اخبارِ ادب

361

ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی کی ادبی محفلوں میں نجیب عمر سے اکثر راقم الحروف کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں یہ ایک ہمہ جہت شخصیت‘ شاعر‘ ادیب‘ افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ یہ کھرے اور سچے انسان ہیں بنیادی طور پر یہ کوالیفائیڈ انجینئر ہیں انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں یہ مذہبی رجحان رکھنے والے فرد ہیں۔ ان کی تحریں مختلف اخبارات اور رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں ان کی کتابوں میں حصار نظر (افسانے 2011ء)‘ حج عبادتوں کا سردار (مضامین 2012)‘ نیم وا دریچے (افسانے 2013ء) کہ ہم جھٹلائے گئے (انبیاء کی کہانی قرآن کی زبانی 2014)‘ کرنوں کا رقص (افسانے 2015ء) عکس در عکس (تراجم 2016ء) اقتباسات (فی ظلال القرآن 2016ء) متفرقات (حاصل مطالعہ 2016ء) عیارِ نظر (تبصرے‘ جائزے 2017ء) لطافتِ تحریر (انشایے 2017ء)‘ وسعتِ بیاں (مضامین 2017ء) شامل ہیں۔
اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ گزشتہ اتوار کو ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی زیر صدارت ایک نشست میں نجیب عمر کے فن و شخصیت پر گفتگو ہوئی اس موقع پر صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ نجیب عمر نے بہت کم وقت میں بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے ان کی تحریریں زندگی سے مربوط ہیں ان کے لفظوں میں بناوٹ نہیں ہے بلکہ سچائی ہے‘ یہ ایک حساس آدمی ہیں اپنے ماحول سے نظریں نہیں چراتے ان کی شاعری میں استادانہ مہارت تو نہیں ہے تاہم انہیں لفظوں کے دروبست کا سلیقہ ہے ان کے تراجم حقیقت سے بہت قریب ہیں۔ ترجمہ کرتے وقت انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اصل رائٹر کا نقطہ نظر مجروح نہ ہو۔ ان کی افسانوں کا کردار قاری کے ساتھ سفر کرتے ہیں‘ ان کے استعارے و تلمیحات کسی خاص نظریے کا عکاس نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنا لب و لہجہ خود تراشا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے بقول نجیب عمر ایک معروف ادیب و شاعر ہیں۔ اب تک ان کی نصف درجن کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں اور اتنی ہی طباعت کے مراحل میں ہیں انہوں نے بیس انگریزی کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے جس کا نام عکس درعکس ہے ترجمے میں پہلا مسئلہ انتخاب کا ہوتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ نجیب عمر اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں یہ سب کہانیاں دل چسپ ہیں ان میں تجسس کا عنصر غالب ہے‘ ترجمے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ مترجم اس زبان پر عبور رکھتا ہو جس کا وہ ترجمہ کر رہا ہے اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ ترجمے کو تخلیق بنانے کا گر جانتا ہو۔ نجیب عمر نے اس بات میں مایوس نہیں کیا ہے اگرچہ یہ بدیسی کہانیاں ہیں لیکن نجیب عمر نے اس مہارت سے ان کا ترجمہ کیا ہے کہ ان پر مشرقی ماحول چھایا ہوا ہے انہوں نے اردو محاورے کثرت سے استعمال کیے ہیں چنانچہ کہانیاں روانی کے ساتھ ساتھ پڑھ لی جاتی ہیں ان کی یہ کاوش قابل مبارک باد ہے۔ بیگم شاہین زیدی نے کہا کہ نجیب عمر اپنے افسانوں میں معاشرتی رویوں میں پائی جانے والی کش مکش کا اظہار بڑی جرأت و بے باکی سے کرتے ہیں ان کے افسانے اس عہد کے ترجمان ہیں وہ معاشرتی برائیوں کا سدباب بھی بیان کرتے ہیں چاہے کوئی مانے یہ مانے لیکن وہ اذان دے رہے ہیں۔ ان کے ترجمے قاری کو شعوری طور پر جکڑ لیتے ہیں ا ور وہ پوری کہانی پڑھے بغیر کتاب نہیں رکھتا۔ کسی بھی زبان میں لکھے ہوئے ادب کو اپنی زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نفسِ مضمون مجروح نہ ہو۔ نجیب عمر اس امتحان میں پورے اترے ہیں۔ ابن عظیم فاطمی نے نجیب عمر کے باے میں کہا کہ ان کی کتاب ’’نیم وا دریچہ‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اختصار کے ساتھ تمام واقعات کو انتہائی مربوط اور پُر اثر بنا کر پیش کر دیے ہیں۔ کچھ افسانے ان کے مطالعے اور مشاہدے کی دلیل ہیں جیسے ’’مونا لیزا‘‘ جس میں لیونارڈو کی نجی زندگی سے لے کر فنکارانہ زندگی کے شب و روز کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے اسی طرح ’’روشنی سے مٹھاس تک‘‘ شمع اور پروانے کے تعلق سے اور ان دونوں کی باہمی گفتگو سے افسانہ تخلیق کیا گیا ہے جس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب رشتوں کی اہمیت اور محبت کو گرفت میں لے کر عمدگی سے افسانے کی قالب میں ڈھالا گیا ہے ان کے افسانے پورے سیاق و سباق کے ساتھ قاری کے ذہن و دل پر چھا جاتے ہیں یہ ہر کہانی کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں یہ افسانے کو حقیقت کا روپ دے کر ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں یہ اپنے اردگرد ہونے والے کسی واقعہ سے صرفِ نظر نہیں کرتے ان کے افسانوں اور کہانیوں میں غیر ضروری جزئیات کا کوئی دخل نہیں ہوتا‘ یہ سادہ اور سلیس انداز میں اپنی بات کہنے کا فن جانتے ہیں اور موضوعات کا تنوع ان کی اضافی خوبی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ ادبی حلقوں میں مزید نام کمائیں گے۔خورشید احمد (ڈیلی نیوز کراچی) نے کہا کہ نجیب عمر کی طبع زاد کہانیاں اور افسانے پُر تاثیر ہیں یہ ایک کامیاب مترجم ہیں یہ اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہیں انہوں نے ائر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر کہانیاں نہیں لکھیں بلکہ انہوں نے دنیا گھومی ہے یہ ایک گرم جوش‘ سادہ اور حیران کن تحریروں کے مالک ہیں ان کی کتاب ’’حصارِ نظر‘‘ انسان کو آئنہ دکھاتی ہے اور آسانی سے سمجھنے والی زبان میں لکھی گئی ہے جس میں الفاظ پانی کی طرح بہتے ہیں اور انسان پر اثر ڈالتے ہیں اچھی اور مختصر کہانی لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خیالات اور ان کی منصوبہ بندی بڑی احتیاط سے کی جائے لیکن ہر لکھنے والا یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کچھ قلم کار اپنی تحریر کسی پیغام کے ساتھ شروع کرتے ہیں یا وہ خیال جس کو وہ قارئین میں بانٹنا چاہتے ہیں ’’حصارِ نظر‘‘ کے مصنف نجیب عمر انہی قلم کاروں میں شامل ہیں ان کی تحریریں عقل و شعور پیدا کرتی ہیں امیدیںدلاتے ہیں اور سنہرے خواب دکھاتے ہیں انہوں نے زندگی کے معاملات کو اجاگر کیا ہے۔ غلام محی الدین (روزنامہ دنیا) کہتے ہیں کہ نجیب عمر کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کا ہنر اس طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں طبع زاد نہیں لگتیں بلکہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں وقع پزیر ہونے والے تلخ و شیریں واقعات کو نہ صرف خوبی سے بیان کرتے ہیں بلکہ سادہ اور سلیس انداز میں لکھتے ہیں انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی اور معاشرے کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو موضوع بنایا ہے وہ ہر قسم کے مسائل پر اٹھنے والے سوالات کی برچھیوں سے راکھ کرید کر اس میں دبی ہوئی ان چنگاریوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں جو آگ لگانے والوں کا پتا بھی دیتی ہیں اور یہ بھی بتا دیتی ہیں کہ اس نے یہ آگ کسی کو بھسم کرنے کے لیے لگائی تھی یا اسے سردی سے بچانے کے لیے آگ لگائی تھی۔
شفیع عقیل (مرحوم) نے نجیب عمر کے لیے کہا تھا کہ ان کے افسانوں یا کہانیوں کا مطالعہ کریں تو ان کے مہماتی موضوعات یا چونکا دینے والے پلاٹ نہیںملیں گے بلکہ انہوں نے انسانی زندگی کے اردگرد بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے مسائل‘ چھوٹے چھوٹے واقعات اور بہت سے معمولی حالات کے حصار میں گھری ہے یوں بھی ہر بڑی چیز چھوٹی چھوٹی چیزوں سے مل کر ہی بڑی بنتی ہیں اگر چھوٹی چیزیں نہ ہوں تو کسی بھی بڑی چیز کا وجود ممکن نہیں۔ شفیق احمد شفیق نے کہا کہ جب انہوں نے نجیب عمر کے افسانے پڑھے تب انہیں محسوس ہوا کہ افسانہ نگاروں میں ایک اچھے لکھاری کا اضافہ ہوگیا ہے انہوں نے زندگی اور سماج کی چھوٹے چھوٹے واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے ان کے یہاں کوئی انوکھا پن اور سنسنی خیزی نہیں ہے ان کی کہانیوں میں سیدھا پن اور سچائی ہے وہ جس واقعے یا موضوع سے متاثر ہوتے ہیں اس کو اپنی داخلیت سے ہم آہنگ کرتے ہیں اس کے بعد لفظوں کا پیرہن پہنا دیتے ہیں ان کے فن کاروں میں بقراطیت نہیں ان کی تحریروں سے ان کے بلند و بالا احساسات‘ جذبات‘ فکری دبازت‘ مشاہداتی تنوع کا اندازہ ہوتا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار نسیم انجم کہتی ہیں کہ نجیب عمر زندگی سے واقعات کشید کرتے ہیں اور زمانے کے تلخ و شیریں حقائق کو اپنی کہانیوں میں ہنر مندی سے سمو دیتے ہیں ان کے افسانے سادہ اور سلیس زبان میں لکھے گئے ہیں بیانیہ طرز ادا ہے‘ بیانیہ کہانیاں‘ علامتی افسانوں کی نسبت عام قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں کرتی ہیں پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ان کے افسانوں میں کردار نگاری بھی قابل ستائش ہے۔ احمد زین الدین کہتے ہیں کہ نجیب عمر کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے انہیں زبان و بیان پر دسترس ہے ان کی تحریریں متاثر کن ہیں۔
…٭…
5 نومبر 2017ء کو سہ ماہی غنیمت (ادبی رسالہ) کے تحت ممتاز شاعر و صحافی اختر سعیدی کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا گیا۔ پروفیسر جاذب قریشی نے صدارت کی۔ فیروز ناطق خسرو مہمان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس تقریب کے دو حصے تھے پہلے دور میں اختر سعیدی کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اکرم کنجاہی نے کہا کہ اختر سعیدی ایک خود آگاہ شاعر ہیں خود آگاہی ہمیں خدا تک لے جاتی ہے جب انسان کو خود شناسی آجاتی ہے تو وہ حق و باطل میں تمیز کرسکتا ہے۔ اختر سعیدی میں یہ صلاحیت بہ درجہ اتم موجود ہے کہ وہ اچھائی و برائی میں فرق محسوس کرتے ہیں اور برائیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کی شاعری میں رحمانی قوتوں کے استعارے موجود ہیں انہوں نے اپنے بارے میں انتہائی سفاک حد تک سچ بولا ہے آج وہ ایک بین الاقوامی شاعر کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اختر سعیدی میر تقی میر سے بہت متاثر ہیں ان کی بیشتر غزلوں میں میر کا رنگ جھلکتا ہے ان کے یہاں سلاست ہے‘ غنائیت ہے‘ روانی ہے‘ گہرائی اور گیرائی ہے انہوں نے سہل ممتنع میں بہت اچھے اشعار کہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اختر سعیدی کئی ادبی تنظیموں کے روح رواں ہیں ان کے کئی شاگرد بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں انہوں نے ادارۂ فکر نو کے تحت بے شمار پروگرام منعقد کیے ہیں انہوں نے نو آموز شعرا کو پروموٹ کیا ہے ان کی انتظامی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں کہ کئی شان دار تقریبات ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ صاحب صدر پروفیسر جاذب قریشی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اختر سعیدی ایک ہمہ جہت شخصیت ہے اس کی شعری کے تین مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ بحیثیت صحافی یہ ایک مقامی روزنامے میں ادبی صفحے کے نگراں ہیں اور سینئر سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں انہوں نے اب تک ڈھائی سو انٹرویوزکیے ہیں جو کہ صحافتی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے ایک زمانے میں وہ روزنامہ جسارت سے وابستہ تھے انہوں نے وہاں پانچ سال کام کیا‘ وہ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے رپوتاژ لکھتے رہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں یہ شاعری و صحافت کے میدان میں پامردی سے اپنی منزلیں طے کر رہے ہیں۔
یہ ایک ادبی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد صاحبِ دیوان شاعر تھے عام طور پر باپ دادا سے ملنے والے ورثے پر فخر کیا جاتا ہے اور لوگ اس حوالے سے اپنی اہمیت جتاتے ہیں اختر سعیدی کو ورثے میں غربت اور شاعری ملی اس نے دونوں کا احترام کیا وہ زندگی کے مسائل سے خوف زدہ نہیں ہوا‘ اس نے محنت مزدوری کی اور آج وہ پرسکون زندگی گزار رہا ہے شاعری میں اس نے اپنا تشخص اپنی پہچان بنائی اس کے یہاں انسانی اقدار معاشرتی رویے نظر آتے ہیں اس نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ اپنے اردگرد کے مناظر کو پوری ایمان داری کے ساتھ شاعری میں ڈھالا یہ اس آشوبی عہد میں بھی انسانی محبت کو انسانی تعلق کے امکان پر باقی رکھنا چاہتا ہے وہ دیوار کے پیچھے بڑے بڑے خواب نہیں دکھاتا بلکہ زندگی کے روزمرہ لمحوں کے ساتھ چلتا ہے وہ کالے ار مردہ لفظوں کے درمیان زندہ اور اجلے لفظ لکھ رہا ہے جس سے ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا وہ جرأت مندی‘ بے خوفی اور حقیقت نگاری کی ایسی مثال ہے جس میں اس کی ذات کے کئی جھوٹے اور کھوٹے سماجی رویوں کے اور بہت سی ادبی صحافتی سازشوں کے پردے چاک کر دیے آج وہ پوری آب و تاب سے ادبی منظر نامے میں جگمگا رہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اکرم کنجاہی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اختر سعیدی کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کا اہتمام کی انہیں راغب مرادآبادی ایوارڈ سے نوازنے کے ساتھ ساتھ کیش پرائز بھی دیا دوسری ادبی اداروں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے۔ سلمان صدیقی نے نظامتی فرائض کے علاوہ تمام مسند نشینوں کا تعارف پیش کیا انہوں نے اکرم کنجاہی کے اقدامِ پزیرائی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اکرم کنجاہی ایک صاحبِ اسلوب شاعر‘ ممتاز صحافی اور بیک میں اعلیٰ عہدیدار ہیں وہ ہر ماہ ایک شاندار مشاعرہ کرا رہے ہیں ان کے رسالے میں ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویوز و مضامین شائع ہوتے ہیں جن میں پوے ملک کی نمائندگی نظر آتی ہے وہ نوجوان قلم کاروںکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں آج بھی انہوں نے نوجوان نسل شعرا کو مشاعرے میں بلایا ہے۔ اس موقع پر صاحب اعزاز کی خدمت میں اکرم کنجاہی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ ثبین سیف‘ ہما بیگ‘ محمد علی گوہر اور رشید خاں رشید نے پھولوں کے تحائف پیش کیے جب کہ سہ ماہی غنیمت کی جانب سے اختر سعیدی کو ’’راغب مراد آبادی ایوارڈ‘‘ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کیش ایوارڈ بھی پیش کیا گیا اس تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی‘ مہمان توقیری (نثار احمد نثار)‘ ناظم مشاعرہ اور میزبانِ مشاعرہ (اکرم کنجاہی) کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں انوارالنصاری‘ خالد معین‘ محمد علی گوہر‘ رشید خاں رشید‘ شاعر علی شاعر‘ سحر تاب رومانی‘ حامد علی سید‘ محسن سلیم‘ ناہید عظمیٰ‘ حنیف عابد‘ سلمان ثروت‘ آزاد حسین آزاد‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ تنویر سخن‘ اختر رضا‘ کامران طالش‘ نثار محمود تاثیر‘ نجیہ الدین یاسم‘ یاسر صدیقی‘ علی کوثر اور ثبین سیف شامل تھے آخر میں اکرم کنجاہی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور یہ بھی کہا کہ اپنا کلام سنانے کے بعد مشاعرہ گاہ سے چلا جانا مشاعرے کی روایات کے خلاف ہے۔ اگر ہم مشاعرے کے آداب کی پاسداری نہیں کریں گے تو یہ ادارہ برباد ہو جائے گا۔ صاحبِ اعزاز اختر سعیدی نے کہا کہ وہ سہ ماہی رسالے غنیمت کے ایڈیٹر ممتاز شاعر و صحافی اکرم کنجاہی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے اتنی شان دار محفل سجائی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بارے میں جو گفتگو کی گئی ہے وہ ان کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہے اور میرے لیے باعثِ اعزاز ہے تاہم وہ اردو ادب کے ادنیٰ طالب علم ہیں اور اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کرتے رہیں گے اس موقع پر انہوں نے اپنی غزلیں سنا کر سامعین و شععرا سے خوب داد وصول کی۔
…٭…
’’گل خنداں‘‘ نثر کی کتاب ہے جس کو سید اقبال حسن رضوی نے مرتب کیا ہے‘ ایک تقریب میں مجھے یہ کتاب اس ہدایت کے ساتھ دی گئی کہ میں اس پر کچھ لکھوں میں نے اس کتاب کو پڑھا اور اس نتیجے پر پہنچا کر اقبال حسن رضوی نے بڑی محنت سے ممتاز و معروف شاعروں اور ادیبوں سے منسوب حقیقت پر مبنی ادبی لطائف کو یکجا کیا ہے ان کی اس کاوش کی پزیرائی ضروری ہے ان کے بارے میں ممتاز شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور محقق نے لکھا ہے کہ سید اقبال حسن رضوی ایک پڑھے لکھے شریف النفس ہیں ان کا تعلق امروہہ سے تھا اب خالصتاً پاکستانی ہیں ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے ان کے والد حضرت گل حسن رضوی ایک باکمال شاعر‘ ادیب اور صحافی تھے جنہوں نے طویل مدت تک ایک رسالہ ’’دُرِ مقصود‘‘ شائع کیا ۔ وہ قادرالکلام شاعر تھے اس تناظر میں اقبال حسن رضوی میں ذوقِ شعر و ادب ورثے میں ملا ہے لیکن انہوں نے شاعری کے بجائے مضمون نویسی کو ترجیح دی ان کے بہت سے مضامین تحقیقی اہمیت کے حامل ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کے لطائف جمع کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے یوں یہ لوگوں کو خوشیاں فراہم کرکے خوش ہوتے ہیں اسی لیے انہوں نے گل خنداں مرتب کی ہے تاکہ دورے بھی ادبی لطائف سے استفادہ کرسکیں۔

حصہ