’’رَکاز‘‘ کیا کہتے ہیں

485

قاضی مظہر الدین طارق
زمین کے مادّے جب ٹھنڈے ہونا شروع ہوئے، گیس سے مائع میں تبدیل ہوتے ہوئے مزید ٹھنڈے ہونے لگے تو اس کے پگھلے ہوئے جسم کی اُوپری پَرت یا تہ (Strata) جم کر خشک اور ٹھوس ہونا شروع ہوئی۔ یہ تہ بہ تہ ایک کے بعد ایک تہ جمتی جارہی تھی، یہ تہ کوئی پہلے، کوئی بعد میں اس طرح بنتی جارہی تھی کہ ہر تہ کی ایک عمر متعین ہورہی تھی۔ ان تہوں کے بننے کے وقت کو یعنی اس کی عمر کو بڑی حد تک صحت کے ساتھ ناپ تول کر حساب لگایا جا سکتا ہے۔ یہ حساب کتاب ایسے جواہر کی مدد سے لگایا جاتا ہے جو تابکار (Radio Active) ہوتے ہیں، کیونکہ یہ تابکار عناصر وقت کے ساتھ ساتھ ایک خاص معین اور رواں رفتار (Steady Velocity) سے تبدیل ہوتے جاتے ہیں، یعنی یہ اپنے مرکزے (Nucleus) میں سے ذرّات باہر کی طرف مسلسل اور معلوم رفتار سے خارج کرتے رہتے ہیں، ان کا مرکزہ ہلکا ہوتا جاتا ہے، یہ تابکاری عناصر پرتوں کی چٹانوں میں بھی ہوسکتے ہیں اور خود رکاز(Fossils) میں بھی۔ اس کی تابکار پیمائی (Radio Metric) سے تاریخ نکالنے کو Radio Carbon Dating کہتے ہیں۔
جانور ہوں یا پودے، جتنے بھی جاندار اجسام ہوتے ہیں وہ کاربن کے بغیر نہیں بنتے۔ ایک چھوٹا سا جزو اس میں Radio Active Carbonکا ضرور ہوتا ہے۔ جب تک ایک جاندار زندہ رہتا ہے یہ کاربن مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، جب یہ جاندار مرتا ہے تو اسRadio Carbonکا تبدیل ہونا رُک جاتا ہے، اس کے عناصر گلنا (Decay) ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ رَکاز(Fossils) تین قسم کے ہوتے ہیں:
٭ ایک وہ جو خود کئی ایک وجوہ سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔
٭دوسرے وہ جن کا نقش مٹی میں بن جاتا ہے، پھر یہ نقش (Impression) چٹانوں کی صورت میں اب تک محفوظ ہے۔
٭تیسرے وہ جو کسی نقش سے اس کی اصل کا سخت مماثل (Cast) بن جاتے ہیں۔
پہلی قسم کے رکاز میں کاربن خود محفوظ رہتا ہے، جبکہ دوسری اور تیسری قسموں میں دوسرے تابکاری عناصر محفوظ رہتے ہیں جن کے ذریعے بھی پَرتوں کی عمریں معلوم کی جا سکتی ہیں۔ زمین پر حیات کی آمد سے پہلے چٹانوں کی عمریں دیگر تابکاری عناصر کے ذریعے معلوم کی جا سکتی ہیں، یہ عناصر یورینیم ، پوٹاشیم وغیرہ ہیں۔
زمین پر زندگی کی آمد کا مکمل ریکارڈ اِن ارضیاتی اَدوار میں زیادہ صحت کے ساتھ موجود ہے۔ مگر سادہ حیات سے پیچیدہ حیات کی طرف خودبخود اِرتقاء کو ماننے والوں نے سادہ حیات سے پیچیدہ حیات، پھر انسان تک اِرتقاء کی جو قیاسی ترتیب بنائی ہوئی ہے، اس کی اس سائنسی ریکارڈ سے تصدیق نہیں ہورہی ہے۔
تابکار پیمائی کے حساب کتاب سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر مختلف Kingdoms، بغیر کسی ترتیب کے وارد ہوئے، سادہ سے پیچیدہ کی طرف ترتیب کبھی قائم نہ رہی بلکہ ہر وقت اُلٹ پلٹ ہوتی رہی۔
پھر یہ تو واضح حقیقت ہے کہ اس ترتیب میں بڑی بڑی کڑیاں غائب (Missing Links) ہیں، اس کے لیے ڈارون نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ شاید یہ کڑیاں وقت کے ساتھ مل جائیں گی، مگر یہ کڑیاں ایک ڈیڑھ صدی گزر گئی اب تک نہ مل سکیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کا قیاس درست ہو، اور یہ کڑیاں مل جائیں اور اس ترتیب کا مکمل ثبوت حاصل ہوجائے، تب بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ترتیب سے حیات کا ارتقاء خودبخود ہوتا گیا، کسی نے اس ترتیب کو مقرر کیا نہ اس کی نگرانی کی۔ یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ خالق نے اس کو اسی تدریج و ترتیب سے پیدا کیا ہو۔
انسانوں نے اپنی آسانی کے لیے کائنات کی تشکیل کی ترتیب کے حساب سے، پہلے اس کو چار عصروں (Eons) میں تقسیم کیا، ہر عصر (Eon)کو زمانوں (Eras) میں تقسیم کیا، پھر ہر زمانے (Era) کو اَدوار (Periods)میں تقسیم کیا، اَدوار کو پھر مزید قرون ) (Epochs میں تقسیم کیا، پھر قرون کو بھی اوقات (Ages) میں بانٹا۔
اس علم کو ’رَکازیات‘ (Palaeontology) کہتے ہیں۔
کون سی حیات پہلی مرتبہ کب زمین پر وارد ہوئی اس کا تقریباً صحیح صحیح حساب تابکار پیمائی سے معلوم ہوا ہے، لیکن یہ مکمل طور پر اس ترتیب سے نہیں ہے جو ایک سادہ ترین حیات (مونیرا) سے پیچیدہ ترین (انسان) تک ایک ایک قدم کرکے بڑھتی جائے۔
مگر بہت تگ و دَو کے بعد بھی سائنسی طور پر اب تک یہ ثابت نہیں ہورہا کہ ایک نوع سے دوسرے نوع میں تبدیلی، ترقی یا ارتقاء حادثاتی طور پر اتفاقیہ کس طرح ہوسکتا ہے۔
خاص طور پر اب اس وقت، جب سے الیکٹرانک خوردبین ایجاد ہوئی اوراس کے ذریعے علم حاصل ہوا کہ ایک خَلیے میں بھی نہایت پیچیدہ عضوچے (orgnaills)ہیں، اور ان کے اندر پیچیدہ تعاملات ہوتے ہیں۔ DNAکے بارے میں علم ہوا اور جینیات (Genetics)کا تفصیلی علم حاصل ہوا۔ انسان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تبدیلی (Mutation)کس مرحلے پرکب ہوئی اور کیسے آئندہ نسل کو منتقل ہوئی۔
ان انسانی علوم (سائنسز) کے ذریعے ایک سوال کی طرف کوئی رہنمائی قطعی طور پر نہیں ہوتی، وہ اصل سوال یہ ہے کہ ’’پہلی مرتبہ حیات کی ابتدا کب، کہاں اور کیسے ہوئی؟‘‘
حیوان سے انسان کے پیدا ہونے کے بارے میںکیسی کیسی عامیانہ کہانیاں بنائی گئی ہیں، انسان کے مختلف اوقات اور جگہوں سے نامکمل ڈھانچے، رَکاز (Fossils) کی صورت میں ملے۔ پورے ڈھانچے نہیں۔ کہیں جبڑے کی ہڈی یا صرف دانت، کہیں کھوپڑی کا ٹکڑا،کہیں گردن کی ہڈی،کہیں کچھ اور… ان کی بنیاد پر اندازے لگائے گئے، کہانیاں بنائی گئیں، حتیٰ کہ ایک دور میں صرف ایک کھوپڑی کے رَکاز سے اندازہ لگا لیا گیا کہ انسان موجود تھا۔ کبھی کہا گیا یہ حیوان تھے مگر انسان نما حیوان (Humanoids)…کوئی دو پیروں پرکھڑا ہوتا تھا (Homo erectus)۔ کوئی گھر بناتا تھا(Homo habilis)۔کوئی پتھر کے اَوزار استعمال کرتا تھا(huminoid)۔کوئی بولتا تھا(Homo hidelbergensis) ۔ کوئی لکڑی کے ہتھیار(برچھے) بناکر شکار کرتا تھا۔ اس حیوان نے آگ کو قابو میںکرلیا، اپنا کھانا پکا کر کھانے لگا، اِٹلی میں کوئلے کی کان سے ایک رَکاز ملا جس کا نام Oreopithecus رکھا گیا۔ کہا گیا کہ اس میں انسان اور جانور دونوں کی خصوصیات تھیں۔ جنوبی افریقہ سے ایک رکاز ملا جس کا نام Australopithecus رکھا گیا۔ کہا گیا کہ یہ انسان کا متسل جدّ (Immediate ancestor)ہے۔
ان کے بعد جاوا مَین کے رَکاز، انڈونیشیا سے۔ پیکنگ مَین کے رَکاز، چین سے ملے۔
کہتے ہیں کہ یہ ابتدائی انسانی ڈھانچوں کے رکاز ہیں، اسی دور میں Neanderthalsجرمنی سے ملے۔ یہ پیکنگ مَین سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ یورپ ہی میں Cro-Magnon man کا رَکاز ملا، جس کا ڈھانچہ موجودہ انسان جیسا تھا۔ قد پانچ فٹ سات انچ تھا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی کتاب میں کچھ ہے تو کسی کتاب میں کچھ۔ یہ سب اندازے ہیں جو مختلف نامکمل رکاز کی بنیاد پر لگائے گئے۔ اب آپ غور کریں یہ سب کام کرنے والے حیوان اب کہاں گئے؟ کیا ترقی کرنے کے بعد پھر ترقیٔ معکوس کر گئے، یا معدوم ہوگئے! جب ایک دفعہ ترقی کرچکے تھے تو پھر مزید ترقی کیوں نہ کی؟ معدوم کیوں ہوگئے؟ اب تو کوئی بھی حیوان ان کاموں میں سے کوئی کام نہیں کرتا۔ کہتے ہیں انسان اور حیوان کا نسلی اختلاط ہوا،کبھی کہتے ہیں ان کی نسلیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئیں۔ اب ارتقاء کے بعد تو ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اور حیوان کے اختلاط سے کوئی آدھا انسان اور آدھا حیوان پیدا ہو، ایک حیوان کے پیٹ سے انسان، یا ایک انسان کے پیٹ سے حیوان پیدا ہو۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار برس قبل انسان زمین پر موجود تھا، یہ بات اس بنیاد پر کہی گئی کہ ایک عورت Mitochondrial Eveکا ڈھانچہ ملا، مگر مرد جدّ امجدکا رَکاز(Fossil) اس کے ایک لاکھ برس بعد یعنی صرف ساٹھ ہزار برس قبل کا ملا، جبکہ کہتے ہیں کہ 76 ہزار برس قبل ایک حادثے کی وجہ سے اس زمین پر انسانوں کی آبادی کم ہوکر صرف دس ہزار نفوس پر مشتمل رہ گئی تھی۔
کیونکہ نامکمل رَکاز(Fossil)کو دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے اندازے لگائے ہیں اس لیے سب کی کہانیاں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ جب رکازکی عمر معلوم کرنے کا علم نہیں تھا، کہانی بنانے میں غلطیاں بھی ہوئیں۔
کبھی کسی کی کھوپڑی کو کسی کے جبڑے سے جوڑ کر دھوکا دیا گیا کہ یہ کوئی اور جانور ہے، کبھی جان بوجھ کر اپنی کہانی بنانے کے لیے بددیانتی بھی کی گئی، دانتوں کو گھس گھسا کر، اس کی ہیئت بدل کر، اس کو انسانی کھوپڑی کے ساتھ جوڑ کر ایک انسان و حیوان کی درمیانی کڑی بنانے کی کوشش کی گئی۔ کم عمر رکاز کو زیادہ قدیم بنانے کے لیے اس پر کیمیائی عمل کیا گیا، ایک ایسے رَکاز کو ایک عرصے تک برطانیہ کے عجائب گھر میں رکھا گیا۔ مگر جب کاربن کی تابکار پیمائی سے دھوکا دہی کا علم ہوا، تو اس کو عجلت میں وہاں سے غائب کردیا گیا۔
معلوم ہوا کہ یہ سارے رَکاز یا تو کسی جانور کے تھے یا انسانوں میں سے مختلف قبائل کے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔
ان رکاز کی ہیئت اور ان کی زمین پر آمد کی تاریخ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جاندار پہلی مرتبہ اس زمین پر جس شکل وصورت میں جتنے بھی لاکھوں کروڑوں سال پہلے وارد ہوئے تھے ان میں سے بہت بڑی تعداد میں آج بھی ویسے ہی موجود ہیں۔ تو یہ نام نہاد ارتقا جس کی کڑیاں بھی گم ہیں، کب ہوا؟کوئی نہیں بتا سکتا!!!

حصہ