ایکشن موویز

446

صباء احمد
پانچویں جماعت کا طالب علم تیمور اپنے نام کا گہرا اثر لیے ہوئے تھا۔ لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ میں آگے آگے، مگر پڑھائی میں کچھوے کی چال۔ اسی جیسے دو چار اور تھے جن کی آپس میں خوب بنتی تھی۔ ساری کلاس کے لیے یہ شریر پارٹی دردِ سر بنی رہتی۔ احسن کلاس کا مانیٹر تھا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ استاد کی غیر موجودگی میں کلاس میں نظم و ضبط برقرار رکھے۔ کبھی تو احسن انہیں خاموش کرکے بٹھانے میں کامیاب ہوجاتا، اور کبھی تیمور پارٹی اسے نچا کر رکھ دیتی۔
آج دو پیریڈ فری ہونے کی وجہ سے کلاس میں خوب دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی۔ اس ہنگامے کا سبب تیمور کے گروپ کا اسکیل کو مشین گن بناکر فرضی فائرنگ کرنا تھا۔ یہ ننجا فورس تھی اور تیمور جیکی چن بنا ہوا تھا۔ اسٹیل کے اسکیل کو تھام کر ڈیسکوں کی قطار پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑ دوڑ کے مارشل آرٹ کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اب تو جماعت پریشان ہورہی تھی۔ احسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر تیمور سے اسکیل چھین لیا اور اسے ایک رسید بھی کردیا۔ تیمور غصے سے پاگل ہوگیا۔
’’اوئے بڑا ’بیبا‘ بچہ بن رہا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر گریبان پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ ساری کلاس پریشان ہوگئی۔ شاہد خاموشی سے ٹیچر کو بلا لایا۔ مس تحریم اچانک سے کلاس میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ تیمور، احسن کے سینے پر چڑھا بیٹھا ہے اور اسکیل سے منہ پر مار رہا ہے۔
انہوں نے فوری طور پر تیمور کو کھڑا کیا، اور گرجتے ہوئے کہنے لگیں ’’اگر ٹیچر کلاس میں نہیں تو آپ کیا فلموں کی شوٹنگ کریں گے؟ یہاں سے گھر جاکر آپ صرف مار دھاڑ ہی دیکھتے ہیں۔ آخر آپ کے والدین کہاں ہوتے ہیں؟کل اپنے والدین کو لے کر آئیے گا…‘‘ وہ غصے سے کانپ رہی تھیں۔ بچے کلاس کو ازسرِنو ترتیب دے کر خاموشی سے بیٹھ گئے۔
تیمور، احسن کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے ٹیچر کے ساتھ چل پڑا۔
دوسرے دن والدین کو آفس میں بلا کر پرنسپل اور کلاس ٹیچر نے میٹنگ کی جس میں بہت سی باتیں ڈسکس ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ یہ بچہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی پُرتشدد کارروائیاں کرتا ہے اور معمولی باتوں پر بری طرح بھڑک جاتا ہے۔
والدین کو مشورہ دیا گیا کہ بچوں کے ایکشن مووی دیکھنے پر پابندی لگائی جائے۔ ماں باپ خود بھی سوشل میڈیا، ڈراموں اور رنگ برنگی بے مقصد نشریات کے سحر سے نکلیں اور اولاد کو وقت دیں۔ ہر واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے، ہر میسج کو پڑھنے، فیس بک پر کمنٹس کی صورت اپنی موجودگی ظاہر کرنے میں جو توانائی اور ذہنی صلاحیت لگا رہے ہیں، اس کے بجائے ساری توجہ اس ڈھائی فٹ کے انسانی وجود پر لگائیں جو امانت کے طور پر آپ کو دیا گیا ہے۔ ورنہ یہ وجود جو ابھی کمزور ہے، نوجوان اور کڑیل ہوکر والدین کی دنیا اور آخرت دونوں برباد کردے گا۔ اب اس کا مشاہدہ معاشرے میں کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں، سفاکی سے بولے جانے والے مکالمے بچوں کو سخت دل، اور دوسری طرف بے ہودہ کارٹونز اخلاقی طور پر انہیں آوارہ بنا رہے ہیں۔
والدین، حکومتی اداروں کے ذمہ داران تربیت کے فریضے سے چشم پوشی اختیار کیے رہیں گے تو اگلے چند برسوں میں وہ پاکستانی قوم کو تنزلی کے کس مقام پر پہنچا دیں گے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔

حصہ