تقریب رونمائی براے چالیس سالہ نمبر

279

رپورٹ: عروبہ امتیاز خان
زندگی کے اس نشیب و فراز میں یقینا ہمیں کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو قدم قدم پر ہمارا ساتھ دے۔ اسی طرح بچوں کے ادب کی دنیا میں ننھے اذہان کی تربیت اور رہنمائی کے لیے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان تک ایک اچھا ادب منتقل کرکے ان کو معاشرے کا کارآمد شہری بناسکے اور اگر یہیں بچوں کو ساتھی جیسا ساتھی مل جائے تو بات ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ جی ہاں! ہم بات کررہے ہیں ’رسالہ‘ ساتھی کی جس کی انفرادیت سے یقینا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ بہترین کہانیاں، مزیدار نظموں اور چٹ پٹے سلسلوں پر مبنی یہ انمول رسالہ اس دور جدید میں بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود ایک معیار ادب کے اجرا کا سبب ہے۔
اگست ۱۹۷۷ء میں جاری ہونے والے اس رسالے نے اپنی زندگی کی چالیس بہاریں، اللہ رب العزت کے کرم، مدیران ساتھی کی روز و شب کی محنت اور عمدہ قلمکاران کی تحاریر کی بدولت مکمل کرلیں۔ اِنھیں چالیس بہاروں کو منانے کے لیے ۹ نومبر ۲۰۱۷ء کو آرٹس کونسل میں ایک ادبی تقریب منعقد کی گئی جس میں تمام ادباو شعرا مدعو تھے۔ عبدالرحمن مومن نے مائک سنبھال کر نظامت کے فرائض عمدگی سے سرانجام دیے۔
ساتھی کے پرانے قاری ظہیر خان اور ہر دل عزیز حماد ظہیر کے والد نے اپنی بات کا آغاز ساحر لدھیانوی کے شعر سے کیا۔ اُنھوں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ ساتھی جیسا ساتھی ہو تو پھر منزل کی تمنا کیسی؟ یہی دل چاہا ہے کہ اس کو پڑھ لیا جائے۔ یہ رسالہ وسیع الفاظ اور کشادہ دامن کا حامل ہے اور اس نے نئے لکھاریوں کی انجمن کو ترتیب دے کر علمی ذوق کو فروغ دیا۔ بلاشبہ ساتھی ۸ سے ۸۰ سال تک کے بچوں کا رسالہ ہے۔ معزز حاضرین! ہر انسان کے اندر ایک بچہ ضرور ہوتا ہے اور جب ساتھی جیسا رسالہ مل جائے تو وہ بچہ بیدار ہوجاتا ہے۔ اس رسالے کو پڑھنے کی بدولت ایک لذت محسوس ہوتی ہے جو بیان نہیں کی جاسکتی۔
اس کے بعد اسلامک سوسائٹی آف چلڈرن ہابیز کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر قاضی حسیب عالم نے بتایا کہ جماعت چہارم میں پوزیشن آنے پر اُنھیں ساتھی رسالہ دیا گیا جب وہ ساتویں یا آٹھویں میں پہنچے تو اُنھیں ایک دن کا مدیر بھی مقرر کیا گیا۔ اُنھوں نے بچوں کے ادب کے میدان میں ISCH کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ بچوں کا ادب ختم ہورہا ہے۔ اس دور میں ISCH پاکستان بھر میں معیاری جریدے کے اجرا کا باعث ہے۔ ادارہ ساتھی کثیر الاشاعت رسائل کی فہرست میں شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ISCH کے تحت نکلنے والے تمام رسالے طالب علم نکالتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں، طباعت کے مرحلے تک لاتے ہیں اور ان کی ڈیزائننگ کا معیار بہترین ہوتا ہے۔ ساتھی ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور اس کا شمار بہترین رسالوں میں ہوتا ہے۔
اُن کے بعد نعیم الدین نعیم نے اپنی عمدہ نظم کی بدولت حاضرینِ محفل کے دل موہ لیے۔ مدیر ماہنامہ ساتھی محمد طارق خان نے مائک سنبھالتے ہی سب کو شکریہ پیش کیا اور فرمایا کہ آپ کی آمد ہماری حوصلہ افزائی کا باعث ہے جو سیروں خون بڑھادیتی ہے۔ ساتھی کی تاریخ ۱۸ مدیران پر مشتمل ہے اور خود ۱۹ واں مدیر آپ کے سامنے ہے۔ ساتھی رسالے کی ترقی کا کریڈٹ کسی ایک کو نہیں بلکہ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا بحیثیت مجموعی پاکستان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ Android فون اور ایجادات کے دور میں کہانیوں میںنئے تجربات کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ مطالعہ کی طرف کشش وہی رکھتا ہے جس کے گھر میں ادبی ماحول ہو۔ جب ہم اپنے بچوں کو کورس کی کتابیں پڑھاتے ہیں تو یہ ذمہ داری بھی عاید ہوتی ہے کہ ہم بچوں کو دوسری کتابیں بھی پڑھائیں۔
معروف کالم نگار، ادیب اور شاعر نجیب ایوبی نے سب سے پہلے ساتھی میں اپنی نگارشات بھیجنے والے تمام ادبا اور شعرا کو مبارکباد پیش کی۔ اس کے بعد اُنھوں نے ساتھی کے حوالے سے کچھ پرانے قصوں کو چھیڑتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں ساتھی کا دفتر لائٹ ہائوس میں موجود جھمرا بلڈنگ میں تھا۔ سیڑھیوں میں پے در پے سوراخ موجود تھے اور دفتر کی ناگفتہ بہ حالت کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی تھی لیکن یہ بات اہم ہے کہ جس بندے نے بھی ٹوٹا پھوٹا ساتھی میں لکھا اس کی نوک پلک سنواری جس کا فائدہ ہوا ہے۔ اس رسالے نے نجانے کتنے کار آمد لوگ معاشرے کو دیے ہیں۔ مدیران ساتھی معاشرے کا سرمایہ بلکہ جھومر ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ساتھی کی ٹیم میں جمود نہیں بلکہ یہ ایک بہتا دھارا ہے کیوں کہ ساتھی کی ٹیم نے نت نئے تجربات کیے جس سے کامیاب رسالہ وجود میں آیا۔
ماہنامہ ساتھی میں اپنی زندگی کے دس قیمتی سال گزارنے والے نجیب احمد حنفی نے ایک سوال اُٹھایا کہ اگر آپ کے پاس انویسٹ کرنے کے لیے دس لاکھ روپے موجود ہوں اور دو فیکٹریاں ہوں۔ دونوں کی عمر ۶۰ برس ہو۔ ایک نے ۵۰ سال مکمل کرلیے ہوں اور ایک نے ابھی ۱۰ سال مکمل کیے ہوں تو آپ کہاں انویسٹ کرنا پسند کریں گے۔ جواب موصول ہوا کہ ظاہر ہے ۱۰ سال والی فیکٹری میں۔ اس کے جواب میں نجیب بھائی نے فرمایا اسی طرح ہمارے بچے بھی کم عمر فیکٹریوں کی مانند ہیں۔ اگر آج ہم ان پر انویسٹ کریں گے تو ہمیں نتیجہ دیرپا ملے گا اور یقینا ہمارا مستقبل جو ہمارے بچے ہیں وہ بھی تابناک ہوگا۔
جیو نیوز کے نیوز اینکر اور نوجوان شاعر وجیہ ثانی نے بتایا کہ میں ساتھی کا ۳۰ سال پرانا قاری ہوں۔ اُنھوں نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں پڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا ماں، باپ اور معاشرہ دونوں کا حصہ ہے۔ بچے کی تربیت کے لیے مشاہدہ اور اچھی کتابیں ضروری ہیں لیکن صبح اسکول اور شام کو ہوم ورک اور ٹیوشن میں بچے کو اتنا اُلجھادیا گیا ہے کہ اسے مشاہدہ اور اچھی کتابیں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اُنھوں نے اپنی ساتھی سے پسندیدگی کا عالم بتاتے ہوئے کہا کہ ہم صبح اسکول جانے سے پہلے رسالہ چُھپا کر جاتے تھے۔ آج کل کے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے والدین نے ہمیں اچھے رسالے دیے۔ اب میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے کیا دوں؟ آج ہم جس مقام پر ہیں وہ ساتھی کی بدولت ہے جس نے لکھنا اور بولنا سکھایا۔ ہم نے ایثار، قربانی اور ایک دوسرے کی خوشیاں محسوس کرنا ساتھی کے ذریعے سیکھا ہے۔
ڈائریکٹر ISCH کراچی محمد حمزہ صدیقی نے سب سے پہلے ادارہ ساتھی کی پوری ٹیم کو ۴۰ سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کی اور کہا چالیس سال کا یہ سفر فکری و تربیتی عمل ہے۔ ساتھی کا کمال یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے سب طلبہ ہیں جو بغیر کسی معاوضے اور تنخواہ کے اپنی کوششیں اس جریدے کی اشاعت میں صرف کررہے ہیں۔ بلاشبہ ساتھی اقبال کے شاہین کی تیاری کررہا ہے۔
اب افشاں نوید کی باری آئی جنھوں نے چالیس سالہ نمبر پر اپنا سیر حاصل تبصرہ اور تجاویز پیش کیں۔ اُنھوں نے کہا ۴۰ سال کسی مقام پر استقامت کے ساتھ کھڑے رہ کر توانا ہاتھوں میں معیاری ادب منتقل کرنا ایک عظیم کام ہے۔ ۴۰ سال تو نبوت کے لیے بھی پسند کیے گئے تھے اور آج وہ ساتھی کی عمر ہے۔ شروعات میں ساتھی کی قیمت ۲۰ پیسے تھی۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ جب مؤرخ بچوں کے ادب کی تاریخ لکھے گا تو ساتھی کا ذکر بھی اس میں ضرور ہوگا۔ مدیران کا جامع اور مختصر تعارف اچھا لگا۔ ہر دور کے مدیر کا تعارف جامعیت کے ساتھ مرتب کیا گیا۔ یہ بات قابل سائش ہے کہ ماضی کے مدیران کی خدمات فراموش نہیں کی گئیں اور باقاعدہ ایک ریکارڈ رکھا گیا جو ساتھی کو خود بخود معتبر بنادیتا ہے۔ اُنھوں نے مزید فرماتے ہوئے کہا کہ ہم نے اطہر علی ہاشمی سے سیکھا اور ان سے اصلاح پائی۔ ان کے تلامذہ کی ٹیم ہونی چاہیے تاکہ یہ علم سینہ بہ سینہ دوسروں تک پہنچے۔ ساتھی نے جو عَلَم اُٹھایا ہے، میں اسے خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ آخر میں اُنھوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے ساتھی کے لیے کیوں نہ لکھا۔
مشہور و معروف فکشن رائٹر مبشر علی زیدی نے کہا کہ پہلی تربیت بچوں کی معیاری رسائل کے ذریعے ہوتی ہے لیکن جس نے زندگی میں ایک ہی کتاب پڑھی ہو وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ کہانی، کہانی ہے۔ جھوٹ، جھوٹ ہے۔ کہانی سمجھ دیتی ہے۔ تجزیہ کرنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔ میں نے کہانیاں پڑھیں اور لکھنے والوں سے محبت کی۔ سب رسالوں میں کہانیاں بھیجیں لیکن مسترد زیادہ ہوئیں لیکن اب بھی میری کہانیاں مسترد ہوجاتی ہیں۔ اگر تحاریر بغیر مستر ہوئے چھپتی رہیں تو غرور آنے لگتا ہے کہ میں بھی کوئی چیز ہوں، لیکن مسترد ہونا اپنی اوقات پر لے آتا ہے۔ اس لیے میں مسترد ہونے پر مزید اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کو کھلونے کم اور کتابیں زیادہ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُنھوں نے مجھ سے زیادہ کتابیں پڑھ لیں۔ نئے لوگ، نئے زمانے کے ہوتے ہیں اور نئی سوچ رکھتے ہیں۔ ہم اگر پرانے ہوں گے اور ان کی طرح نہیں سوچیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لیے نئے آئیڈیاز پر مبنی کہانیاں لکھنے کی ضرورت ہے۔
کلیم چغتائی نے اپنی گفتگو میں کہا: ’’صاحب اولاد کو اندازہ ہوگا کہ اولاد کتنی بڑی نعمت ہے۔ اولاد چھوٹی ہو یا بڑی ماں باپ کے لیے بچہ ہی رہتی ہے تو ان حالات میں ساتھی ۴۰ سال کا ہونا معجزہ ہے اور آج وہ جوان رعنا بن گیا مگر میری نظر میں وہی بچہ ہے۔ اس وقت دس پیسے کا ہوتا تھا، اس وقت بھی اتنا پیارا تھا جتنا کہ آج ہے۔‘‘ اُنھوں نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اتنا اچھا رسالہ جو پاکیزہ افکار پھیلارہا ہے اور معیاری ادب تخلیق کررہا ہے، اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کا کہیں نہ کہیں اثر ہوتا ہے اور اس کی بات کا وزن ہوتا ہے۔ آپ کا جہاں بھی اثر و رسوخ ہو وہاں ساتھی کا تعارف کروائیں تاکہ ان نوجوانوں کی راہیں کھل سکیں۔
اب خطاب کرنے کے لیے اطہر علی ہاشمی کو دعوت دی گئی جنھوں نے جامع اور مختصر خطاب کرکے حاضرین میں روح پھونک دی۔ اُنھوں نے افشاں نوید کی جانب سے ’استاد الاساتذہ کا خطاب ملنے کے بعد پر مزاحیہ انداز میں اس کا ذکر کیا اور خود ہی پیٹھ ٹھونکی۔ اُنھوں نے کہا کہ ساتھی کو کون بُرا کہتا ہے؟ ساتھی تو سارے ہی اچھے ہوتے ہیں۔
جنگ کے ایڈیٹر محمود شام نے اپنی ادبی گفتگو سے محفل کی رونق دوبالا کردی۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’یہ ادارے کی خاصیت ہے کہ یہ رسالہ کسی بڑے ادارے کی پشت پناہی کی وجہ سے نہیں بلکہ نوجوانوں کی کوششوں سے چل رہا ہے۔ اُنھوں نے اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک روز ان سے کسی نے پوچھا تم بڑے ہو کر کیا بنوگے؟ اُنھوں نے جواب دیا میں پبلشر بنوں گا کیوں کہ وہ کہانیاں پہلے ہی پڑھ لیتا ہے۔ اُنھوں نے لفظ ’ساتھی‘کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کمیونسٹ تحریک یہ لفظ استعمال کرتی تھی، پھر جماعت اسلامی، اس کے بعد ایم کیو ایم اور یہ لفظ اب ساتھی میں چلنے لگا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ مختلف رسائل میں رضا کارانہ جذبے کے تحت کام ہورہا ہے مگر ان کے نزدیک ساتھی میں کام زیادہ نفاست سے ہوتا ہے اور اُردو کی صحت کا خیال عمدگی سے رکھا جاتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے جاری کردہ رسالے ٹوٹ بٹوٹ کے بارے میں بتایا کہ رسالے کا معیار بہتر بنانے کے لیے ہر ماہ تنقیدی میٹنگ رکھی جاتی تھی جس میں کوئی اپنی والدہ یا والد کے ساتھ آتا تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کی مختلف سرگرمیاں بھی کروائی گئیں جن میں بچوں کو انگلش بسکٹ فیکٹری اور پولکا آئس کریم فیکٹری کی سیر کروائی گئی اور بعد میں سفر کی روداد رسالہ ٹوٹ بٹوٹ کی زینت بنی۔ اُنھوں نے آخر میں کہا کہ رسالہ ساتھی ایک تربیت گاہ ہے جہاں ہر نئے آنے والے مدیر کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور ہر جانے والے مدیر کو گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
پروگرام کے آخر میں مدیر ساتھی نے محمود شام اور دیگر مہمانان کو اعزازی رسالہ دیا۔یوں یہ دلکش اور دل نشین تقریب رونمائی ایک بہترین یادداشت کے طور پر ہمارے دل و دماغ میں مختلف یادیں اور باتیں سمیٹ کر اختتام پذیر ہوگئی۔
اس یقین کے ساتھ ان شاء اللہ ۶۰ سال بعد ساتھی کے ۱۰۰ سالہ نمبر کی تقریب رونمائی اس سے بہتر انداز میں ہو اور ساتھی موجودہ حالات کے مقابلے میں کئی گنا اور پھل پھول رہا ہو۔
٭…٭

بحیثیت مجموعی پاکستان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ Android فون اور ایجادات کے دور میں کہانیوں میںنئے تجربات کی ضرورت ہے۔
(محمد طارق خان، مدیر ساتھی)
اولاد چھوٹی ہو یا بڑی ماں باپ کے لیے بچہ ہی رہتی ہے تو ان حالات میں ساتھی ۴۰ سال کا ہونا معجزہ ہے اور آج وہ جوان رعنا بن گیا مگر میری نظر میں وہی بچہ ہے۔
(کلیم چغتائی، بانی مدیر ساتھی)
ساتھی کی ٹیم میں جمود نہیں بلکہ یہ ایک بہتا دھارا ہے کیوں کہ ساتھی کی ٹیم نے نت نئے تجربات کیے جس سے کامیاب رسالہ وجود میں آیا۔
(نجیب ایوبی،شاعر وکالم نگار)
مختلف رسائل میں رضا کارانہ جذبے کے تحت کام ہورہا ہے مگر ساتھی میں کام زیادہ نفاست سے ہوتا ہے اور اُردو کی صحت کا خیال عمدگی سے رکھا جاتا ہے۔
(محمود شام، معروف صحافی، مصنف وتجزیہ نگار)
ہمارے بچے بھی کم عمر فیکٹریوں کی مانند ہیں۔ اگر آج ہم ان پر انویسٹ کریں گے تو ہمیں نتیجہ دیرپا ملے گا اور یقینا ہمارا مستقبل جو ہمارے بچے ہیں وہ بھی تابناک ہوگا۔
(نجیب احمد حنفی، مدیر اعلا وی شائن وجگمگ تارے)
آج ہم جس مقام پر ہیں وہ ساتھی کی بدولت ہے جس نے لکھنا اور بولنا سکھایا۔ ہم نے ایثار، قربانی اور ایک دوسرے کی خوشیاں محسوس کرنا ساتھی کے ذریعے سیکھا ہے۔
(وجیہ ثانی، نیوز اینکرجیو نیوزو نوجوان شاعر)
نئے لوگ، نئے زمانے کے ہوتے ہیں اور نئی سوچ رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کی طرح نہیں سوچیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لیے نئے آئیڈیاز پر مبنی کہانیاں لکھنے کی ضرورت ہے۔
( مبشر علی زیدی، معروف فکشن رائٹر)
چالیس سال کا یہ سفر فکری و تربیتی عمل ہے۔ ساتھی کا کمال یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے سب طلبہ ہیں جو بغیر کسی معاوضے کے اپنی کوششیں اس جریدے کی اشاعت میں صرف کررہے ہیں۔
(حمزہ صدیقی، ڈائریکٹرISCHکراچی)
یہ بات قابل سائش ہے کہ ماضی کے مدیران کی خدمات فراموش نہیں کی گئیں اور باقاعدہ ایک ریکارڈ رکھا گیا جو ساتھی کو خود بخود معتبر بنادیتا ہے۔
(افشاں نوید، مصنف وکالم نگار)

حصہ