سائبان

226

فرحی نعیم
تیسری گھنٹی پر اس نے بہ مشکل کروٹ لی تھی اور ہاتھ کا دبائو ڈالتے ہوئے بستر سے اٹھی۔ چپل پہننے کے لیے اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی لیکن اسے اپنی چپل کہیں نظر نہ آئی، تب وہ ننگے پیر ہی دیوار کا سہارا لیتی ہوئی کمرے سے نکلی اور کمر پکڑتی ہوئی آہستہ آہستہ چلتی صحن میں آئی۔ اتنی دیر میں ایک دفعہ اور اطلاعی گھنٹی بج چکی تھی۔
’’آرہی ہوں بابا! آرہی ہوں…‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑائی ’’نہ جانے کون ہے، دروازہ نہ کھلنے پر گھنٹی پر گھنٹی بجائے جارہا ہے، نہیں کھلتا دروازہ تو واپس چلے جائو…‘‘ وہ زیر لب بولی اور دروازے کے پاس آکر درز میں جھانکا، دوسری طرف رافعہ کھڑی تھی۔ تبھی اس نے ایک سانس بھری اور دروازہ کھول دیا۔
’’اتنی دیر سے گھنٹی بجا رہی ہوں، کہاں تھیں تم؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ رافعہ حسبِ معمول تیز تیز بول رہی تھی۔ پھر اس نے بغور تہمینہ کو دیکھا اور لب بھینچ لیے۔ اس کا اندازہ درست تھا۔ اس نے تہمینہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے کندھے سے پکڑ کر سہارا دیتی ہوئی کمرے میں لائی اور بستر پر لٹا دیا۔ تہمینہ ’’ہائے، اُف…‘‘ کرتی پلنگ پر لیٹ گئی تھی۔
’’ناشتا کیا تھا؟‘‘ سوال تو معمولی تھا لیکن رافعہ کا لہجہ اور انداز بڑا جارحانہ تھا۔ تہمینہ خاموش رہی۔ ’’خود تو دو دو پراٹھے کھا کر گیا ہوگا؟‘‘ نہ جانے یہ رافعہ کا سوال تھا یا اندازہ، لیکن تھا سو فیصد درست… تہمینہ کیا جواب دیتی! اب بھی مجرموں کی طرح لب سیے رہی اور اس کی خاموشی نے رافعہ کو پتنگے لگا دیے۔
’’کیا فائدہ ایسے شوہر کا! نکالو باہر اس کو، کون سا تم کو شہزادی بنا کر رکھا ہوا ہے اُس نے جس کو تم سر پر تاج بناکر سجائے بیٹھی ہو۔ اتنی اچھی سلائی آتی ہے تم کو، اچھا خاصا کما لو گی۔ پتا بھی ہے کہ اب تو ایک ایک جوڑے کی سلائی ہزار، ہزار روپے جاتی ہے، پھر کچھ پڑھی لکھی بھی ہو، ٹیوشن پڑھا دیا کرنا۔ بھائی تمہارا ریاض میں بیٹھا ہے، کچھ نہ کچھ تو وہ بھی تمہاری مدد کرسکتا ہے، پھر میں بھی تو ہوں… ملا جلا کر تمہارا گھر چل جائے گا۔ کب تک یہ ظلم سہو گی…! مار کھاتی رہو اور اُس کی جوتیاں سیدھی کرتی رہو… یہی وہ چاہتا ہے، بلکہ تمہاری صورت دیکھ کر مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ تم بھی اب یہی چاہتی ہو، تف ہے تمہاری سوچ پر۔‘‘
رافعہ جلی بھنی تیز تیز بولتی جارہی تھی۔ جس طرح قینچی کی طرح اس کی زبان چل رہی تھی اس سے زیادہ تیز اس کے ہاتھ پیر چل رہے تھے۔ وہ کتنی دیر تک تہمینہ کو سناتی رہی۔ اس دوران اس نے تہمینہ کو ناشتا کرایا، چائے کے ساتھ گولی کھلائی، پھر اس کے جسم پر دوا لگائی، سکائی کی، برتن دھوئے، گھر سمیٹ کر جھاڑو بھی لگا دی اور ساتھ ساتھ آلو کی بھجیا بھی پکا دی۔
تہمینہ اس کی دل سے شکر گزار تھی۔ دوا کھا کر لگوانے کے کچھ دیر بعد اسے آرام محسوس ہونے لگا تھا اور نیند آنے لگی تھی۔ اگرچہ اس نے رافعہ کو کام کرنے سے منع بھی کیا لیکن وہ اَن سنی کرکے کام کیے گئی… پھر گھنٹہ بھر کے بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو رافعہ جلدی جلدی صفائی کررہی تھی۔
’’بس کردو رافی… تھک گئی ہوگی۔ چھوڑو، میں ابھی اٹھ کر کرلوں گی۔‘‘
’’اٹھ کر کرلوں گی…! اٹھا جائے گا تو کرو گی ناں، اور کیا بچوں کو کھانا نہیں کھلانا؟ ان کے بھی آنے کا ٹائم ہونے والا ہے۔‘‘ رافعہ نے کہا تو تہمینہ نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ گیارہ بج چکے تھے، بچوں کے آنے میں بھی گھنٹہ بھر تھا۔
’’ہاں میں جلدی سے کچھ بنا لیتی ہوں، تم نے آلو ابال دیے؟‘‘
’’صرف ابالے ہی نہیں بلکہ پکا بھی دیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کوڑا سمیٹ کر باہر نکل گئی۔ چند منٹ بعد جب اندر آئی تو تہمینہ سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔
’’اب کیوں رو رہی ہو؟ میاں کے ظلم پر تو روتی نہیں، دوست کی دوستی پر روتی ہے۔‘‘ رافعہ نے بڑے غضب کا اندازہ لگایا تھا اور آنسو بہاتی تہمینہ بے ساختہ مسکرا دی۔ رافعہ اس کے دل کی بات ہمیشہ ہی سمجھ جاتی تھی۔
’’آج کیا ہوا تھا؟‘‘ اب رافعہ سارے کام نمٹا کر تہمینہ کے پاس آکر سکون سے بیٹھ گئی تھی۔ گھر کے سارے کام تو اس نے کر ہی لیے تھے۔ ویسے بھی پھرکی کی طرح تو وہ چلتی تھی، ابھی یہاں اور ابھی وہاں… اب وہ ان چوٹوں کی وجہ جاننا چاہ رہی تھی جو تہمینہ کی کمر اور بازو پر جا بجا تھے، اور جو یقینا اس کے میاں کا کارنامہ تھا۔
’’پہلے تم بتائو، کیسے آئیں؟‘‘ تہمینہ نے رافعہ کو ٹالا۔
’’میں تو دروازے پر کھڑی گملے خرید رہی تھی کہ تمہاری پڑوسن نجمہ جارہی تھی، رک کر باتیں کرنے لگی، پھر چلتے چلتے کہنے لگی کہ ’’آج بھی پڑوس سے سکندر کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تو چلی گئی اور میں جلدی جلدی اپنا کام نمٹا کر اماں (ساس) کو بتا کر یہاں دوڑی آئی۔ مجھے معلوم تھا وہ صرف چیختا ہی نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کا بھی خوب استعمال کرتا ہے۔‘‘ رافعہ نے اپنے آنے کا سبب تہمینہ کو بتایا تو تہمینہ نظریں چرا کر رہ گئی۔ رافعہ سے اس کی کوئی بات ڈھکی چھپی تو نہ تھی، دس سال پہلے جب وہ اس محلے میں شادی ہوکر آئی تھی تو محلے میں جن گھروں میں اس کا آنا جانا ہوا اور دوستی ہوئی اُن میں رافعہ کا بھی گھرانہ تھا۔ رافعہ کی والدہ اور تہمینہ کی ساس نندوں کا ایک دوسرے کے گھر میں کافی آنا جانا تھا۔ تہمینہ کی بھی رافعہ سے وقت کے ساتھ ساتھ دوستی بڑھتی گئی۔ پھر رافعہ کی شادی ہوگئی، لیکن وہ شادی ہوکر دو گلیاں آگے ہی گئی۔ یوں شادی کے بعد بھی دونوں کی دوستی قائم رہی۔ تہمینہ کا تو بچوں کے ساتھ نکلنا ہی نہ تھا، رافعہ ہی اکثر چکر لگا لیتی۔ شادی کے دس سال تہمینہ کے لیے دکھ سُکھ ساتھ لائے۔ جہاں اوپر تلے تین بچوں نے اس کی زندگی میں خوشیاں بکھیریں، وہیں ساس کا انتقال اس کے لیے دکھ کا باعث بھی تھا۔ سکندر شروع سے زبان کا تیز اور ہاتھ چھٹ تھا۔ وہ تو جب تک اماں تھیں تہمینہ کو بچا لیتی تھیں، لیکن ماںکے بعد تو اس کو کھلی چھوٹ مل گئی تھی۔ بیوی کی عزت کیا ہوتی ہے سکندر کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف کوئی بات اُس سے برداشت نہ ہوتی تھی۔ چیخنا چلاّنا تو اس کا معمول تھا ہی، ہاتھ اٹھانا بھی اس کے نزدیک مردانگی تھی۔ اور اس مردانگی کا استعمال بھی وہ اکثر کرتا رہتا تھا۔
’’نہ جانے کون سے سرخاب کے پَر لگے ہیں اُس میں جو اسی کی چوکھٹ پکڑ کر بیٹھی ہو۔ میکہ سلامت ہے تمہارا، ذرا دھمکی دیا کرو ناں اسے بھی۔‘‘
’’دھمکی! ہونہہ جیسے وہ ڈر ہی تو جائے گا۔‘‘ تہمینہ نے جیسے اپنا مذاق اڑایا۔
’’تم دو گی تو ڈر جائے گا۔ تھوڑا رعب ڈالو۔ تم تو خود ہر وقت اُس کی کنیز بنی رہتی ہو۔‘‘ رافعہ جل کر بولی۔ ’’اس طرح وفا کی پُتلی بنے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ آج رافعہ سخت غصے میں تھی۔
’’تین بچے ہیں میرے، اُس پر رعب ڈالوں گی تو کہاں لے کر جائوں گی بچوں کو؟ والدین سلامت ضرور ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے مجھے گھر میں نہیں بٹھائیں گے۔ اور جہاں تک بات وفا کی ہے تو وہ میرے خمیر میں ہے۔‘‘
’’یہی تو مصیبت ہے، تم نے بچوٍں کو کمزوری بنایا ہوا ہے۔ ان بچوں کو اپنا سہارا بنائو، مضبوط ڈھال… اس کی باندی نہ بنو، برابری کی بنیاد پر بات کرو۔‘‘ رافعہ اسے سبق پڑھا رہی تھی۔
’’رافی تمہارے اور میرے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تمہارے بچے نہیں ہیں، تمہارا میاں باہر رہتا ہے، سال میں چکر لگاتا ہے تو میاں سے زیادہ محبوب بن کر آتا ہے، تمہارے ناز اٹھاتا ہے۔ تم اپنے حالات مجھ پر منطبق نہ کرو… بہت فرق ہے… بہت۔‘‘ تہمینہ یاسیت سے بولی تو کچھ دیر کے لیے رافعہ بھی خاموش ہوگئی۔ بات تو ٹھیک ہی تھی۔ (جاری ہے)

حصہ