ہمارے ڈرامے اور سوشل میڈیا

368

’ماں ‘کی اہمیت و مقام سے تو بلاشبہ ہم سب واقف ہیں ، مگر اس اس ہفتے تو سوشل میڈیا پر ’ماں ‘ کی بہت گونج رہی ۔ایک ’ماں ‘کے حکم پر سیاست میں واپسی کے اعلان کا پاکستانی سیاست میں جو ’تاریخی واقعہ ‘ہوا وہ تو سب نے دیکھ ہی لیاہوگا،اُس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں،البتہ بی بی سی کی اس حوالے سے ایک رپورٹ کی سرخی ( جو کہ ایک ٹوئیٹ سے ہی لی گئی تھی) خاصی مقبول ہوئی ’’میں باتھ روم گئی تو فاروق ستار واپس آگئے‘‘۔بہر حال ایم کیو ایم تو الطاف حسین سے لے کر فاروق ستار تک ہمیشہ سوشل میڈیاپر کسی نہ کسی حوالے سے موضوع بنتی رہی ہے ۔اسی طرح آن لائن شاپنگ اسٹورز کی جانب سے بڑی رعایت کے دھوکے میں صارفین کو ڈالنے کے لیے ’بلیک فرائیڈے‘ کی مہم پر بھی خاصی گفتگو رہی۔لفظ دھوکامیں نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس حوالے سے ایک جامع تحقیقی رپورٹ انشاء اللہ تکمیل کے بعد شائع کریں گے ۔کے الیکٹرک کی جانب سے سم سے کنٹرو ل ہونے والے ڈجیٹل میٹر پر بھی صارفین نے غصہ نکالا۔اسی طرح ایک اور افسوسناک پہلو بھی سوشل میڈیا پر موضوع بنا جس کا تعلق اسلام آباد میں جاری ’تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘کے احتجاجی دھرنے سے تھا۔اس دھرنے کی طوالت اور حکومتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسلام آباد کے مکین آمد و رفت کے معاملے میں خاصے پریشان نظر آئے ، اس دوران راستہ بند ہونے کی وجہ سے ایک بچے کی ہسپتال بروقت نہ پہنچنے پر موت واقع ہو گئی جس پر بات زیادہ موضوع بحث بن گئی۔ایک جانب معاملہ انتخابی اصلاحات میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم ( قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کی سازش) کا ہے تو دوسری جانب پر امن احتجاج میں کسی معصوم انسانی جان کا یا دیگر انسانوں کی آمد و رفت کا ۔حقائق یہ ہیں کہ اس سازش کے مجرم کے تعین کے لیے حکومتی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر پر اب تک نہ لائی گئی ۔تحفظ ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے کی گئی اس سازش کے خلاف خطبات جمعہ، جلسہ عام، کانفرنسوں ،اخبارات ، سوشل میڈیا پر خوب مہم چلائی گئی ،لیکن معاملہ جان بوجھ کر معرض التواء میں ڈال کر عمداً تاخیری حربوں سے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش جاری ہے ۔یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے بیرونی آقاؤں کی آشیرباد سے یہ کھیل کھیلا ۔ وعدہ کے باوجود ان شقوں کو تاحال نہ بحال کیا گیا اور ترمیم بھی زیربحث لاکر منظور نہ ہوپائی۔ گوکہ پورے مْلک میں مختلف انداز سے دینی جماعتیں اس پر صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیںتاہم تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام آباد میں دھرنا ترتیب دے دیا۔اہم بات یہ ہے کہ ’تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ کے پاس سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے یا تو کارکنان کی بہت بڑی ٹیم ہے یا پھر اس اعلیٰ مقصد کی برکت سے ان کی یو ٹیوب پر کوریج کا حال یہ ہے کہ ہفتہ بھر میں ان کی ویڈیوز کو ایک ایک لاکھ ویوز مل جاتے ہیں ، فیس بک کی ریچ تو مزید دوگنی ہوتی ہے ۔بیک وقت کئی پیچز کام کر رہے ہیں اور متحرک اتنے ہیں کہ ہر ایونٹ کی کوریج نیوز چینل کی طرز پر خود کرتے ہیں ۔صرف ایک چینل ’قادری میڈیا ۹۲ ‘یو ٹیوب پر اگر آپ دیکھیں تو صرف ساٹھ ویڈیو ز ہیں لیکن چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد 36211ہو چکی ہے اور 62لاکھ ویوز ہیں اور ایسے کئی چینل کام کر رہے ہیں ، جن میں الگ الگ ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
بہر حال اس ہفتے کے لیے موضوع کا انتخاب مجھے گذشتہ دنوںایک دوست سے ملاقات کے دوران چننا پڑا ۔ہوا یوں کہ ہمارے ایک دوست نے جو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ ہیں ، اُن سے ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی ، مختلف امور پر بات جاری رہی ، پھر پاکستانی ڈراموں کے حوالے سے منظر نامہ پیش کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ ’’پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں جس تیزی سے ایک خاص سمت، خاص موضوعات ، خاص مشن کے ساتھ جو سفر جاری ہے وہ پاکستان میں ہیجان انگیز جنسی موضوعات (xریٹڈ) ڈراموں اور فلموں کی پروڈکشن کا آغاز کریگا۔ ڈراموں کے موضوعات میں جس تیزی سے تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ، بظاہر تو سب کے پیچھے زیادہ سے زیادہ پیسہ کا حصول ہے اور اس شعبہ میں شاید ہی کوئی یہ سوچنے والا ہو کہ ان ڈراموں سے کیا معاشرتی اثرات پڑتے ہیں ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک شاہکار تخلیق کیا ہے جو معاشرتی برائیوں کو سامنے لائے گا اور عوام میں آگہی ہوگی۔‘‘ بہر حال گفتگو تو ہماری جاری رہی البتہ میں نے گھر آکر پاکستان کے سب سے معروف انٹرٹینمنٹ چینل ’ہم ٹی وی‘ کے ایک تازہ ترین ڈرامہ کی پہلی قسط کے پہلے چار منٹ کا منظر اپنی فیس بک وال پر اپ لوڈ کیا ۔بظاہر اُس ڈرامہ میں کوئی فحش منظر نہیں تھا ، مگر مصنفہ اور ڈائریکٹر نے جو باریک کام کیا تھا وہ تکنیکی اعتبار سے قابل تعریف ہی تھا۔
ڈرامہ کے منظر میں ایک شخص زمین سے پھول اٹھاتا ہے ، پھر ایک کمرے میں داخل ہوتا ہے جہاں ایک لڑکی سو رہی ہوتی ہے ، اپنے ہاتھوں سے وہ پھول کو مسلتا ہے اور پلنگ پر سوئی لڑکی کے پاس بیٹھ کر اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے ، لڑکی اس دوران نیند سے بیدار ہو جاتی ہے اور خوف و دہشت کے عالم میںشدت سے چلاتی ہے ، جس سے پورا گھر بیدار ہوجاتا ہے ۔سوال ہوتا ہے کہ کیا ہوا؟ وہ شخص جواب دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا ، یہ ڈر گئی سوتے میں ’’میں تو دَم کرنے آیا تھا۔‘‘پھر دوبارہ وضاحت کرتا ہے ’’کہ آیت الکرسی کا دم کرنے آیا تھاــ‘‘۔بہت آسانی سے وہ خوف زدہ لڑکی کو سونے سے قبل مختلف ناول پڑھنے کوخوف کی کیفیت کی وجہ قرار دلوا کر باقی خواتین کو مطمئن کر دیتا ہے ۔جاتے جاتے گھر کی ایک بڑی خاتون یہ ڈائیلاگ بھی جاتے جاتے اتنی رات کو اٹھا دینے پر فرما تی ہیں ’’ کہ کہیں میری نماز قضا نہ ہو جائے ‘‘۔یہ چار منٹ کا کلپ ایک ایسے گھر انے کی عکاسی کر رہا تھا جہاں نماز ، دم کرنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔ڈرامہ مزید آگے بڑھتا ہے اور بہت کچھ سامنے آتا ہے۔میں نے پہلے تو پیمرا کی ویب سائٹ پر شکایت نوٹ کرائی اور ڈرامہ پر پابندی کا مطالبہ کیا۔اب آپ ذرایہ نوٹ کر لیں کہ یہ کلپ ڈرامہ کی پروموشن کے لیے نہیں ہے،یہ بھی بتا دوں کہ اس ڈرامہ کو میری جانب سے فیملی ڈرامہ مت سمجھیے گا ۔اس کی پہلی قسط میں ہی بیک وقت کئی ناجائز رشتوں کی جانب کھلے اشارے دیئے گئے ہیں۔البتہ اس پہلی قسط کے بارے میں ڈرامہ کے اداکار ایک فیس بک لائیو نشریات میں یہ کہتے پائے گئے ہیں ’’پہلی قسط میں بہت کنفیوژن تھی، اگلی قسط سے ہیراسمنٹ کی شدت اور اصلیت دکھائی جائے گی۔بالکل بھی چینل بدلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کوئی ولگر ڈرامہ نہیں ، فیملی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں ۔ برے کا انجام برا ہی دکھایا جائے گا ۔ یہ ہر خاندان میں موجود کالی بھیڑ کی کہانی ہے ۔ایسے موضوعات پر بات ہونی چاہیے ، جس کا انجام آگے چل کر برا ہی ہوگا۔ہم ٹی و ی کا شکریہ جس نے اس موضوع کو اسکرین دی ۔‘‘
اس کلپ کو اپ لوڈ کرنے کے بعد جو مختلف تبصرے میری وال پر موصول ہوئے اُن میں سے چند کا انتخاب آپ کے سامنے پیش ہے ۔صہیب جمال معروف لکھاری ہیں اور اسی شعبہ سے وابستہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ڈراموں میں وہی دکھایا جاتاہے جو بِکتا ہے ۔ڈراموںمیں چیزوں کو بڑھا کے دکھایا جاتا ہے اور اس انڈسٹری میں اسٹوری وہ دکھائی جاتی ہے جو چھپ کر وقوع پذیر ہوئی ہو اور نیک کام چھپ کر نہیں ہوتے۔‘‘معروف صحافی رہنما محمد رضوان بھٹی کہتے ہیں کہ ’’ایک تواتر سے سارے ڈرامے مصنوعی خاندانی مسائل پر بنائے جا رہے ہیں تا کہ پاکستان میں خاندانی نظام کو تباہ و برباد کیا جا سکے۔‘‘امین صادق طویل
عرصے سے ڈرامہ لکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’نا جائیز رشتے نا جائز تعلقات محرم رشتوں سے عشق جیسے نازک موضوعات کا انتخاب اور ان کی ڈرامائی تشکیل ہم چینل کا خاصہ ہے یہ کام وہ طویل عرصے سے کررہا ہے- یہ سوسائیٹی کا المیہ ہے کہ ایسے موضوعات پر مشتمل ڈراموں کی ریٹنگ زیادہ ہوتی ہے اس لئیے ہم چینل ریٹنگ کے لحاظ سے سب آگے ہے – بجا طور پر ہم چینل شروع سے مخصوص ایجنڈے پر کام کررہا جس کی پشت پر Usaid کی بھرپور مدد شامل ہے‘‘۔برطانیہ سے عائشہ غازی لکھتی ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں اس طرح کے موضوعات کو ڈرامے کا موضوع بنانے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں میں ان برائیوں کے بارے میں immunity پیدا ہو جائے ۔ یہ باتیں عام ہوتے ہوتے روزمرہ زندگی کا حصہ ہو جائیں اور بڑی سے بڑی برائی ،برائی نہیں رہتی
اگر وہ روزمرہ کا عام موضوع ہو جائے۔مغرب میں ذہن سازی اسی طرح کی گئی اور اب یہی سب میڈیا کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پیش کیا جا رہاہے۔ جیسے مغرب سے عیسائیت اٹھ گئی ، اللہ نہ کرے کل کو وہی حال ہمارے ہاں اسلام کا نہ ہو۔‘‘لاہور سے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سعد مقصود افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ایسے ڈرامے بالکل ایک خاص ایجنڈہ ہے اور سلو پوائزین کی طرح ہمارے دماغوں میں اتارے جا رہے ہیں اور گھر میں موجود جوان لڑکیاں لڑکے سب یہ ڈرامے دیکھتے یہ سب بکواس ہے کہ معاشرے میں موجود ہیں ایسے مسائل ،تو آگاہی کے لیے ایسا ڈرامہ بنایا جاتا ہے ایسے مسائل میری نظر میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور سیدھا سیدھا لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کا پلان ہے ۔‘‘جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ابلاغ عامہ ڈاکٹر اسامہ شفیق اپنے کمنٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’ابلاغ میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ میڈیا کی ترجیحات کیا معاشرے کی بھی ترجیحات ھیں؟ کیا مذکورہ مسئلہ واقعی اتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ میڈیا اس پر اپنا وقت صرف کرکے لوگوں کو تعلیم دے یا اس مسئلے کو اجاگر کرے. اس سے قبل ساس بہو کے ڈرامے میں یہ دکھایا گیا کہ دنیا کی کسی ساس اور بہو میں نہیں نبھ سکتی جبکہ معاشرے میں ایسی کوئی بات موجود نہیں آج بھی لاکھوں ساس اور بہو ایک ہی چھت تلے پر سکون زندگی بسر کر رہی ہیں. اس قسم کے مسائل کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ ہے۔‘‘معروف بلاگر فہیم پٹیل ،کراچی سے اپنا احساس ان الفاظ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس طرح کے مواد کو روکنے کے لیے پیمرا سے باضاطہ رابطہ کرنا ہی زیادہ موزوں رہے گا۔ اگر وہ بات نہیں سن رہے تو واحد حل یہی ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے اپنا مال خود بناکر بیچا جائے۔ لیکن محض بات کرنے سے پانی شاید پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پل پار کرتا جائے گا۔‘‘ایک اور بلاگر دوست فراز احمد خان لکھتے ہیں کہ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مسائل معاشرے میں موجود ہیں لیکن بہت کم تعداد میں، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے موضوعات کو ڈرامے کا حصہ بنانے والوں کی نیت اصلاح کی نہیں بلکہ ریٹنگ اور پیسہ کمانے کی ہے۔ اس معاملے پر فوری اورمنظم ردعمل جانا چاہیئے اوراس بات کی بھی ضرورت ہے کہ لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ کچھ نہیں بلکہ بہت غلط ہورہا ہے۔‘‘اقراء حسین کہتی ہیں کہ’’ یہ ڈرامہ فیملی کے ساتھ تو بالکل نہیں دیکھا جا سکتا‘‘لبنیٰ ممتاز نے اپنی رائے اس طرح دی کہ ’’اس ڈرامے میں ایسا کچھ نہیں جس سے بے ہودگی پھیلے معاشرے میں.اور کیا پاکستانی موویز میں دکھائے جانے والے مجرے ،معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کا سبب نہیں۔بس جو ہو رہا ہے اسے ہونے دیا جائے اس طرح کچھ اسلام کے نام لیوا اپنا کاروبار بھی چمکا سکیں گے اور خود بھی اس طرح اپنے دل کی خواہشات پوری کرتے رہیں گے ،اِسی معاشرے کے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کے بند گھروں میں اپنی سالیوں اور نوکرانیوں کے ساتھ غلط کام کرتے ہیں اور باہر بیٹھک میں اپنے جرم کو چھپانے کے لئے اس طرح کے ایشوز پر بحث کرنے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔معاشرے میں ہونے والی گندگیوں کو چھپانا صحیح نہیں.اس سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ ناسور کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ آپ اس کو آگاہی کا ایک طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں ،ابھی ہوسکتا ہے آگے کی اقساط میں یہ لڑکی کچھ ایسا کرے جو کہ ایسے انسان کے لئے عبرت آمیز ہو۔‘‘لاہور سے شعیب ہاشمی لکھتے ہیں کہ ’’ایک طبقے کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کم سہی لیکن یہ ہمارے ہی معاشرے کا دردناک پہلو ہیں اور ان کا مقصد دراصل معاشرے کو اْس مسئلے سے آگاہ کرنا اور حل کا شعور دینا ہے۔ جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ایسے موضوعات کو کسی بھی مقبول میڈیم پر دکھا کر مخصوص حالات میں لوگوں کو شہہ دیتے ہیںاور معاشرے میں خرابی کا خدشہ ہوتا ہے۔میرے ذاتی خیال میں ایسے موضوعات پر بالکل بات ہونی چاہیے مگر ایسے ڈراموں کے اوقات رات 11 کے بعد ہونے چاہیے تاکہ بچے نا دیکھ سکیں۔ ذاتی استعداد میں تربیت کا کوئی نظام نہیں، جس کے باعث ایسے موضوعات بہت خوفناک لگتے ہیں۔‘‘اعجاز گوندل کہتے ہیں کہ’’تین عشرہ قبل ہمارے ڈراموں میں ہیرو ہیروئن کا ایک بیڈ پر بیٹھنا ہی انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا یہ وہ دور تھا جب میڈیا کا اثاثہ اشفاق احمد، انور مقصود، مستنصر حسین تارڑ جیسی علمی و ادبی شخصیات تھیں ۔لیکن آج ایک دوسرے کو گلے لگایا جا رہا ہے۔سروں پہ چادروں سے شروع ھونے والا سلسلہ دوپٹوں ، اسکن ٹائٹ جینز سے شارٹس تک آن پہنچا ہے اور اب محرم رشتوں کی پامالی کا درس دیا جا رہاہے، کیونکہ اب میڈیا کی کمان غیر ملکی فنڈنگ اور معاشرتی اقدار کی دشمن این جی اوز کے ہاتھوں میں ہے۔یہ آج کی بات نہیں برسوں سے ہماری اسلامی اقدار و ثقافت کو بے لگام میڈیا کے ذریعے بیدردی سے کچلا جا رہا ہے۔ہم اگر کسی چیز پہ احتجاج بھی کرتے ہیں تو وہ اتنا وقتی اور مختصر ہوتاہے کہ حکومت اچھی طرح سمجھتی ھے کہ یہ ابال فقط دو نہیں تو چار دن کے لیے ہی ہے، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتاہے۔
یہ سب تبصرے اپنی جگہ مگر ایک بات جو میں نے سمجھی وہ یہ کہ اگر آپ متبادل پیش کریں گے تو وہ یقینا جگہ پائے گا، معاشرتی اصلاح اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کے علم برداروں کے سوچنے اور اس پر سنجیدگی سے کچھ خرچ کرنا ہی حل ہے ، اس تشویشناک صورتحال کے حوالے سے ہمارے ایک قریبی دوست نے ’سپورٹ فری میڈیا ‘کے عنوان سے ایک مثبت کوشش کی ہے ،جس میں میں اُن کے ساتھ ہوں ،مقاصد اور اسٹریٹجی کے اعتبار سے اس کوشش کے موثر ہونے کے بارے میں قوی امکانات ہیں ۔

حصہ