جنید زاہدی شہید! آپ اور آپ کے بچے نمبر لے گئے

257

مریم زاہد
’’ماشاء اللہ، بہت اچھی اٹھان ہے بچوں کی…توقعات سے زیادہ!!…الحمدللہ…کم عمری سے مطالعے کا شوق، دعوتی مزاج اور فکر میں پختگی نظر آتی ہے۔
اور پھر سونے پر سہاگا تعلیمی میدان میں بھی ماشاء اللہ آگے آگے۔‘‘
’’بھئی کیسے ہوا یہ سب کچھ؟‘‘
یہ وہ جملے تھے جو الحمدللہ اکثر سننے کو ملتے۔
جب میں 13 سال کی تھی تو ابو کو شہید کردیا گیا۔ ہم 6 بہن بھائی ہیں، سب سے بڑا 16 سال اور سب سے چھوٹا ڈیڑھ سال کا…تقریباً سب ہی نابالغ!!
آج ابو کی شہادت کو 7 سال ہوچکے ہیں… الحمدللہ 4 بڑے بہن بھائی ارکانِ جمعیت…اپنے اپنے حلقوں میں دعوتی کاموں میں مصروف اور دورِ فتن کی لذتوں سے بہت دور… اس فکر میں کہ رب کو راضی کیسے کیا جائے؟
برانڈڈ کپڑوں اور gadgets وغیرہ کی دوڑ سے انجان۔ سادہ زندگی… بڑوں کی خدمت و احترام…مہمان داری میں مصروف۔
آخر کیا خاص تربیت تھی… یا اللہ کی خاص رحمت ہے کہ ہم سب الحمدللہ عام نوجوانوں سے مختلف ہیں…! انہی سوچوں میں گم تھی کہ سورہ کہف کی آیت 82 پر نظر پڑی… *ابوھما صالحاً* ’’کیونکہ ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا‘‘۔
ابو انتہائی نیک فطرت انسان… down to earth… لوگوں سے ملنا جلنا، ان کے مسائل خندہ پیشانی کے ساتھ حل کرنا، نرم مزاجی ان کی شخصیت کا حسن، اور عفو و درگزر اس کو مزید نکھار دیتا۔
*ابوھما صالحاً* !! ہمارا باپ ایک نیک آدمی تھا
پھر کیسے اللہ ہمیں اکیلا چھوڑ دیتا… اللہ تو بہت قدردان ہے، الودود بھی ہے اور نگہبان بھی… وہ ایک نیک آدمی کی نیکی کا صلہ چاہے وہ دنیا میں رہے نہ رہے، اس کی اولاد کو ضرور دیتا ہے!!
وہ ان یتیم بچوں کو بے سہارا نہیں چھوڑ دیتا۔ وہ ان کو سہارا دینے کے لیے حضرت خضرؑ کو بھیجتا ہے۔ وہ ان کی مالی ضروریات وہاں سے پوری کرتا ہے جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا۔
یتیم تو بہت ہوتے ہیں لیکن ابوھما صالحاً کے یتیم بچے کچھ خاص ہوتے ہیں!! اور پھر بڑا کردار تربیت میں اُس بیوہ ماں کا ہے جس نے اپنی بھری جوانی یتیم بچوں کے لیے وقف کردی۔ ان کا اعتماد دینا ہی تو تھا جس نے حوصلہ دیا۔ اجتماعات میں شرکت کے لیے اجازت کا تو مسئلہ ہی نہیں تھا… اور اکثر اچانک آکر کہنا کہ امی مغرب کے بعد درس دینا ہے تیاری کروادیں… اور پھر امی کا سمجھا سمجھا کر درس کے لیے پوائنٹ لکھوانا۔
جب کبھی فون یا لیپ ٹاپ استعمال کرتے دیکھتیں تو کہتیں ’’اللہ دیکھ رہا ہے… مجھ سے ڈر کر نہیں رکنا بلکہ اللہ کے ڈر سے برے کاموں سے رکنا ہے۔‘‘
ان کے یہ جملے ہی ہماری گناہ کے کاموں سے کراہیت کے لیے کافی ہوتے۔ خود بھی قرآن کے مطالعے اور تدریس میں مصروف رہتیں… راتوں کو تہجد کے لیے اٹھنا، اٹھتے بیٹھتے بآوازِ بلند دعائیں پڑھنا، بیدار ہوتے ہی نماز پڑھنا، بڑھ کر لوگوں کا خیال رکھنا…یہی تو وہ ساری صفات تھیں جن کو ہم بھی اپنانے میں سبقت لینے کی کوشش میں لگے رہتے!! الحمدللہ اس غفلت بھری جوانی میں بھی تہجد قضا نہیں ہوئی۔ امی کو ہمیشہ پڑھتے دیکھا… وہ یہی کہتیں کہ دیکھو آگے میں نہیں ہوں گی۔ اپنا اللہ سے اچھا سا کنکشن بنالو، اس کے سامنے ہی اپنی پریشانیاں، شکایتیں رکھنا… وہ سننے والا ہے، وہی تمہیں سہارا دے گا۔
اتنی عظیم نصیحت، اتنا زبردست تعلق جو بے شک ٹوٹنے والا نہیں!!!
قرآن سے کمال کا تعلق… کچن میں کاموں کے دوران بھی اس سے غفلت گوارا نہ کرتیں…کوئی خاص قصہ یا بات آتی تو ضرور پوچھتیں کہ بتائو کیا بات ہورہی ہے… اس طرح اور شوق بڑھتا… قرآن سے تعلق اور مضبوط ہوتا!!
ایک خیرخواہ ماں… حیا کے معاملات میں بہت احتیاط کرتیں اور ہماری بھی اصلاح کرتیں۔ نیک اولادیں تبھی پروان چڑھتی ہیں جب والدین عظیم ہوں۔ ابو کے بغیر اکیلے امی کس طرح یہ کٹھن ذمے داری نبھاتیں… بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے!! امی ہمیشہ ایک دعا ضرور مانگتیں ’’اے اللہ جس طرح تُو نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر باپ کے بہترین سیرت و کردار والا بنادیا تھا اس طرح میری اولاد کو بھی بنا۔ ان کا سرپرست بن جا۔ ان کی اٹھان بھی ویسے ہی کرنا۔‘‘
امی بے شک آپ کامیاب ہوگئیں…
آج ہم معاشرے کے ان دو فیصد نوجوانوں میں سے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے کوشاں ہیں، جن کی محبتیں، جن کی محنتیں، جن کا وقت، جن کی سوچوں کا رخ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے…الحمدللہ
اور یہ سب اللہ کے احسان کے بعد آپ کی محنتوں اور ابو کی نیکیوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اللہ ہمیں جنت الفردوس میں ایک دوسرے کا ساتھی بنادے۔ (آمین)
٭٭…٭…٭٭
پچھلے دنوں بیٹا جمعیت کے کسی پروگرام میں ملا تھا، میں نے بے اختیار بھتیجے کو سینے سے چمٹا لیا۔ آج یہ بچی نے کیا خوب لکھا ہے…
یار جنید بھائی آپ واقعی صالح باپ تھے، بابرکت انسان! مجھے یاد ہے جب ایک نوجوان جنید میرے بوڑھے والد کے پاس گھنٹوں ان کی باتیں، جماعتی زندگی کے واقعات سننے بیٹھا رہتا تھا، ہمیں حیرت ہوتی مگر وہ کہتا: یار بہت مزا آتا ہے، تحریک ملتی ہے ان بزرگوں کی صحبت میں۔

بیٹی مریم!

تمہاری نیچے درج تحریر پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں، بہت کچھ یاد آگیا۔
وہ بھی کہ جب تم سب چھوٹے چھوٹے تھے اور تم سر پہ پونی باندھے ڈرائنگ روم میں ابا کی گود میں آن بیٹھتی تھیں اور وہ تمہیں چمٹا کر پیار کرتے تھے۔
یار جنید بھائی آپ شہید اور آپ کے بچے سعید زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ دیکھو اللہ نے انہیں تمہارے بعد بھی محروم نہیں کیا۔
کون کہتا ہے جن کے باپ نہیں رہتے وہ بچے بگڑ جاتے ہیں؟ ان بچوں کی ماں ہماری بہن نے تمہاری امانتوں کو خوب سنبھالا ہے، تم سے عہدِ وفا خوب نبھایا ہے…
مجھے یقین ہے رب کی جنتوں میں تم سب اکٹھے ہو گے۔۔ان شا اللہ
(زبیر منصوری)

حصہ