پھول ہوں میں اجڑے دیار کا

245

جویریہ اعظم
’’امی میں عمر فاروق بنوں گا۔‘‘ سات سالہ مومن کے لہجے میں بے پناہ اعتماد اور ننھی آنکھوں میں یقین کی چمک تھی۔
امی جان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور ساکت رہ گئیں۔ ان کا ننھا بیٹا آنکھوں میں بے شمار خواب سجائے اعتماد سے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ انہوں نے اس کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اسے گود میں بٹھایاؤ چند آنسو ان کی آنکھوے سے ٹپکے۔
’’امی! دادا جان نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے فلسطین آزاد کرایا تھا۔ امی حضرت عمر فاروقؓ بہت بہادر تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس راستے سے عمر گزرے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے‘‘ امی میں نماز یا جماعت پڑھنے مسجد کیوں نہیں جاسکتا… مساجد کو کیوں شہید کر دیا گیا‘ کوئی نماز کے لیے مسجد کیوں نہیں جاسکتا۔‘‘ موضوع سے ہٹ کر اس نے اچانک کئی سوال کیے۔
’’بیٹا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں‘ ہمیں یہاں کسی چیز کی آزادی نہیں۔‘‘ امی نے نم آنکھوں سے جواب دیا۔ وہ ابھی یہ باتیں نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا ’’امی مکہ میں جب اسلام پھیل رہا تھا‘ مسلمان چھپ کر نماز پڑھتے تھے‘ تعداد میں بہت کم تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ’’اللہ تعالیٰ دو عمروں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کو طاقت دے۔‘‘ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد سے مسلمان حرم میں نماز با جماعت ادا کرتے… امی میں عمر فاروق بنوں گا۔‘‘ اس نے اپنے عزم کا ایک بار پھر پُرجوش اظہار کیا۔ ننھا مومن مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے نہیں جاسکتا تھا۔ آج مسلمان تعداد میں بہت زیادہ ہیں لیکن کوئی عمر فاروقؓ نہیں مومن کو عمرؓ کا انتظار نہیں تھا وہ خود عمر فاروق بننے کو تیار تھا۔
…٭…
رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ خستہ حال جھونپڑی کے کچے فرش پر مومن لیٹا ہوا تھا۔ کونے میں رکھے چراغ کی روشنی مانند پڑ چکی تھی لیکن اصل افسوس اس بات کا تھا کہ انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ابو دادا جان کو ان لوگوں کا حال بتا رہے تھے جو روہنگیا سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور ملائیشیا کی طرف گئے۔ چار ماہ کا طویل پُر خطر سمندری راستہ معمولی کشتیوں سے طے کرکے لوگ ملائیشیا پہنچے جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے‘ ملازمت نہیں کرسکتے‘ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کیوں کہ وہ اس ملک کے شہری نہیں‘ بنگلہ دیش جانے والے افراد کی بھی یہی صورت حال ہے۔ پندرہ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو کوئی ملک اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ نیند مومن کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ ابو کی زبانی یہ تمام تفصیلات سن رہا تھا اسے یہ حدیث یاد آرہی تھی کہ مسلمان جسد ِ واحد کی مانند ہیں جسم کا کوئی ایک حصہ بھی تکلیف میں ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرے گا‘ وہ سوچ رہا تھا کہ دنیا میں اتنے مسلمان موجود ہیں کوئی ہماری تکلیف محسوس کرنے والا نہیں۔
ننھا مومن نہیں جانتا تھا کہ مسلمانوںکے پاس اور بہت سے کام ہیں‘ ان کے پاس بے شمار دلچسپیاں ہیں جن میں وہ مصروف ہیں۔ ابھی ان کے پاس وقت نہیں کہ وہ سوچیں کہ مسلمان کس حال میں ہیں اور یہ وقت ان پر بھی آنے والا ہے… ابھی وہ سو رہے ہیں اور دشمن یہی چاہتا ہے کہ یہ سوتے رہیں۔
مومن نہایت خوف زدہ امی سے لپٹا جھوپنڑی کے کونے میں بیٹھا تھا۔ ابو باہر کھڑے تھے۔ انتہائی درد ناک موت سامنے تھی۔ دادا جان قریبی گائوں گئے تھے آپس نہ آسکے۔ گائوں کو جلا دیا گیا تھا۔ دھواں ہر طرف پھیلتا جارہا تھا۔ بدھسٹ فوج اب ان کے گائوں میں داخل ہو رہی تھی۔ لوگوں کی چیخ و پکار تھی‘ آگ کے شعلے تھے اور گرتے لاشے تھے‘ انسانیت کا درد ناک قتلِ عام تھا‘ ہر طرف مسلمانوںپر ہونے والے مظالم اور امت کی خاموشی نے دشمن کو بہت بہادر بنا دیا ہے۔ مومن تکلیف سے بلک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ابو کو آگ کے شعلوں کو نذر کر دیا گیا تھا۔ اس کا ننھا وجود ایک فوجی کے ہاتھ میں تھا اور پھر معصوم وجود کے ٹکڑے زمین پر بکھر گئے۔ انسانیت سسک سسک کر مر گئی تھی۔ ننھے بے جان وجود کی کھلی آنکھوں میں درد تھا جو درندہ صفت انسان اور خوابِ غفلت میں سوئے مسلمان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آنکھوں میں بے شمار خواب تھے جو ظلم تلے دب گئے‘ امت کے کتنے ہی معصوم پھول ہر روز بن کھلے مر جھا جاتے ہیں۔

حصہ