پاناما کے بعد پیراڈائز لیکس

388

’’وکی لیکس‘‘ کے نام سے شروع ہونے والے ہنگامہ خیز انکشافات، ’’پانامہ لیکس‘‘ سے ہوتے ہوئے اب ’’پیراڈائز لیکس‘‘ کی تہلکہ خیزی تک آ پہنچے ہیں جس میں دنیا بھر کے ممالک کی بہت سی اہم اور ممتاز پردہ نشین شخصیات اور اداروں کے چہروں کی نقاب کشائی کی گئی… تحقیقاتی صحافت سے وابستہ اخبار نویسوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی۔ آئی جے) کی جانب سے جاری کئے گئے ان انکشافات میں 25 ہزار سے زائد آف شور کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں کہ ان کے پس پردہ کون سے ادارے اور افراد مالی مفادات حاصل کر رہے ہیں ۔ پیرا ڈائز پیپرز کو جرمن اخبار نے حاصل کیا اور آئی سی آئی جے اور 67 ممالک کے 380 سے زائدصحافیوںکے نیٹ ورک کو دکھائے۔ یہ دستاویزات آف شور کمپنیوں کے حوالے خدمات انجام دینے والی کمپنیوں اور 19 کارپوریٹ رجسٹریز سے حاصل کی گئیں۔ آئی سی آئی جے کے ڈائریکٹر جیراڈ رائل کا اپنے منصوبے کے حوالے سے کہنا تھا کہ دستاویزات خود سے بولتے ہیں۔
پیراڈائز لیکس میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیوں، ٹرسٹ اور فنڈز کا 1950ء سے 2016ء تک کا ڈیٹا موجود ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں امریکا 25 ہزار 414 شہریوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ برطانیہ کے بارہ ہزار 707 شہری، ہانگ کانگ کے 6 ہزار 120 شہری ، چین کے 5 ہزار 675 شہری، بھارت کے سات سو سے زائد شہری، اور برمودا کے 5 ہزار 124 شہری شامل ہیں۔
ان انکشافات میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سمیت برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے نام بھی سامنے آ گئے ہیں۔ 13.4 ملین دستاویزات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے تعلقات کو بھی عیاں کر دیا ہے جب کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے چیف فنڈ ریزر سمیت دنیا بھر سے 120 سیاست دانوں کے نام آف شور کمپنیوں کے مالکان کے طور پر شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب سے مشرف دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز کا نام سامنے آیا ہے۔ ان کی کمپنی کو برمودا سے چلایا جا رہا تھا شوکت عزیز نے 1999ء میں پاکستان کا وزیر خزانہ مقرر ہونے سے قبل دو کمپنیاں بنائیں، انہوں نے انٹارکٹک ٹرسٹ کے نام سے کمپنی امریکا میں بنائی تھی جس کا بنیفیشل اونر ان کے اہل خانہ کو مقرر کیا گیا تھا جس میں ان کی اہلیہ، بچے اور ایک پوتی شامل ہیں، شوکت عزیز کو بعد ازاں پاکستان کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے 2003سے 2006ء کے دوران بطور اسمبلی کے رکن اپنے کاغذات میں مالی گوشواروں میں شامل نہیں کیا تھا۔ وہ 2004ء سے 2007ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے جب کہ اس سے قبل وہ وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ شوکت عزیز کے علاوہ نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ این آئی سی ایل (کے سابق ڈائریکٹر ایاز خان نیازی کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے، ایاز خان نیازی کے برٹش ور جن آئی لینڈ میں چار آف شور اثاثے سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک اینڈالوشین ڈسکریشنری ٹرسٹ نامی ٹرسٹ تھا۔ باقی تین کمپنیاں تھیں جن کے نام یہ تھے اینڈ الوشین اسٹیبلشمنٹ لمیٹڈ، اینڈ الوشین انٹرپرائسز لمیٹڈ اور اینڈ الوشین ہولڈنگز لمیٹڈ۔ ان سب کو 2010ء میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ایاز نیازی این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔ ایاز نیازی کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی بینی فشل اونر تھے جب کہ ایاز نیازی، ان کے والد عبدالرزاق خان اور والدہ فوزیہ رزاق نے بطور ڈائریکٹر کام کیا۔ این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن کے بڑے ا سکینڈل میں ملوث تھے۔ مخدوم امین فہیم نے انہیں چیئرمین لگایا تھا۔
پیراڈائز پیپرز میں برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ کی آف شورکمپنیاں بھی نکل آئی ہیں۔ ملکہ ایلزبتھ نے آف شور کمپنیوں میں کروڑوںڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہیں پیراڈائز پیپرز میں سب سے زیادہ نام امریکا سے سامنے آئے ہیں جہاں امریکی حکومت کے اہم وزراء کے نام شامل ہیں فہرست میں امریکی گلوکارہ میڈونا کے علاوہ سیکرٹری آف کامرسرلبز لوئس روز جونیئر نمایاں ہیں۔ پیراڈائز پیپرز میں اردن کی ملکہ نور الحسین 2 کمپنیوں کی ٹرسٹ کی بینفشری مالک ہیں۔ کینڈا کے سابق چار وزیر اعظم سمیت ترکی، بھارت، انڈونیشیا اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے نام بھی شامل ہیں۔ انڈونیشیا کے سابق صدر سہارتو، شام کے صدر بشار الاسد، بھارت کے رکن اسمبلی رویندر کشور سنہا، بھارت کے سول ایوی ایشن کے وزیر جیانت سنہا اور ترکی کے وزیر اعظم بن علی بلدرم نمایاں ہیں۔ پیراڈائز پیپرز میں دنیا کے مشہور کھلاڑیوں، گلو کاروں اور کاروباری شخصیات کے علاوہ دنیا کی مشہور کمپنیوں کے نام بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایپل، نائیکی، اوبر اور دیگر بین الاقوامی کمپنیوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے اس قانون کا سہارا لیا۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ لیکس کی یہ سیریز مخصوص مقاصد کے تحت شروع کی گئی ہے اور اس کا مقصد جہاں دنیا کی اہم شخصیات کی غلط کاریوں کو بے نقاب کر کے انہیں دبائو میں لانا ہے وہیں اس کا ایک اہم پس پردہ مقصد کاغذی کرنسی کی صورت میں بھاری رقوم لین دین کے لیے ساتھ رکھنے کی زحمت اٹھانا نہیں پڑے گی جس طرح کاغذی کرنسی کے آغاز کے وقت بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ سونے اور چاندی کے لین دین کی صورت میں انہیں بھاری وزن اٹھانا پڑتا ہے جب کہ کاغذی کرنسی کا استعمال اس کے مقابلے میں نہایت آسان ہے اس کے حفاظت بھی سونے اور چاندی کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے کی جا سکتی ہے اب یہی دلائل الیکٹرانک کرنسی کے لیے بھی کام آئیں گے اور الیکٹرانک کرنسی کے استعمال کی صورت منی لانڈرنگ وغیرہ کے بین الاقوامی مسائل سے نمٹا بھی آسان ہو گا چنانچہ پانامہ ہوں یا پیراڈائز لیکس، ان کا اصل پس پردہ مقصد الیکٹرانک کرنسی کی جانب تیزی سے پیش رفت کرنا ہے جس کا عالمی سرمایا دارانہ نظام کے اجارہ داروں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ الیکٹرانک کرنسی یعنی کریڈٹ کارڈ وغیرہ کی صورت میں ہونے والے ہر لین دین کی تفصیل بنکوں کے ذریعے سے ادائیگیوں کے باعث بآسانی حاصل کی جا سکے گی بلکہ اس کے ذریعے یہ تک معلوم ہو جائے گا کہ کس فرد نے کیا چیز، کس برانڈ یا کمپنی کی کہاں سے خریدی ہے… اور یوں ان معلومات کو اپنے مثبت و منفی کاروباری اور جاسوسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور عالمی معیشت کو قابومیں رکھنا مزید آسان ہو جائے گا…!!!
تجزیہ نگاروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ معیشت کو الیکٹرانک کرنسی کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی یہودی لابی نے یروشلم میں مرکزی عالمی بنک کے قیام پر پہلے سے کام جاری ہے پانامہ اور پیراڈائز انکشافات کے بارے میں یہ انکشاف بھی حیرت انگیز ہے کہ ان میں دنیا جہاں کے تمام سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور حکمرانوں وغیرہ کے نام شامل ہیں اگر نہیں ہیں تو ان میں کسی یہودی ادارے یا شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وکی لیکس جاری کرنے والوں نے امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک کو نہیں بخشا تھا مگر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر یہ اعلان باقاعدہ اور دو ٹوک الفاظ میں کیا گیا تھا کہ یورپ ، امریکہ یا اسرائیل میں موجود کسی بڑے یہودی ادارے یا شخصیت کا نام ان انکشافات میں شامل کیا گیا ہے اور نہ کیا جائے گا… یہی صورت حال پانامہ اور پیراڈائز لیکس کے بارے میں بھی ہے کہ ان میں بھی کسی بدعنوان صیہونی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا… ایسے میں یہ سوال یقینا اور بجا ہے کہ کیا یہ سب محض اتفاق ہے یا کسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے…؟؟؟
جہاں تک پیراڈائز لیکس میں منکشف کی گئی شخصیات کے خلاف کسی کارروائی کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا امکان معدوم ہے کیونکہ ابھی پانامہ لیکس میں منکشف ہونے والے لوگوں میں سے بھی نواز شریف خاندان کے علاوہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی منظر عام پر نہیں آئی حالانکہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں بھی ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی تھی اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی وہ اس کے لیے قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں میں اپنی تقاریر اور انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نواز شریف خاندان کے علاوہ پانامہ لیکس میں سامنے آنے والے دیگر 436 لوگوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے مگر متعلقہ ادارے خاموشی اختیار کئے ’’ٹک ٹک دیدم… دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں…!!! حیران کن امر یہ بھی ہے کہ حکمران نواز لیگ اپنے قائد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے احتساب پر تو سراپا احتجاج ہے اور اس کے قائدین نے چیخ و پکار کے ذریعے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور عدلیہ اور دیگر اداروں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جو منہ میں آتا ہے، کہے چلے جا رہے ہیں مگر ان کی جانب سے تاحال پانامہ اور پیراڈائز لیکس میں سامنے آنے والے بدعنوان لوگوں کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی اور عدالتی چارہ جوئی کا کوئی عندیہ دیا گیا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی معمولی سی بھی پیش رفت سامنے آئی ہے… جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت کو ملک سے کرپشن وغیرہ کے خاتمہ سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں بلکہ تازہ پیراڈائز لیکس کو تو حکمرانوں نے شدید طے شدہ پالیسی کے تحت کلی طور پر نظر انداز کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے اور وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کی کسی رکن حتیٰ کہ پارٹی کے کسی بھی سطح کے رہنما نے پیراڈائز لیکس کا نام تک زبان ہے نہیں آنے دیا… پیراڈائز لیکس کا نام تک زبان پر نہیں آنے دیا… ہاں البتہ ایک آدھ اخبار کے ذریعے یہ بات ضرور سامنے لائی گئی ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پیراڈائز لیکس میں شامل 139 پاکستانیوں میں سے چھ کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں جن میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ جن پاکستانیوں کے نام پیراڈائز پیپرز میں آئے ہیں اگر وہ پاکستان کے علاوہ کسی ایسے ملک میں رہائش پذیر ہوں جس کے ساتھ پاکستان کا دوہرے ٹیکسوں کا کوئی معاہدہ ہے تو پھر اس ملک سے بھی اس معاہدے کے تحت ان کے بارے میں تفصیلات مانگی جائیں گی۔ تاہم اس خبر سے بھی اندازہ یہی ہوتا ہے مقصد محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں اور حکومت کا اس ضمن میں بھی کسی ٹھوس کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں… ارادہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ ایک چور کس منہ سے دوسرے کو چور کہے گا اور کیونکہ سنجیدگی سے اس کا احتساب کر سکتا ہے…؟؟؟

حصہ