اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائوگے

487

قدسیہ ملک
مسز عادل کو نئے پوش علاقے میں شفٹ ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے۔ یہ علاقہ ان کے خوابوں کی سرزمین تھا۔ وہ بہت خوش تھیں۔ وہ کئی سال سے شوہرکو راضی کرنے میں مصروف تھیں اور بالآخر ان کی کوششیں رنگ لے آئی تھیں۔ اب وہ جلد از جلد اس علاقے کے تہذیب یافتہ لوگوں سے مل کر اپنے شوہر کی بہت سی باتوں کی نفی اور اپنے آپ کو درست ثابت کردینا چاہتی تھیں۔ عادل صاحب بیگم کی ضد کی وجہ سے برسوں پرانا محلہ، دوست اور عزیزو اقارب چھوڑنے پر راضی تو ہوگئے تھے لیکن بالکل خاموش سے ہوگئے تھے۔ بچے بھی اب کمروں میں دبکے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ مسز عادل بچوں کو سوسائٹی میں مختلف طریقوں سے ایڈجسٹ ہونے کے مختلف گُر سکھاتیں، لیکن بچے اب ماں کی بات سنتے ہی نہ تھے۔ یہ بچے پہلے کتنے فرماں بردار تھے، وہ ایسی باتیں زیادہ نہ سوچتیں، بلکہ خود بھی محلے میں ہونے والے کسی میلاد، کسی فنکشن کو نہیں چھوڑتی تھیں۔ کہاں تو وہ پرانے محلے میں گھر سے نکلتی نہ تھیں، لیکن یہاں معاملہ کچھ اور تھا، کیونکہ بقول ان کے وہ اب اپنی صحیح جگہ پہنچ چکی تھیں۔ شوہر کا کیا ہے، وہ تو کسی حال میں خوشی نہیں ہوتے۔
٭٭٭
بیگم بقائی بچوں سے جبری مشقت اور کام کاج میں اُن پر بے جا سختیوں کے خلاف تھیں۔ وہ بہترین تقریر کا فن بھی جانتی تھیں۔ ان کی اپنی ایک این جی او تھی۔ ایسی شعلہ بیان مقررہ تھیں کہ ان کے بغیر بچوں پر ظلم و زیادتی پر ہونے والے سیمینار، ورکشاپ اور مباحثے نامکمل تصور کیے جاتے تھے۔ وہ ایسے نادار اور مفلس بچوں کے لیے چندہ بھی جمع کرتیں۔ وہ کسی معصوم بچے کو ورکشاپ یا ہوٹل میں کام کرتا دیکھتیں تو فوراً پولیس بلاکر اس ورکشاپ کے مالک کے خلاف دفعہ 172 کے تحت مقدمہ درج کروا دیتیں۔ انہوں نے کچی بستیوں میں بچوں کی فلاح کے لیے بہت سے اسکولوں کا افتتاح بھی کیا تھا جس کی بدولت ان کی مشہوری کو چار چاند لگ گئے تھے۔ ان کے گھر میں ہر کام کے لیے الگ ماسی تھی۔ ان کام کرنے والیوں کی عمریں 13 سے15سال تک تھیں۔ اس کی توجیہ وہ یہ پیش کرتی تھیں کہ غیرشادی شدہ چھوٹی لڑکیاں کام جلدی سیکھ جاتی ہیں۔ گھر اور بچے نہ ہونے کے باعث چوریاں بھی نہیں کرتیں۔ ان لڑکیوں کے والدین خود ہی بیگم بقائی پر بھروسا کرکے اپنے بچیوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے، جو گھر کے کاموں سے مکمل فراغت کے بعد ایسی خوبصورت اور دیدہ زیب کڑھائی کرتیں کہ بیگم بقائی ہر فیسٹیول میں ان کے ہاتھوں کے بنے خوبصورت کاموں کو بیچ کر پیسے اپنی این جی او میں لگادیتیں جو انہی جیسی کم عمر لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا کرتی تھی۔
٭٭٭
عادل صاحب کی عمر اس وقت لگ بھگ 45 سال تھی۔ اچھی جاب، بہترین گھر، محبت کرنے والے رشتے دار… سب کچھ تو تھا ان کے پاس۔ وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ کثرت سے سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے۔ وہ کہیں بھی ہوتے چاہے دفتر ہو،گھر یا فیملی کی دعوت… سب کے سامنے بلاجھجک بے حساب سگریٹ نوشی شروع کردیتے۔ بعض اوقات انہیں اپنے ہم عصر حلقوں سے اپنے متعلق شکایات کا بھی پتا چلتا رہتا لیکن اس بے تحاشا سگریٹ نوشی کی وہ یہ توجیہ پیش کرتے کہ سگریٹ میں نکوٹین کی غیر معمولی مقدار کے باعث جسم کی کیلوریز ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں پاتیں، سگریٹ پینا جوان مردوں کا شیوہ ہے، سگریٹ پینے کے لیے جب میں کسی پر بوجھ نہیں تو دوسرے مجھے تبلیغ کرکے مجھ پر کیوں بوجھ بننا چاہتے ہیں! جو سگریٹ میں پیتا ہوں وہ ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا، لوگ اپنا احساسِ کمتری مٹانے کے لیے مجھے اس سگریٹ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
٭٭٭
بیگم احسان عالمہ تھیں۔ بچپن ہی سے انہیں دینی تعلیم سے انسیت تھی۔ شادی کے بعد وہ مختلف دینی کورسز کرکے اب اس درجے پر پہنچ چکی تھیں کہ لوگ انہیں اپنے گھر بلاکر ان کا درس سننا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ وہ دینِ اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنی دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ مختلف ممالک کا دورہ بھی کرچکی تھیں۔ انہیں فارغ رہنا پسند نہیں تھا۔ وہ فارغ اوقات میں اپنی کسی دوست، ساتھی یا کسی رشتہ دار سے بات بھی کرلیا کرتیں۔ بیگم احسان اپنی ایک سہیلی سے جو اُن کی رشتہ دار بھی تھی، دوستوں اور تمام خاندان کی خیر خبر لے لیا کرتیں۔ کس کے ہاں شادی ہوئی،کس نے مجھے نہیں بلایا،کس کے ہاں اولاد ہوئی، کس نے مجھے اطلاع نہیں دی،کس کے ہاں شادی کے بعد طلاق ہوگئی،کون کس حال میں ہے، کس کی طلاق کے بعد شادی ہوگئی،کس رشتہ دار نے اپنا مکان کتنا مکمل کرلیا،کون کتنا کما رہا ہے، کون کہاں شفٹ ہوگیا،کس کے بچے بیرونِ ملک مقیم ہیں، کتنا خرچہ بھیج رہے ہیں وغیرہ… ان تمام معلومات کو وہ وقتاً فوقتاً لوگوں کے سامنے پیش کرکے لوگوں کو حیران کردیا کرتی تھیں۔ توجیہ یہ پیش کرتیں کہ انسان کو کم از کم اپنے رشتہ داروں اور دوسرے قریبی لوگوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ مومن باخبر ہوتا ہے، لوگ بھی ہمارے بارے میں جانتے ہیں، اگر ہم بھی اُن کے معاملات کو جان لیں تو کون سی قباحت ہے!
٭٭٭
عبدالجبار صاحب کے چار لڑکے تھے۔ اپنے بچوں کو انہوں نے ہر طرح کی آسائش دے رکھی تھی۔ وہ بچوں پر سختی کے سخت خلاف تھے۔ ان کے نزدیک سختی اور ماردھاڑ سے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔ ایک دفعہ شدید بخار اور نزلے نے انہیں آلیا۔ بخار اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ مشکل سے بچے سے درخواست کی کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ ان کا بیٹا جو صبح سے شام تک ٹیسٹ کھیل کر بری طرح تھک گیا تھا، بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جاکر سوگیا۔ مجبوراً خود ہی بمشکل گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر نے چکن گونیا کی تشخیص کرتے ہوئے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ جبار صاحب کے بے انتہا اصرار پر ڈاکٹر نے ایک دن کے لیے انہیں اسپتال میں داخل کرلیا۔ جب گھر جانے لگے تو تمام گھر والے ساتھ تھے۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ لیکن گھر پہنچتے ہی پھر وہی کیفیت… سب کی مصروفیات شروع ہوگئیں۔ آخرکار اس کیفیت سے تنگ آکر انہوں نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ مجھے پانی پلادو حلق خشک ہورہا ہے۔ بیوی نے اپنے تمام کام چھوڑ کر انہیں پانی تو پلادیا، مگر جاتے جاتے کہنے لگیں کہ سنیں آپ اللہ کا شکر ادا کیا کریں کہ آپ کو مجھ جیسی بیوی ملی۔ پڑوس کی صائمہ کے شوہر تو اپنے کپڑے بھی خود دھوتے اور اپنے جوتے خود ہی پالش کرلیتے ہیں، لیکن میں آپ کے سارے کام کرتی ہوں پھر بھی بری ہوں۔ اب جب آپ بھی ٹھیک ہوجائیں تو خود ہی اپنے جوتے پالش کیا کریں اور اپنے کپڑے بھی خود استری کیا کریں۔ ہمارے نبیؐ بھی اپنے کام خود کیاکرتے تھے۔
تھوڑے ہی دن میں وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ اب وہ اپنے کپڑے بھی خود استری کرتے ہیں اور جوتے بھی خود صاف کرتے ہیں۔ توجیہ وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ آج کے دور میں کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں۔ میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔
٭٭٭
بیگم الماس کے دونوں بیٹے جب شادی کی عمر کو پہنچے تو دونوں کی ساتھ بیویاں لانے کا فیصلہ ہوا۔ بڑا بیٹا تھوڑا لاڈلا اور بدتمیز تھا، اُس کے لیے انہوں نے خاندان کی لڑکی کا انتخاب کیا تاکہ خاندان کو باندھ کر رکھے۔ چھوٹا والا چونکہ پہلے سے ہی فرماں بردار تھا اُس کے لیے سلجھے ہوئے گھرانے سے اسلامی لڑکی لائیں۔ بیٹے سے 10 سال چھوٹی اس لیے لائیں تاکہ رعب میں رکھا جاسکے۔ اب شادی کے بعد ایک سال ہی گزرا تھا کہ خاندان والی بہو ہر وقت الگ گھر لینے کی بات کرتی،کیونکہ یہاں سارے گھر کا کام کرنا پڑرہا تھا۔ بیگم الماس بڑی بہو کی الگ گھر کی دھمکیوں میں آگئیں۔ اب وہ سارے کام چھوٹی بہو سے کرواتیں۔ بڑی بہو کمرے سے صرف کھانا کھانے نکلتی، یا جب اسے اپنے میکے جانا ہوتا۔ سارے کام چھوٹی بہو کرتی، اپنی جٹھانی کا بچہ بھی سنبھالتی، نندوں کے آنے پر اُن کے لیے فرمائشی پکوان بھی بناتی۔ لیکن اگر بڑی بہو کا ذکر آتا تو بیگم الماس بڑے زور و شور سے خاندان بھر میں یہ اعلان کرتی نظر آتیں کہ بڑی بہو بہت کمزور ہے، وہ جلدی تھک جاتی ہے، بیمار بھی رہتی ہے، جبکہ چھوٹی بہو صحت مند اور جلد کام کرنے کی عادی ہے، اس لیے اگر وہ دو وقت کا کھانا بنالیتی ہے، گھر کے کام کرلیتی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم نے بھی جوانی میں بہت کام کیے ہیں۔کام کرنے سے کوئی گھستا نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ
٭٭٭
وقوفی عدم مطابقت (Congnitive Dissonance) کا نظریہ لیون فسٹنگر نے 1957ء میں پیش کیا۔ اس نظریے کا تعلق عام زندگی میں فرد کے اعمال سے ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ جب ملنے والی نئی معلومات فرد کی یقین کردہ معلومات سے ہم آہنگ نہیں ہوتی تو فرد وقوفی عدم مطابقت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس تکلیف کو کسی طرح سے دور کرے۔ ایسی صورتِ حال کا شکار شخص عموماً تین طرح کے افعال سرانجام دیتا ہے:
1۔ ترجیحی روبروئی(selective exposure): اس میں فرد ایسی کوئی خبر یا معلومات پڑھے گا ہی نہیں جو اس کے عمل کے مطابق نہ ہوگی۔
2۔ ترجیحی یادداشت(Selective Retention): اس عمل میں وہ شخص جو وقوفی عدم مطابقت کا شکار ہے صرف ان افعال و واقعات کو یاد رکھے گا جو اس کے لیے مثبت و خوشگوار ہوں گے۔
3۔ ترجیحی ادراک(Selective perception): مطلب ہے کسی بھی بات، واقعات سے وہ مطلب نکالنا جوکہ فرد کے خیالات سے ہم آہنگ ہو۔
اس عمل میں مبتلا ہر فرد ایک قسم کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آیئے اپنے معاشرے میں چلتے ہیں۔ سچائی پر مبنی ان چند واقعات سے اس عدم وقوفی نظریے کی تائید ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کا مشہور قندیل بلوچ قتل کیس، جسے پہلے عزت پر حملہ(honour killing)کا نام دیا اور قندیل کے بھائی نے بھی اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔ قندیل بلوچ کے بھائی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کی دیر تھی کہ سوشل و پرنٹ، بشمول الیکٹرانک میڈیا میں اسلام اور عزت و ناموس کے خلاف وہ غلیظ زبان استعمال کی گئی جس سے ہم اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ قندیل بلوچ تو اب اس دنیا میں نہیں رہی لیکن اُس نے سوشل میڈیا پر عریانی و فحاشی کا جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا اُس کے جانے کے بعد کتنی ایسی لڑکیاں ہیں جو اُس کی طرح راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی خاطر غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ بعد میں اس قتل کیس کی کڑیاں کہیں اور جاملیں۔ اب سب نے چپ سادھ لی یا طرح طرح کی بے جا تاویلات دینے لگے۔
میاں نوازشریف اور اُن کے بچوں پر لگنے والے الزامات کوئی نئی بات نہیں، لیکن پاناما لیکس کے بعد جن آف شور کمپنیوں کا اعتراف خود اُن کے بچوں کی جانب سے ہوچکا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے باوجود نون لیگیوں کی غلط توجیہ، مریم نواز، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال کے بیانات عدم وقوفی کا نتیجہ ہیں۔ وہ لگائے جانے والے سب الزامات کو اپنے قائد کے خلاف سیاسی چال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کے قتل پر ملک کو معاشی، زرعی، صنعتی اورسماجی اعتبار سے نقصان پہنچانے والوں کے نزدیک نقصان پہنچانے کی توجیہ یہ تھی کہ جب ہماری قائد اس ملک میں محفوظ نہیں تو اور کسی کو بھی یہاں محفوظ رہنے کا حق نہیں۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بے نظیر کا قتل عالمی استعماری ایجنڈے کا حصہ تھا، جس میں خود ان کے اپنے پاسبان بھی شامل تھے۔
9/11 کے بعد ملک کو امریکا کی نوآبادی بنانے میں جتنا حصہ اُس وقت کے آمر نے ڈالا ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ہمیں پتھروں کے دور میں پہنچادیں گے۔ انہوں نے بلوچستان میں اکبر بگٹی کو قتل سے پہلے دھمکی دی کہ تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس کے تھوڑے دن بعد نواب بگٹی کو بے دردی سے قتل کردیا گیا، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہ ریاست میں ریاست بنا رہے تھے۔ بلوچستان کی موجودہ صورتِ حال اسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ 12 مئی (2007ء) کو کراچی کو، اُس وقت کے چیف جسٹس کی آمد پر، غنڈوں کے ہاتھوں آگ و خون میں نہلادیا گیا۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ وہاں عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوا ہے۔ لال مسجد و جامعہ حفصہ فاسفورس بموں سے ختم کردی گئیں، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ حکومتی رٹ کو چیلینج کررہی تھیں۔ چند ڈالروں کے عوض بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں، غیر ملکی سفیر کو زنجیروں میں جکڑ کر غیروں کے حوالے کردیا گیا، توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ حالانکہ اب تک ان کے دہشت گردی کے ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔
غرض یہ کہ ہم سب کے پاس اپنے ہر کام کی وضاحت کی زبردست توجیہ موجود ہوتی ہے۔کسی دانا کا قول ہے ’’ہم اپنے تمام غلط کاموں کی وضاحت کے خود سب سے بڑے وکیل ہیں‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت فرد ہم اپنی ذات کے خول سے باہر آکر اپنے آفاقی ہونے کا ثبوت دیں۔ ہمارے نزدیک درست صرف وہی ہے جو نبیٔ مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور وہ تمام افعال و معاملات غلط ہیں جن سے پناہ مانگی گئی۔ قرآن ہمارا مرکز ہے۔ ہم اس گھوڑے کی طرح حدود میں قید ہیں جو رسّی سے آگے نہیں جاسکتا۔ مرکز کو یاد رکھنا، قرآنی تعلیمات کا مکمل ادراک اور ان پر عمل کی کیفیت ہی ہمیں اس عدم مطابقت سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجائو گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

حصہ