صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے

606

سالم سلیم
امروہہ صرف ایک قصبہ ہی نہیں تہذیب و تمدن کا گہوارہ بھی ہے۔ یہاں ایک کہاوت سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے کہ ’امروہہ شہر تخت ہے، گزران یہاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کمبخت ہے‘۔ یہیں علامہ شفیق حسن ایلیا کے بیٹے جون اصغر یعنی جون ایلیا14دسمبر1931ء کو پیدا ہوئے۔گھر کا ماحول حد درجہ علمی تھا، اس لیے شعرگوئی کا چسکا بھی لگ گیا۔ ان کے استغراق، مجاہد ے اور کتاب دوستی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
جون ایلیا کے سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا کہ وہ ابتدا ہی سے رومان پسند اور نرگسی طبیعت کے تھے۔ اپنے بابا کی صحبتوں میں رہ کر زبان اور شاعری کی باریکیاں تو وہ سیکھ ہی چکے تھے، اور پھر وہ ’حادثہ‘ بھی گزر ا جب انھیں شاعری کی دیوی نے اچک لیا۔
دراصل جون ایلیا جس تہذیب اور جن اقدار کے پروردہ تھے اُن میں شاعر، عالم یا فلسفی ہونا کچھ حیرت کی بات نہ تھی۔ 21 سال کی عمر میں وہ باقاعدہ شعر کہنے لگے اور فرضی محبوبہ کے نام خط لکھنے لگے تھے۔ حالاں کہ شاعری کی ابتدا کم سنی میں ہی ہوگئی تھی:
’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو ’سب سے اہم حادثے‘ پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
اسی طرح یہ شعر بھی انہی دنوں کی یادگارہے :
خیالِ خانہ بربادی نہ کرنا
کبھی اے جون تم شادی نہ کرنا‘‘
اس طرح کے شعر اور مصرعے خلق کرنے والا لڑکا آئندہ زمانے کا بڑا شاعر تھا۔ تخلیقیت دراصل جون کی روح کا حصہ تھی۔ وہ اپنی اس کیفیت سے کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ شاعری میں بھی ادق مضامین کی تلاش میں رہتے اور زندگی کی پیچدگیوں سے بھی نبرد آزما رہتے۔
اوائل عمری میں ہی ’’بزم حق نما‘‘کے نام سے قائم ایک ڈراما کلب میں شریک ہونے لگے تھے۔ یہ ڈراما کلب انیسویں صدی کے آخر میں امروہہ شہر کے بزرگوں نے قائم کیا تھا۔ اس کے ڈرامے یونان کے اساطیری ڈراموں سے مماثلت رکھتے تھے۔ جون نے الگ سے بھی ایک سوسائٹی بنائی جس کا نام ’’بزم اصغری‘‘ تھا۔ ’’بزم اصغری‘‘ میں ذہین و فطین نوجوانوں کی شمولیت ہوتی تھی۔
امروہہ والے جون ایلیا اپنے بڑے بھائی سید محمد تقی صاحب کے بلاوے پر کراچی ہجرت کر گئے۔ جون نے وداع ہوتے وقت ’’میرا فسانہ میرا ترانہ‘‘کے عنوان سے ایک ڈائری بھی لکھنی شروع کی تھی، اس ڈائری سے اُن کے کرب کی شدت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہاں چند ایک باتیں درج کی جارہی ہیں، ان سے اندازہ ہوگا کہ جون کو اپنے شہر سے کیسا عشق تھا۔
’’آج میں اپنے نجد نوازاں، اپنے مصرو کنعاں، اپنے تاتار و ختن، اپنے وطن سے نہ جانے کب تک کے لیے وداع ہورہا ہوں۔
میرے جانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، شبنم و قمر میرے ساتھ مصروف ہیں، ہم ایک دوسرے سے بہت آہستہ سے بولتے ہیں، اگر آواز ذرا بلند کردیں تو شدت ِ غم سے آواز بھرا جائے گی۔
آہ میں اماں کی قبر کے قریب سے گزر رہا ہوں۔
میری روایات مُردہ ہوتی جارہی ہیں، میری شخصیت کی تاریخ کا شیرازہ منتشر ہوا جارہا ہے۔ آہ میرا پیارا ہندوستان!
میں پاکستان آکر ہندوستانی ہوگیا۔
اس طرح امروہہ کا وہ مکان جس میں شامیں جھوما کرتی تھیں، صبحیں کھیلا کرتی تھیں، جس مکان میں شاعری اور تہذیب و تاریخ کے چرچے ہوتے تھے، ایک مسلسل ویرانی کی نذر ہوگیا۔
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
گھر کے دالان اور آنگن میں بس اک کوا زندہ تھا‘‘
ہجرت اور اس کا زخم جون ایلیا کے لہو میں تازہ رہا۔ ہجرت اور اپنے آبائی شہر کو انھوں نے ذات کا استعارہ بنالیا۔ یہاں آکر جون ایلیا تصنیف و تالیف اور تراجم میں غرق ہوگئے۔ ایک خلاّق آدمی اپنی ذات میں بھی انجمن ہوتا ہے۔ وہ تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہیں ہوتا۔ اُس کی تخلیقیت اُس کی تنہائی کی ہمراز بن جاتی ہے اور جون ایلیا کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔
1963ء سے 1968ء تک اسماعیلیوں کے ادارے کے تحت کام کرتے ہوئے اسلامی تاریخ و فلسفہ سے متعلق بے شمار تراجم کیے۔ ابھی تک جون ایلیا عزلت نشیں ہوکر ہنگاموں اور محفلوں سے دور رہ کر تصنیفی کام انجام دے رہے تھے۔ مگر 1988ء میں رئیس امروہوی کے قتل کے بعد جون ایلیا جیسے حواس باختہ ہوکر رہ گئے۔ سرِعام گفتگو کرنے سے احتراز کرتے۔ پھر وہی عالم کہ ’’تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِبازار ‘‘۔پلٹ کر پھر اسی حجرے میں پناہ لی جہاں برسوں خون تھوکا گیا تھا۔ وہ حجرہ ان کی ذہنی آماجگاہ تھا۔ اس حجرے میں وہ کتابیں تھیں جنھوں نے اُن پر ظلم کیا تھا۔ ان کتابوں میں ایک پراسرار رمز تھا اور اسی رمز کے ستائے ہوئے جون ایلیا کو مژدہ عشرت انجام نہ مل سکا۔ ان کے اندر خود ہی سے ایک خاموش پرخاش کی فضا تیار ہوتی رہی۔ایک طرح کی مردم بیزاری ان کی شخصیت اور مزاج کا حصہ بن گئی۔ لیکن وہ کائنات کے اس وسیع خرابے میں زندگی کے معنی ڈھونڈنے میں عمر بھر غلطاں و پیچاں رہے۔ ان پر فتوے صادر کیے گئے۔ بڑے بھائی رئیس امروہوی بھی شدت پسندی کی نذر ہوگئے۔ اپنی بیوی زاہدہ حنا سے تعلق برقرار نہ رہ سکا۔ وعدے کے باوجود اپنے بابا کی کتابیں چھپوا نہ سکے، اور ان سب حادثوں کا انتقام انھوں نے اپنی ذات سے لیا۔ اپنی اس کیفیت کا اظہار انھوں نے بڑی اندوہ ناکی اور کرب کے ساتھ کیا ہے:
’’میں سا لہا سال سے کس عذاب میں مبتلا ہوں؟ میرا دماغ، دماغ نہیں بھوبل ہے۔ آنکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح ٹپکتی ہیں کہ اگر پڑھنے یا لکھنے کے لیے کاغذ پر چند ثانیوں کو بھی نظر جماتا ہوں تو ایسی حالت گزرتی ہے جیسے مجھے آشوب چشم کی شکایت ہو اور ماہ تموز میں جہنم کے اندر پڑھنا پڑرہا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں اب بھی اپنے خوابوں کو نہیں ہارا ہوں۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہیں‘‘۔
جون ایلیاکی اس درد انگیز کیفیت اور جاں گسل شب و روز میں کچھ سہارا سلیم جعفری نے دیا۔ سلیم جعفری ایک ادب نواز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دبئی میں اکثر عالمی مشاعرے منعقد کرتے تھے۔ سلیم جعفری نے سوچا کہ کیوں ناں جون ایلیا کو بھی چراغِ محفل بنایا جائے۔ اس کے لیے مناسب تھاکہ جون ایلیا کا کوئی مجموعہ شائع ہو۔ اور سلیم جعفری کی ہی کوشش سے یہ کام بھی ہوا۔ ایک تو جون ایلیا کو سامعین کے درمیان ’’پکڑ‘‘ کر لانا، پھر انھیں مجموعہ مرتب کروانے پر راضی کرنا… یہ سب کام کچھ آسان نہ تھے، مگر سلیم جعفری کو بھرپور داد دینی ہوگی کہ انھوں نے بقول جون ایلیا میرا ظہور ثانی کیا۔
سلیم جعفری نے انھیں مایوسی اور فرار کی زندگی سے نکال کر رجائیت کی تعلیم دی۔ اور دبئی میں ہی جون ایلیا کے اعزاز میں 1990ء میں عظیم الشان جشن کا اہتمام کرڈالا جو ’’جشنِ جون ایلیا‘‘کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی موقع پر ان کے مجموعہ ’’شاید‘‘ کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی۔ جون ایلیا کا بہت سا قیمتی کلام ان کی بے نیازی کے سبب اور دست بردِ زمانہ سے ضائع ہوگیا۔ ذرا تصور کیجیے کہ ایسے زودگو اور قادرالکلام شاعر کا پہلا مجموعہ انسٹھ برس کی عمر میں شائع ہوا۔1991ء میں جون ایلیا نے ہندوستان کا سفر کیا، حالانکہ اس سے پہلے وہ 1975ء میں دہلی اور امروہہ میں مشاعروں میں آچکے تھے۔ جون اپنے اندر حد درجہ اضطرابی کش مکش رکھتے تھے۔ ان کی شاعری اور دائرۂ وجود کو ان کے خوابوں کی قتل گاہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری میں اذیت اور کرب کی صورت گری اپنی انتہا کو ہے۔ ان کی شخصیت متضاد رویوں کا مرکب ہے، وہ بیک وقت سخت مذہبی بھی ہیں اور دہریہ بھی۔
انھوں نے انسانیت اور اس کی بے چارگی کا دکھ اپنی جان پر سہا۔ ایک عجب طرح کی نرگسیت ان کے اندر راہ پاگئی تھی کہ وہ عمر بھر خون تھوکتے رہے۔ وہ زندگی اور اس دنیا کے دار ورسن سے ہوتے ہوئے8 نومبر2002ء کو اپنے جسم کا ساتھ چھوڑ گئے۔ حالانکہ ان کی مطلقہ بیوی زاہدہ حنا کا خیال ہے:
’’وقت نے اگر ان کے لیے کوئی کربلا تجویز کی ہے تو وہ سجدہ گزار ہوتی ہوئی خود ہی ان کی طرف چلی آئے گی۔‘‘
کربلائے ذات میں بیک وقت شہید و غازی کا درجہ پانے والے جون اپنے ذہنی سفر میں کئی بار اس مقام سے گزرے جہاں انہیں خون کی مہک آتی ہوئی محسوس ہوئی، اسی لیے انہوں نے خون کو اپنی ذات کا استعارہ بنایا۔
جون ایلیا کا مطالعہ کرنے والے بیشتر افراد کا اُن سے جذباتی لگائو رہا۔ ان کی شاعری پر بات کرنے والے شاعری سے زیادہ ان کے آہنگ کا ذکر کرتے ہیں۔ آہنگ کی چمک لفظوں کی اہمیت پر حاوی ہوجاتی ہے۔ آہنگ اگر خامی کو نظرانداز کرانے کا ہنر ہے تو خوبی کو پوشیدہ رکھنے کا عیب بھی ہے۔ اس لیے بھی مشاعروں کے اچھے شاعروں کے ساتھ بھی تنقید انصاف نہیں کرپاتی۔
جون ایلیا کی شاعری اپنے مخصوص رنگوں سے آباد ہے۔ اس میں ذات کے بھاری بھرکم فلسفے بھی موجود ہیں اور زندگی کی چھوٹی موٹی سچائیاں بھی۔ اس شاعری میں زندگی کے وہ عمیق تجربے جھلکتے ہیں جن کو عام آدمی محسوس نہیں کرپاتا، اور اگر کرتا ہے تو بیان کے لیے اس کے پاس لفظ نہیں ہوتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جون کے یہاں وجود کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے انسان کے وجود اور خود اپنی ذات کے سراب کو کھنگالنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے روزمرہ کے الجھے الجھے خیالات کو شاعری کے سانچے میں ڈھال کر یوں ہی گنگنا رہا ہے۔ ان کی شاعری پراداسی کا جو غلبہ ہے، اس نے ان کی شاعری میں شعریت کے عناصر کی چمک کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مگر جون ایلیا کے شعرپاروں کی مایوسی اپنے ذاتی خسارے اور زندگی کے اس نفسیاتی کرب کی نمائندہ ہے جو انسان کے زیاں کے احساس کو دوچند کردیتا ہے:
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی
جون ایلیا کے یہاں یادیں خون کے اُس تھوک کی طرح ہیں جو کبھی منہ میں کڑواہٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو انہیں باہر کا راستہ دکھادیا جائے۔ سلیم احمد نے ایسے عشق کو لمحاتی صداقت کا نام دیا ہے۔ لیکن یہ لمحاتی صداقت نئے دور کی مجبوری بھی ہے اور مزاج بھی۔ جون ایلیا کے یہاں قربت، فراق کا سب سے بڑا اشارہ اس لیے بن جاتی ہے کہ کارپوریٹ والی دنیا میں عشق کا دامن حسن کے ہاتھوں میں آتا رہے گا اور نکلتا رہے گا۔ نئی زندگی چھوٹی چھوٹی ہجرتوں کا سامان کرتی رہتی ہے۔ ایسے میں کسی ایک شے سے دل لگا کر بیٹھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جب جون ایلیاکہتے ہیں:
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سماج میں پنپنے والی نئی زندگی کو بہت اچھی طرح قبول کرلیا ہے۔ جون ایلیا اسی زندگی کی حقیقت سے نئی غزل کی تعمیر کرتے ہیں۔

حصہ