ربّ ِ کریم کی رضا کو مقدم جانیں

261

افروز عنایت
اس تحریر کا آغاز میں کہاں سے کروں… کیا لکھوں… سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ میرے ذہن میں ’’اس کی‘‘ یادیں ہیں، آنکھوں میں اُس کا چہرہ ہے… خوبصورت، پیارا من موہنا چہرہ… لوگ یہ کہیں گے کہ بھئی آپ کی بہن تھی اس لیے اُس کی ہر بات آپ کو پسند ہوگی۔ نہیں ایسی بات نہیں، وہ تھی ہی ایسی۔ اُس میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ شکل و صورت کے ساتھ ذہانت، صبر، شکر… کیا کیا خوبیاں گنوائوں۔ وہ ہم سب بہن بھائیوں کی چہیتی لاڈلی چھوٹی بہن تھی جسے ہم سب نے پالا، اس کے لاڈ اٹھائے آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہے۔ اس کی موت پر نہ صرف ہم سب کی آنکھیں اشکبار ہیں بلکہ ہر اُس شخص کی بھی جس نے چاہے ایک مرتبہ ہی اُس سے ملاقات کی ہو۔ میرے ہاتھ یہ لکھتے ہوئے کانپ رہے ہیں کہ وہ تو بیس سال پہلے ہی مرگئی ہوتی لیکن رب نے شاید اُسے اتنی زندگی اُس کی اکلوتی بیٹی کی وجہ سے نوازی۔ وہ ایک قیامت خیز گھڑی تھی جب ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اُس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں۔ اس وقت اُس کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ بھرپور جوانی، آنکھوں اور دل میں اَن گنت سپنے اور امنگیں تھیں۔ اپنی ایک سالہ بیٹی کے لیے اُس نے کئی خواب بُنے تھے۔ لیکن رب العزت کو اسے زندگی دینی تھی۔ سب کے ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں اٹھے ہوئے تھے۔ میرا رب بڑا منصف ہے، مہربان ہے۔ بھائی الطاف نے اپنا ایک گردہ دیا اور اللہ نے سائرہ کو زندگی بخشی۔ سائرہ اکثر کہتی کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن میرے رب نے میرے لیے بھائی کو وسیلہ بنایا، میں جب تک جیوں گی بھائی کی نہ صرف شکر گزار رہوں گی بلکہ ہر گھڑی میرے دونوں ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں بھائی کی خوشیوں اور صحت کے لیے اٹھے رہیں گے۔
بیماری سے پہلے سائرہ ایک ماڈرن، شوخ و چنچل، جدید خیالات رکھنے والی ایک فیشن ایبل لڑکی تھی۔ اس بیماری نے اس کی کایا پلٹ دی۔ اس نے اپنی بیماری کو رب کی طرف سے آئی ایک آزمائش سمجھا اور بڑے حوصلے، صبر و شکر کے ساتھ اللہ کی رضا پر سرِتسلیم خم کیا۔ گردے کی پیوندکاری کے کچھ عرصے بعد ہی اس نے ایک دینی مدرسے میں دینی علم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور اپنی پرانی روش ترک کرکے زندگی کو ایک نئے زاویے پر گزارنے لگی۔ نہ صرف اس نے اپنے آپ کو تبدیل کیا بلکہ آس پاس اپنے عزیز و اقارب کو جھنجھوڑتی۔ بھانجیاں، بھتیجیاں سب اس سے مانوس تھیں، گاہے بہ گاہے انہیں نیکی اور ہدایت کی تلقین کرتی۔ معمول کے مطابق ہر ماہ چیک اَپ کروانے جاتی اور دوائیاں لیتی، ساتھ میں ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی احتیاط اور پرہیز پر عمل کرتی۔ ہر تکلیف پر ہنس کر کہتی کہ یہ زندگی تو اللہ نے مجھے ’’بونس‘‘ کے طور پر عطا کی ہے، اس کا لاکھ لاکھ شکرہے، ورنہ اکثر گردے فیل ہونے کی وجہ سے انسان موت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ کبھی ہنس کر کہتی کہ اللہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے لیکن بہت سی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے۔ مجھے اللہ نے بہت سے نعمتیں دی ہیں… اولاد، مال و دولت، عزت، خوبصورتی ہر چیز سے مالامال ہوں۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو دیکھ کر خوش ہوتی کہ یہ تو میرے اوپر اللہ کا احسان ہے اور اس کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے۔
ہسپتال میں باقی غریب مریضوں سے ملتی، ان کی تکالیف دیکھتی تو نہ صرف ان سے ہمدردی اور محبت کا برتائو کرتی بلکہ ان کی مالی مدد کرتی۔ تمام رشتے داروں کو بھی اس بات پر مائل کرتی۔ عزیز واقارب سے زکوٰۃ کی ایک بڑی رقم جمع کرکے اس سے مستحقین کی مدد کرتی۔ گزشتہ تین سال سے اکثر بیٹی سے اور ہم سب سے بھی کہتی کہ میرے گردے کی پیوندکاری کو 15 سال ہوچکے ہیں، کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے شاندار زندگی دی ہے۔ سائرہ کی باتیں سن کر ہم اس کی ہمت کی داد دیتے تو ہنس کر کہتی ’’ہر انسان کو موت کا مزا چکھنا ہے، لہٰذا اس کی تیاری کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، اور میں نے تو مو ت کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اس ’’موت‘‘ نے ہی مجھے میرے رب کے قریب کردیا ہے‘‘۔ تمام عزیز واقارب کو صلۂ رحمی کی تلقین کرتی، اگر کسی میں کوئی کمی نظر آتی تو بے دھڑک اُسے سمجھاتی۔ اکثر ہم اُسے کہتے کہ لوگ برا مانیں گے، لوگوں کو اتنی نصیحتیں نہ کیا کرو۔ ناراض ہوکر جواب دیتی ’’تو کیا میں لوگوں کے ڈر و خوف سے حق بات کرنے سے رک جائوں!‘‘
آج اس کی موت کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے، اس سے محبت کرنے والے اس کی خوبیاں ہم سے بیان کررہے ہیں۔ کسی کو پردیس میں فون پر تسلی اور حوصلہ دیتی، کسی کو مشوروں (مفید) سے نوازتی، تو کسی کو پریشانیوں میں قرآنی آیات کا ورد کرنے کی ہدایت کرتی۔ وہ تنہا رہنے والوں کی دوست تھی۔ مشکل کو ہنس کر سہنے والی سائرہ دوسروں کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ ہم سب بہن بھائیوں سے چھوٹی ہونے کے باوجود ’’بڑی‘‘ تھی۔ پورا مہینہ ICU میں گزارنے کے بعد اسے خدا نے ایک ہفتے کی مہلت دی۔ اس ایک ہفتے میں اس نے تمام رشتہ داروں سے رابطہ کیا، سب سے بہت سی باتیں کیں جن کو بیان کرنا یہاں میرے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہوں گی کہ اسے اپنی موت کے بارے میں معلوم تھا کہ میں صرف چند دنوں کی مہمان ہوں۔ خود زندگی اور موت کی کشمکش میں ہونے کے باوجود اس کے ہاتھ صرف اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کی اولادوں کی خوشیوں کے لیے بھی بارگاہِ الٰہی میں اٹھے ہوئے تھے۔
زندگی کی تمام پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنے کے باوجود ہر وقت ہنسنے مسکرانے والی، دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنے والی سائرہ آج ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن اس کے کردار و اخلاق کے گرویدہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یادگار باتوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہے گی۔ بیشک انسان اِس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے لیکن اس کا اخلاق، اس کے نیک اعمال لوگوں کے درمیان زندہ رہتے ہیں۔ سائرہ کی موت ہم سب کے لیے، خصوصاً اس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کے لیے ایک دردناک سانحہ ہے، لیکن چند باتیں جو ہم سب کے لیے ایک سبق ہیں کہ یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے، ہر انسان کو موت کا مزا چکھنا ہے، اُس ’’آئندہ کی زندگی‘‘ کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ اِسی دنیا میں جمع کرنا ہے تاکہ ’’آئندہ کی زندگی‘‘ آرام دہ ہو۔ اللہ کی رضا پر سرِ تسلیم خم کرنا اور اس کی طرف سے آئی تکلیف کو آزمائش سمجھ کر زندگی صبر و شکر سے گزارنا ہی اصل زندگی ہے۔ آزمائش آنے پر واویلا کرنے اور ناشکری کے الفاظ ادا کرنے سے مصیبت ٹلتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔ ہر خوشی اور تکلیف پر اللہ سے رجوع کرنا ’’بندہ‘‘ ہونے کی خصوصیت ہے۔ جیسا کہ سائرہ نے رب کی طرف رجوع کیا۔ ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر جانے سے پہلے بھی کرب و اذیت کے لمحوں میں اس نے ڈاکٹر سے عشاء کی نماز پڑھنے کی اجازت مانگی۔ خدا اس کے درجات بلند کرے۔ (آمین)
اللہ ہم سب کو اِس دنیا میں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ آخرت میں ہمیں اپنے رب کی رضا حاصل ہو۔ (آمین)

حصہ