کتاب اور قاری کا رشتہ

320

جویریہ سعید
ادریس آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ فیس بک سنجیدہ مطالعہ کی جگہ نہیں، اور کتاب کی جگہ تو لے ہی نہیں سکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ جو مزا صوفے پر الٹا سیدھا پڑکر یا مسہری اور دیوار کے بیچ ایک تنگ سی جگہ میں اکڑوں بیٹھ کر کتاب میں غرق ہونے میں ہے، وہ چھوٹے سے موبائل فون یا بھاری سے لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین پر نظریں جما کر پڑھنے کی کوشش میں کہاں! اس پر مستزاد یہ کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی کھڑکی کھلتی ہے، کسی کا پیغام ہے، کوئی نوٹی فکیشن ہے۔ ذہن بھٹک کر کسی اور لنک کی طرف جاتا ہے۔ یہ تحریر پڑھ لی جائے یا کسی اور بلاگ کے لنک کو بھی ساتھ ہی کھول کر “skimming” کرلی جائے، یا پھر کسی چاہنے والے یا ہرگز نہ چاہنے والے کی پوسٹ پر کوئی تائیدی یا اختلافی کومنٹ کردیا جائے؟ یہ بھی ہے کہ خصوصاً فیس بک پرکوئی پوسٹ یا بلاگ پانچ چھ سطروں سے زیادہ طویل ہوجائے تو توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
کتاب کی عیاشی اور چیز ہے۔ ناول کی ضخامت سے مطالعے کے شوقین قاری کو کبھی گھبراتے نہیں دیکھا۔ پانچ چھ سو صفحات پر مشتمل ناول ایک رات نہیں تو دو چار کاموں میں ڈنڈی مارکر چند گھنٹے دن کے بھی لگا کر دو تین راتوں میں ختم کر ہی لیے جاتے ہیں۔ ذرا اعلیٰ درجے کا ناول ہو یا کوئی سنجیدہ کتاب ہو تو سرہانے رکھ کر بیس پچیس صفحات روز کے پڑھ لینا کچھ ایسا مشکل نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اب تو حال یہ ہے کہ احباب منہ بناکر کہتے ہیں ’’ذرا مختصراً اس کتاب یا تحریر کا لب لباب بیان کردیجیے‘‘۔
ارے صاحب! ہمارے نزدیک مطالعے کا مقصد صرف ’’سبق‘‘ یا ’’حاصلِ کلام‘‘ جان لینا نہیں ہوتا۔ یہ تو الفاظ کے نگینوں، خیالات کے جمال اور اسلوبِ بیان کی رنگینی سے مزین ایک جادوئی دنیا کا سفر ہے، جس کے ہر جلوے سے آپ محظوظ ہوتے ہیں۔ اچھی تحریر کو آپ ’’اسکپ‘‘ کرکے کیسے پڑھ سکتے ہیں؟ نشاط تو ’’حاصلِ کلام‘‘ سے نہیں بلکہ رعنائیِ کلام سے کشید کی جاتی ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی ’’النبی الخاتم صلی اللہ وسلم‘‘، ’’اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘‘ ، ’’تدبر القرآن‘‘، ’’سید بادشاہ کا قافلہ‘‘، ’’سفینہ غم دل‘‘، ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ ، ’’آنگن‘‘، ’’دن اور داستان‘‘، ’’سیاہ حاشیے‘‘، ابن انشا، یوسفی اور ایک طویل فہرست ہے کہ آپ دم سادھے پڑھتے جاتے ہیں۔ الفاظ آپ کی انگلی پکڑے آپ کو کہاں کہاں لے جاتے ہیں، کن کن دنیاؤں کی سیر کرواتے ہیں، اور آپ کو چھوکر بھی یہ بے ہودہ خیال نہیں گزرتا کہ براہ کرم کوئی چند جملوں میں اس کتاب کا حاصلِ مطالعہ بتادے تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ ہمیں پتا ہے کہ اس کتاب میں لکھا کیا ہے!
سنجیدہ کتاب پڑھتے ہوئے سب سے اہم سرگرمی جسے ای بک میں نہ کرسکنے کی الجھن قائم رہتی ہے، وہ ہے قلم لے کر پڑھنا۔ اہم جملوں اور پیراگراف کو نشان زد کرتے، حاشیے لکھتے، کہیں سوالات لکھتے کتنی ہی کتابیں پہلے سے زیادہ قیمتی ہوجاتی ہیں۔
اور پھر جس کو کھانا تناول کرتے وقت کتاب پر نظریں جمائے رکھنے کی لت ہو، اس کے دل میں ای بک کے لیے کینہ ضرور ہوتا ہے۔ نہ آپ لیپ ٹاپ کو موڑ سکتے ہیں، نہ پلیٹ کے نیچے آدھی کتاب کی طرح دباکر ایک ہاتھ سے نوالہ منہ کی جانب لے جاتے ہوئے اس چند سیکنڈ کی فراغت کو تیزی سے دوسرے ہاتھ سے صفحہ پلٹنے کی سرگرمی میں استعمال کرسکتے ہیں، نہ ہی چائے کی پیالی پکڑنے کی کوشش کے دوران قلم، چمچہ، مڑا ہوا کاغذ یا بسکٹوں کی پلیٹ کو بوقتِ ضرورت ’’بک مارک‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی نوبت آپاتی ہے۔
وہ زمانے تو لد ہی گئے جب گھر والوں سے چھپ کر اسٹور میں لحافوں کے ڈھیر پر دبک کر کتاب پڑھی جاتی تھی، یا اونچی کتابوں کی الماری پر لٹکے لٹکے ایک چوتھائی کتاب پر سرسری نظریں دوڑا کر جائزہ لے لیا جاتا تھا کہ اس کتاب سے دوپہر کے کھانے کے ساتھ لازم چٹنی یا اچار کے طور پر لطف لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
پاکستان سے آنے والے کتابوں کے پارسل میں سب سے قیمتی دو کتب ہیں، ایک تو ’’لمحات‘‘ (خرم مراد) اور دوسری ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ (قرۃ العین حیدر)۔ قیمتی ہونے کی دلیل کے طور پر ویسے تو نام ہی کافی ہے، مگر پھر بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ ان کے قیمتی اور محبوب ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ امی کے خزانے سے فرمائشی طور پر منگوائی گئی دو اُن حسین و جمیل کتب میں سے ہیں جن کے اوراق سال خوردہ اور پیلے پیلے سے ہیں۔ امی کی مسہری کے نیچے گتے کے کارٹنوں میں کتابیں بھری ہوتی تھیں، کبھی بارش کا پانی کمرے تک آجائے تو یہ کارٹن بھیگ جاتے تھے، جس کے سبب کچھ کتابوں کے بوسیدہ زرد اوراق پر پانی کے دھبے اور شکنیں ابھر آتی تھیں۔ ہمیں ایسی کتابیں انتہائی رومانوی معلوم ہوتی ہیں۔ گزری صدیوں کی شاندار اور پراسرار عمارتوں کی طرح، جن کے بھاری مگر آرٹسٹک نقوش امتدادِ زمانہ کے سبب دھندلا کر کچھ اور بھی پراسرار اور رومانی لگنے لگتے ہیں۔ یہ دو کتب انہی کتب کی قبیل سے ہیں۔ ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ کی جلد ایک جگہ سے پھٹی ہوئی ہے، جس نے اس کے قدیم دیومالائی حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ بھلا بتایئے، فیس بک یا ای بک میں ایسی جمالیاتی تسکین کہاں سے میسر آئے!
البتہ ایسا بھی نہیں کہ فیس بک کی تحریروں یا بلاگوں کا کوئی فائدہ ہی نہ ہو۔ بات یہ ہے کہ اگرچہ فیس بک اور بلاگ مطالعے سے زیادہ مکالمے اور گفتگو کے میدان ہیں، ہم جیسے لائبریری سے بچھڑے حسرت زدہ متاثرین کے لیے انٹرنیٹ ہی مطالعے اور کتب بینی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پھر اگر آپ نے اپنی نیوز فیڈ ذرا قابو میں رکھی ہوئی ہو، تو کافی حد تک پڑھنے لکھنے والوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ متفرق موضوعات پر لوگ کس طرح سوچ رہے ہیں، کون کون سی مختلف اور متضاد آرا موجود ہیں، ان سب کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
یہ بھی ہے کہ جن کو پڑھنے کی ’’لت‘‘ لگی ہو، وہ یہ کہاں دیکھتے ہیں کہ کہاں لکھا ہے؟ کتنا طویل، کتنا مختصر یا کس قدر ادھورا لکھا ہے؟
پڑھنے کے کیڑے تو وہ ہوتے ہیں جو تندور کی روٹی اور بازار کی تلی مچھلی کو لپیٹے آدھے ادھورے اخبار سے لے کر، کریانے سے لائی دال کو سنبھالے لفافے کی تہیں کھول کر، ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو کے ڈبوں پر لکھی ہدایات تک سب چاٹ جاتے ہیں۔
ایسے میں فیس بک کی آدھی ادھوری، چند سطروں سے لے کر طویل پوسٹیں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ ضرور اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔ خصوصاً کچھ صاحبانِ علم کی طویل و مختصر دونوں قسم کی تحریروں سے فائدہ ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جیسوں کے لیے یہ صرف نفسِ مضمون ہی نہیں بلکہ صاحبِ مضمون کے ’’مطالعے‘‘ کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کتب بینی کا متبادل نہیں ہیں۔ سنجیدگی اور ارتکاز کے ساتھ مطالعے کی عادت دوبارہ ڈالنی چاہیے جو ہماری زندگیوں میں آلات کے غیر ضروری حد تک بڑھ جانے کے سبب ازحد متاثر ہورہی ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک مقابلہ برقیاتی اور ورقیاتی تحریروں کے بیچ نہیں، بلکہ اصل امتحان یہ ہے کہ لوگ اب پڑھنے کے بجائے ’’سننے‘‘ اور ’’دیکھنے‘‘ کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ احباب منہ بنا کر کہتے ہیں: اس موضوع پر کوئی ’’لیکچر‘‘ یا ’’فلم‘‘ مل سکتی ہے تو بتائیے۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ پڑھنے کی عادت ختم ہوجانے کے سبب بہت سے الفاظ و تراکیب نامانوس ہونے لگے ہیں۔ اچھے خاصے آسان سے ایسے الفاظ جو پڑھ کر سیکھے جانے کے بعد روزمرہ کی گفتگو میں مستعمل ہوسکتے ہیں، اب متروک ہونے لگے ہیں۔ لوگ باگ پوچھتے ہیں ’’جاڑا‘‘ کیا ہوتا ہے؟ ’’عنابی اور بنفشئی‘‘ رنگ کیسا ہوتا ہے؟ ’’زود رنج‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ’’ثریا‘‘ کس شے کا نام ہے؟ آپ ’’پت جھڑ‘‘ کیوں کہتی ہیں؟
اس نہ پڑھنے کی وجہ سے ’’طشت ازبام ہونا‘‘ کو روزمرہ گفتگو کے کسی جملے میں استعمال کرنے کی بے قراری اب کہاں ہوتی ہے؟

حصہ