انتظارِ لاحاصل

238

شاہجہاں رشید
’’ایک تھا لعل شہزادہ۔‘‘
’’نہیں دلدار شہزادہ، دادی اماں۔‘‘
’’نہیں نانی اماں، لکڑہارا شہزادہ۔‘‘
’’دیکھو بھئی بچو! میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اگر کوئی بیچ میں بولے گا تو میں کہانی نہیں سنائوں گی۔‘‘
’’اچھا… اچھا اب نہیں بولیں گے…‘‘ اور ہم چپ چاپ کہانی سنتے سنتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتے۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلتی تو ہم دادی اماں کا ہاتھ ہلاتے ’’ہاں تو کیا ہوا پھر دادی اماں…؟‘‘ اور وہ ہڑبڑا کر پھر سے کہانی سنانا شروع کردیتیں۔ صبح ہوتے ہی ہم آگے کی کہانی بھول جاتے اور دادی اماں کے سر ہوجاتے ’’دادی اماں پھر کیا ہوا…؟‘‘ اور دادی اماں کہتیں ’’بیٹا دن میں کہانی نہیں سنتے، ماموں راستہ بھول جائیں گے…‘‘ اور ہم ڈر جاتے۔
آج میں نے اپنے پوتے کو اس طرح کہانی سنانے سے منع کیا تو وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا ’’گرینی آج کے ماموں گھوڑے یا اونٹوں پر نہیں آتے جو راستہ بھول جائیں گے۔‘‘
’’ماموں گاڑی میں بیٹھیں گے اور ڈیڑھ دو گھنٹے میں حیدرآباد سے یہاں پہنچ جائیں گے، اور اسلام آباد سے بھی آئے تو جہاز کا دو گھنٹے کا سفر ہے۔‘‘
’’اور تو اور لندن و امریکا سے بھی آئے تو ایک ڈیڑھ دن میں پہنچ جائیں گے، اور اب یہ تو ہونے سے رہا کہ پورا جہاز ہی راستہ بھول جائے۔‘‘
’’اے ہے خدا نہ کرے بیٹا، ایسی بدفال منہ سے نہ نکالو… اللہ نہ کرے کہ جہاز راستہ بھولے۔‘‘
اور میری آنکھوں کے سامنے وہ جہاز پھرنے لگا جو ڈیڑھ سو مسافروں کے ساتھ برف پوش چوٹیوں میں غائب ہوگیا اور آج تک نہ مل سکا۔ کیسے ان کے پیاروں کی آنکھیں ترستی ہوں گی انہیں دیکھنے کے لیے، زندہ یا مُردہ کوئی خبر تو آئے، اور کچھ نہیں تو ان کے لیے ایصالِ ثواب ہی کردیں۔ لیکن یہ کیسا انتظار ہے جو انتظارِ لاحاصل بن گیا۔
دودھ کا گلاس لے کر آنے والی رحیمہ بوا کے ہاتھ کانپ گئے، دودھ کے گلاس آپس میں ٹکرائے تو سب چونک گئے۔ رحیمہ بوا کا چہرہ دھلے ہوئے لٹھے کی طرح سفید ہوگیا تھا۔ آسیہ خاتون نے تشویش سے دیکھا۔ رحیمہ بوا ان کے یہاں بہت عرصے سے تھیں۔ صبح سے رات تک گھر کے کام کاج کرتیں۔ بہت کم بولتی تھیں، ہر وقت گم صم رہتیں۔ سب گھر والوں کی فرمائشیں سر جھکا کر پوری کرتی رہتیں۔ بچوں سے بہت پیار کرتیں، یہی وجہ ہے کہ چھوٹے بڑے سب اُن کی بہت عزت کرتے تھے۔
آسیہ خاتون نے ان کی خیریت دریافت کی اور انہیں فوراً کمرے میں جاکر آرام کرنے کی ہدایت کی۔
آج بہت عرصے بعد ان کے زخموں کے ٹانکے اُدھڑ گئے تھے، کئی سال پہلے جب اُن کا اکلوتا بیٹا، جو اُن کی بیوگی کا سہارا تھا، تعلیم مکمل کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو انہوں نے بہت شوق سے اُس کے سر پر سہرا سجایا، مگر اصل مسئلہ اُس وقت کھڑا ہوا جب بیٹے کی معمولی تنخواہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مسائل کا ساتھ دینے میں ناکام ہوگئی۔
پھر پتا نہیں اُس نے کب اپنے دوست سے کہہ سن کر اپنا امریکا کا ویزا لگوا لیا۔ جلد ہی دوست کا سارا قرض ادا کرکے اُس نے بیوی کو وہاں بلانے کا انتظام کیا اور اس بار چھٹیوں پر آنے کے بعد جب کہ ماںکا کلیجہ بھی ٹھنڈا نہ ہو پایا تھا، اُس نے دھماکا کردیا کہ ایک ہفتے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر واپس جارہا ہے۔
ایسے میں یہ خیال بھی نہ آیا اُسے کہ بوڑھی ماں کو کس کے سہارے چھوڑ کر جارہا ہے۔ ماں نے برستی آنکھوں سے بیٹے اور بہو کو رخصت کیا۔ گھسے پٹے وعدے اور خرچ بھیجنے کے سنہرے خواب دکھا کر وہ دونوں روانہ ہوئے۔
چند گھنٹوں بعد ہی طیارے کے برف پوش پہاڑوں میں غائب ہوجانے کی خبر نشر ہونا شروع ہوگئی۔ جن کے پیارے اس میں سوار تھے ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ مرنے والوں پر صبر آجاتا ہے مگر اس طرح لاپتا ہونے والوں کا انتظار ساری زندگی رہتا ہے۔
…٭…
رحیمہ بوا گھر گھر کام کرکے گزارا کرتی رہتی تھیں، آخر میں وہ آسیہ خاتون کے گھر میں رہائش کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات کی حق دار بھی ٹھیریں، اور جب سے یہیں رہ رہی ہیں۔ گھر کے لوگ بھی ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔
بس ایک انتظار ہے جو انتظارِ لاحاصل بن گیا ہے… ہمیشہ کے لیے۔

حصہ