عبادت مجبوری نہیں ضرورت ہے

418

بنتِ عطا
ہم ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ کاش یوں ہوجاتا یا پھر یوں ہوجاتا۔ اپنی ذات میں ہی دانشور بنے پھرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا یا پھر ایسا نہیںہونا چاہیے تھا۔ کچھ بھی ہماری مرضی کے بغیر ہو تو ہمارے لبوں پر فورا شکوے آجاتے ہیں۔ گویا ہم نے اپنی مرضی کی زندگی کو ہی زندگی سمجھ لیا ہے۔ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں ایک وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عموما کوئی بھی انسان ہو اپنی مرضی کے مطابق جینا پسند کرتا ہے۔ اب اس میں مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہیں سب یکساں ہیں کیوں کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے لیے زندگی کا ایک مذہبی مقصد ضرور رکھا گیا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کی ہے کہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار ہوں گے۔ مگر ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو صرف اور صرف اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کو ہی دنیا میں آنے کا مقصد سمجھتے ہیں۔ جنہیں لا دین ، دھریا کیمونسٹ کہا جاتا ہے۔ لادین کے لیے نہ تو کوئی سزا ہے اور نہ ہی کوئی جزا ہے۔
دنیا میں لادین اور کچھ دین دار صرف اور صرف اپنی مرضی کی زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ بطور مسلم ہمارے لیے سزا اور جزا پر ایمان ہی ہمارے مسلمان ہونے کا ایک اہم جزو ہے اس کے باوجود بھی یہ خواہش کہ ہم آزاد ہوں اور ہم اپنی مرضی کی زندگی جئیں یقینا عجیب بات ہے۔ موجودہ دور میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اوپر والے کی مرضی سے ہٹ کر اپنی موج مستی میں رہتے ہیں۔
یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہمارا رب ہمیں اپنی ہی خواہشوں میں الجھا دیکھ رہا ہے۔ وہ مالک تم سے مخاطب ہوکر کہتا ہوگا ’’اے میرے نادان بندے! ذرا ایک نظر میری جانب بھی اسی محبت سے دیکھ تو سہی جس محبت سے میں تجھے دیکھ رہا ہوں ۔ ایک لمحہ ہی سہی اپنی خود ساختہ الجھنوں سے نگاہ ہٹا کر دیکھ تیرے لیے ہی خیر کر رہا ہوں۔ ذرا دیکھ تو تجھے کیسے کیسے تھام رہا ہوں۔ جو تجھے مشکل لگتی ہے وہ آسانی ہے ۔ جس پر اشک بہا رہا ہے اس کا راز حکمت اگر عیاں کر دوں تو تیرے یہ دکھ کے آنسو خوشی کے آنسو بن جائیں۔ تجھے میں نہیں دکھتا؟ ذرا دیکھ تو ۔ مگر غافل نادان انسان سماعت ہوتے ہوئے بھی رب کی صدائے محبت سننے سے قاصرہے۔ بصارت ہوتے ہوئے بھی اس کا جلوہ محبت نہیں دیکھ پارہا۔ اپنی خواہش کے حجاب میں مبتلا اللہ کی محبت سے حجاب میں رہ جاتا ہے۔ ہیرا چھوڑ کر پتھروں میں الجھا ہوا ہے۔ ان سے قدر پانے کو ترستا ہے مگر جو اصل قدردان ہے اس کی قدر سے نا آشنا رہ جاتا ہے۔کتنی محبت کرتا ہے ایک ماں سے بچے کا رونا نہیں دیکھا جاتا مگر ہمارا رب ہم سے 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ جب ہمارا رب ہم سے اتنی محبت کرتا ہے تو ہمیں مشکلات میں گھرا کیسے چھوڑ دے گا۔
جو لوگ اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں وہ تو جی ہی رہے ہیں تاہم یہاں ضروری یہ ہے کہ ہمیں اپنے رب کی مرضی کے مطابق جینا ہے۔ اور اس جینے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی یا مشکلات نہیں ہیں۔ فرمان الٰہی ہے کہ ’’میں جنوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘ (القرآن) جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے تو وہ ہمیں کبھی اکیلا بھی نہیں چھوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘ (القرآن)
ایسا ہرگز نہیں کہ ہم مشکلات میں جی رہے ہیں بلکہ ہمیں اپنی اوقات سے زیادہ مشکلات نہیں ملتیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہم سے صرف اور صرف محبت کرتا ہے۔ہمیں اس محبت کو سمجھ کر اس کی رضا میں راضی ہونا چاہیے۔ یہ سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیںکہ ہم مشکلات میں ہیں تو ہم کیوں اللہ کے پسندیدہ بندے بنیں۔ کیوں کہ ہم اللہ کے پسندیدہ تو روز اول سے ہی ہیں۔ بس اب خود کو اس مالک کے فرامین میں ڈھالنے کی دیر ہے۔ کوئی بھی چیز آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ نہ صبح کا اٹھ کر اپنے مالک کے سامنے سر بسجدہ ہونا اور نہ بھوکا پیاسا رہے کہ اس مالک کی خوشنودی حاصل کرنا۔ ایک پل کو سوچیں کہ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکمل جسم اور صحیح سالم پیدا نہ کیا ہوتا تو آپ اٹھنے کے بجائے پڑے ہی رہتے۔اگر آپ کو ایسی حالت میں پیدا کیا جاتا کہ آپ کو کئی کئی دنوں کا کھانا میسر نہ ہوتا تو آپ کو کچھ پل بھوکا رہنے کے بجائے پورا پورا دن اور کئی کئی راتیں بھوک میں کاٹنی پڑتیں۔
دنیا میں کوئی ہم پر تھوڑا سا احسان کردے تو وہ جب بھی بلائے ہم حاضر ہوجاتے ہیں جس مالک نے ہم پر بے شمار انعام کیے کیا ہم اس کے لیے پانچ نمازوں کا وقت نہیں نکال سکتے، تھوڑا سا وقت تلاوت کے لیے نہیں نکال سکتے۔ کاش ہم جان جائیں کہ دعا کا مطلب ہماری آنے والی مشکلات کا کفارہ ہے۔ کاش ہمیں پتا ہو کہ صدقہ ہمارے مال کو پاک صاف کرنے کا سبب ہے۔ کاش ہمیں روزے کو اپنی جسمانی فٹنس کی تھیوری پڑھ لیتے۔ کاش ہم پانچ وقت کی نماز میں جھکنے سے ہمارے خون کی گردش سے ہمارے جسم کو پہنچنے والے فائدے جان لیتے تو یقینا ہمیں اپنے رب پر کوٹ کوٹ کر پیار آتا کہ وہ مالک ہمارے لیے کتنا کچھ بہتر کر رہا ہے اور ہم اسے اپنے لیے مشکلات کا سبب سمجھ رہے ہیں۔
جس طرح سائنس پڑھے بغیر سائنسدان ، وکالت پڑھے بغیر وکیل اور میڈیکل پڑھے بنا ڈاکٹر نہیں بنا جاسکتا اس سے کہیں زیادہ قرآن اور سنت کو پڑھے یا سمجھے بغیر نہ تو ہم مسلمان بن سکتے ہیں اور نہ ہی ہم معارفت الٰہی کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیا ہمارے لیے صرف دنیاوی کامیابیاں معنی رکھتی ہیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کرسکتے؟۔ محض کلمہ پڑھنا ہی ہمارے ایمان کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جنت کو نفس کو نہ پسندیدہ چیزوں سے گھیرا گیا ہے اور دوزخ خواہشات سے گھیردی گئی ہے‘‘ (صحیح بخاری)
یعنی جو انسان کو کام ناگوار گزرتے ہیں وہ نیکیاں کرنے سے جنت ملتی ہے اور جن کاموں سے منع کیا گیا وہ کام کرنے سے جہنم۔ تھوڑی سی مشقت کے بدلے ابدی راحتیں ملیں یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ کیوں نہ ہم اپنی زندگی میں نماز اور قرآن کو اپنی عادت بنالیں۔ عادت وہ نہیں جو عارضی ہو یا مطلب کے لیے ہو بلکہ اللہ کا خوف اور حصول جنت والی عادت ہو۔
دنیا کے سارے کام کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے مگر اپنے اللہ کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔3گھنٹے کی فلم دیکھ سکتے ہیں مگر نماز کے لیے فرصت نہیں کیوں؟ کلاس میں ٹاپ کرنے کے لیے اپنی کتابوں کا خوب رٹا لگاتے ہیں۔ امتحان سے قبل ایک رات میں پوری کتاب پڑھ یا یاد کر ڈالتے ہیں لیکن اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے قرآن پاک کی تلاوت نہیںکر سکتے۔ وہ امتحان تو سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ ہماری اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم اس امتحان میں کامیاب ہوجائیں ۔ ابھی تو نماز کا نام سن کر ہم بات بدل لیتے ہیںکیا ہم روز محشر جواب دے پائیں گے؟بات صرف اس وقت اپنے وقت کو مینیج کرنے کی ہے۔ اگر ابھی سے اپنی زندگی کی مینجمنٹ اچھی کر لی تو دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران ہوجائیں گے، ان شا اللہ۔

حصہ