۔ یہ نظم ’’بال جبرئیل‘‘ کا بھی ست ہے۔
اسرار حق فاش کرنے والی اس نظم میں اقبال نے مسجد کے تصور کو عظمتوں اور حسن کے ساتھ وسعت دے کر لامحدود کردیا اور فقط اجتماعی ہی نہیں انفرادی زندگی کو بھی اسرارِ حیات کا ایسا کشف دیا کہ صدیاں منتِ کشِ احساں رہیں تو تعجب نہیں یہ اقبال کی وہ سطح بلند ہے جس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔
لاشرقیہ لا غربیہ جیسی آفاقیت اور وسعت قدرت کا اس قوم پر احسان ہے مگر قوم کی جہالت اور ناقدری پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے خود اقبال نے کہا تھا کہ ’’قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر مر جاتی ہیں۔‘‘
آج رات دن کی معاشی‘ سیاسی اور سماجی خلفشار کی ابتر صورت حال اس کی تصدیق کرنے کو بہت ہیں۔ مگر پھر بھی کچھ کاذبِ دوراں اس شاعری کی قوت اور صداقت کو جھٹلا کر اسے نیچا دکھا رہے ہیں تاکہ جھوٹ کی سیاست کو ایک لائسنس مل جائے حالانکہ بیداری‘ ادراک‘ حسن خیال اور زندگی کا یکجا ہونا انقلاب آفریں ہے‘ عروج کا زینہ ہے مگر غفلت سے زوال کی طرف بڑھنا کمال مانا جانے لگا ہے۔ بدقسمتی ہے‘ بدترین قسم کی بدقسمتی جس کا احساس بھی اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اقبال کی منفرد عظمت کی ایک اور گواہی بانگ درا کے دیباچے میں ہے جو شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا نے رقم کیا ہے۔
’’تحصیل علم سے فراغت کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبۂ انگریزی میں بطور لکچرار سے اسسٹنٹ پروفیسر آف ڈپارٹمنٹ مقرر ہوئے شعر کہنے پہ طبیعت مائل ہوتی تو غضب کی آمد ہوتی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہوجاتے تھے ان کے دوست اور بعض طلباء جو پاس ہوتے کاغذ قلم لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دُھن مین کہتے جاتے میں نے اس زمانے میں انہیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکرِ سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا دریا بہتا یا ایک چشمہ ابلتا محسوس ہوتا تھا۔ رقت کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہوتی تھی اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ یہ عجیب خصوصیت تھی۔ حافظہ ایسا پایا تھا کہ جتنے شعر اس طرح زباں سے نکلیں اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں تو سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے جس ترتیب سے وہ کہے گئے تھے اور درمیان میں خود وہ انہیں قلمبند بھی نہیں کرتے تھے مجھے بہت سے شعرا کی ہم نشینی کا موقع ملا ہے اور بعض کو میں نے شعر کہتے سنا اور دیکھا ہے مگر یہ رنگ کسی اور میں نہیں دیکھا۔
اقبال کو اپنی علمی منازل طے کرنے میں اچھے اچھے راہبر ملے ان لوگوں میں کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر میک ٹیگرٹ‘ برائون‘ نکلسن اور سارلی قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر نکلسن خصوصی شکریے کے مستحق ہیں انہوں نے اقبال کی مشہور فارسی نظم ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگلش ترجمہ کرکے یورپ اور امریکا کو اقبال سے روشناس کیا۔‘‘
’’مسجد قرطبہ‘‘ کی عظمت اور حسن کی گہرائی و گیرائی معنی کا ایک جہان آباد کرتی ہے اور اس کو یقین کا حصہ بنا کر چھوڑتی ہے۔ دیکھیے:

اوّل و آخر فنا‘ باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق ہے نورِ حیات‘ عشق ہے نارِ حیات
کعبۂ اربابِ قوم سطوتِ دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
ہے تہہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں
آہ وہ مردانِ حق وہ عربی شہ سوار
حامل ’’خلقِ عظیم‘‘ صاحبِ صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنت اہلِ دل فقر ہے شاہی نہیں

عظمت ِ انسان ایمان کی شرط کے ساتھ کتنے فطری جمال کی ساتھ مربوط کی گئی ہے بلندی کردار کی سلطانی دلوں پر راج کرتی ہے اس بات کا یقین ہر اک کے لہو میں دوڑنے لگتا ہے۔
ایک اور گواہی دیکھیے اردو ادب کا ایک بڑا اور متنازع نام سعادت حسن منٹو ہے جسے بائیں بازو کے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے ایک روز مایوسی کی انتہائوں میں گم ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے اور خودکشی کرنے کی طرف مائل تھے یکایک سامنے دیوار پر نظر پڑی دیوار پر ایک فارسی شعر نظر آیا جس نے ان کے اندر جینے کا حوصلہ پیدا کیا زندگی کی آرزو عطا کردی۔ یہ شعر اقبال کا تھا ایک شعر نے کرشمہ کر دیا تو ساری شاعری سے آگاہی کتنے خود کش رویوں کو ختم کرکے زندگی کا مژدہ سنا سکتی ہی اس سچے تجربے کی جھلک سے اقبال کی بلند شاعرانہ سطح کا یقین کرسکتے ہیں۔
پھر نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے یہ اشعار اسرار حیات کی سچائی کو کس یقین سے کھولتے ہیں:

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

اس سبق کو بھلانے کا نتیجہ آج کے بد ترین حالات میں نہ تو مسائل کا حل ملتا ہے نہ ہی کوئی سرا ہاتھ آتا ہے۔
بظاہر مسجد قرطبہ کی بات ہے مگر ماضی‘ حال اور مستقبل کے کتنے منظر پوری توانائی‘ سچائی اور حسن کی ساتھ ایک کے بعد ایک کھلنے لگتے ہیں‘ جاگتے ہیں اور جگا کے چھوڑتے ہیں مگر کہیں بھی واعظ کا انداز نہیں شاعرانہ جمال بھرپور چائو کے ساتھ نظر آتا ہے۔
اقبال کی جامع‘ خوب صورت اسرار حیات کو کھولتی عرفان ذات اور کائنات عطا کرتی ایک نظم ’’خصر راہ‘‘ ہے یہ ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں زمانوں کو سموئے ہوئے ہے۔ سورۃ کہف کی تفسیر پڑھیں تو خضرِ راہ ضرور پڑھیں طوالت سے نہ گھبرائیں زندگی کی اندرونی سے بیرونی سطح تک انفرادی سے اجتماعی حالات تک ایک زندہ و جاوید نظم ہے۔ زندگی‘ سلطنت‘ سرمایہ و محنت اور دنیائے اسلام کے عنوان سے بہت ساری گتھیاں سلجھنے لگیں گی‘ تہی دست کو خزانے کا پتا ملنے لگے گا یہ آپ کی تلاش پر ہے لائحہ عمل کیا ہو؟ راہیں وا ہونے لگیں گی۔ ذرا سی جھلک دیکھ لیتے ہیں:

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اور مزید حوالوں کے لیے صفحات کم پڑتے ہیں کہ سفینہ چاہیے۔ اس بحرِ بیکراں کے لیے۔ معلوم نہیں سعادت حسن منٹو کو خودکشی سے روکنے والا شعر کون سا تھا مگر مذکورہ نظم کے دو اشعار گرتے ہوئے مایوس لوگوں کو اٹھانے کی زبردست تاثیر رکھتے ہیں۔ سرمایۂ و محنت میں آخری شعر راہنما ہے اندھیرے میں روشنی کی کرن کی مانند۔

کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو

یعنی اے چھوٹے سے کیڑے (مزدور کو سرمایہ دار یہی سمجھتے رہے ہیں) شمع کا طواف یعنی غلامی چھوڑ کر آزاد ہو جا اپنے زہن سے سوچ اور روشنی کے لیے اپنی آزادی کی فطرت اور محنت کی عظمت کی تجلی کو کافی سمجھ۔
دوسرا شعر ’’دنیائے اسلام‘‘ کا آخری شعر ہے۔

مسلم امت سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار

(تو تو مسلمان ہے لہٰذا اپنے سینے کو آرزو سے آباد رکھ ہر وقت تیرے سامنے یہ بات رہے کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔)

حصہ