مستقبل کے معمار اور ہمارا میڈیا

235

زرینہ انصار
ہم آرہے ہیں آپ کے شہر میں ڈانس کا مقابلہ کروانے، تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ آپ میں ناچنے کی کتنی صلاحیت ہے ، افسوس صد افسوس ہمارے میڈیا پر کہ جو کرنے کے کام ہیں وہ چھوڑ کر قوم کے بچوں کو نچوڑا بنانے چلیں ہیں۔ جہاں جہاں تک بجلی ہے وہاں وہاں تک میڈیا کی رسائی ہے میڈیا بچوں کو نچوڑاتو بناسکتا ہیمگر کوئی تخلیقی کام نہیں سکھا ئے گا کیونکہ یہ اس کا ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے تو دوسری طرف اس ملک کے بچے اپنی ذہانت کی وجہ سے ملک کا نام روشن کررہے ہیں جبکہ مختلف سروے سے پتہ یہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں ساٹھ فیصد عوام تعلیم سے محروم ہے۔بچوں کی ایک کثیر تعداد صاف پانی اور بنیادی خوراک سے بھی محروم ہے۔ بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے بچے اپنی عمر اور طاقت سے زیادہ کی مزدوری کرنے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔میڈیا ہوش کے ناخن لے ،،،،شہر شہر جاکر بچوں کو نچانے کے بجائے ان میں دوڑ کے مقابلے کروائیں، ورزش کے طریقے سکھائیں ناچنا گانا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ بہترین تعلیم اور بہترین کردار ہی انسان کو کامیاب بناتا ہے۔امریکہ کے اسکولوں میں بچوں کو ایک ہفتے میںسو میل دوڑنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے، ٹی وی پر سپیلنگ بی جیسے پروگرام پیش کرکے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ خود ہمارے پاکستانی چینلز ماضی میں بچوں کے لیئے تخلیقی نوعیت کے پروگرام پیش کرتیرہیہیں۔انکل سرگم،ناظرہ قرآن کی کلاس اور دیگر اس طرح کے شوزجن سے بچے کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے۔اب بھی میڈیاکے ذریعیبچوں کو ابتدائی تعلیم دی جاسکتی ہے ناظرہ قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔قوموں کی ترقی میں نچوڑوں اور گوائیوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی ذہن اور معیاری کارکردگی ہی اصل بنیا د ہے جو ہمیں اپنے بچوں مستقبل کے معمار میں پیدا کرنی ہے۔

حصہ