شرمناک‘ ٹوئٹ کے بعد ‘ اسنیپ چیٹ‘ ویڈیو

438

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا شرمین عبید کی چند ٹوئٹ کے بعد خود ہی ایک دلچسپ موضوع بنا رہا۔ لبرلز اور بنیاد پرستوں کے مابین مختلف ایشوز پر محاذ آرائی جاری رہتی ہے مگر اِس بار تو سب ایک ہوگئے۔ کیا لبرل، کیا فاشسٹ، کیا اسلامسٹ، کیا غیر اسلامی… سب نے خوب ہاتھ صاف کیا۔ ایسے میں دو روز قبل ہی معروف پاکستانی اداکارہ و فیشن ڈیزائنر ہانیہ عامر نے ہوائی سفر کے دوران ایک اور معروف سماجی رابطوں کی موبائل ایپلی کیشن ’’اسنیپ چیٹ‘‘ پر ایک ویڈیو لوڈ کی۔ ویڈیو میں وہ اپنی جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر اسنیپ چیٹ پر کسی سے چیٹ کررہی ہوں گی، مگر اس دوران اُنہوں نے محسوس کیا کہ ویڈیو فریم میں اُن کی سیٹ کے عقب میں بیٹھا ہوا شخص بھی آرہا ہے اور اُسے یہ بات سخت ناگوار گزر رہی ہے کہ وہ اُس خاتون (ہانیہ) کی پرائیویٹ ویڈیو کا حصہ بن رہا ہے۔ یہ بات جب ہانیہ نے محسوس کی تو اُنہوں نے باقاعدہ اس بات کو نوٹس میں لاتے ہوئے پیچھے بیٹھے اُس ناواقف مرد مسافر کو اُس کی اجازت کے بناء اپنی ویڈیو میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ خود ہانیہ نے چیٹ پر اپنی گفتگو میں اس بات کا اقرار کیا کہ وہ اُس شخص کی ناگواری کی کیفیت کو ویڈیو میں لانا چاہ رہی ہیں، جب کہ اُن کے ساتھ موجود دیگر افراد اُن کی اس حرکت پر ہنس رہے ہیں۔ اداکارہ ہانیہ نے ویڈیو تو شاید مذاق میں بنائی تھی لیکن انہیں اپنا یہ مذاق بے حد بھاری پڑگیا۔ سوشل میڈیا پر ہانیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ ’’اگر یہی حرکت اداکارہ ہانیہ کی جگہ کوئی آدمی کرتا اور اپنے پیچھے بیٹھی خاتون کی بغیر اجازت تصویر لینے کی کوشش کرتا تو اب تک معاملہ سنگینی اختیار کرچکا ہوتا اور بغیر اجازت خاتون کی تصویر لینے کی کوشش کرنے پر سوشل میڈیا پر اس شخص پر خوب تنقید کی جاتی، لیکن یہاں ہانیہ عامر یہی حرکت کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور ایک شخص کی نجی زندگی میں مداخلت کرکے اُسے مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور ان کی اس حرکت کو نظرانداز کیا جارہا ہے‘‘۔
اس کا آغاز یوں ہوا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو پیشے کے لحاظ سے فلم ساز ہیں، امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، یہاں آکر کئی دستاویزی فلمیں تیار کیں جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی اور کامیابی بھی ملی۔ اتفاق سے جن دو دستاویزی فلموں پر انہیں آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا وہ دونوں پاکستانی معاشرے کے ایک انتہائی حساس پہلو پر مبنی تھیں۔ پہلی فلم 2012ء میں ’سیونگ فیس‘ تھی جس کا موضوع خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات سے متعلق تھا۔ دوسری فلم2015ء میں ’دی گرل ان دی ریور‘ تھی جس کا موضوع خواتین کا عزت/ غیرت کے نام پرقتل تھا۔ ان دونوں فلموں سے جہاں اُنہیں کامیابی ملی وہاں پاکستان کو بدنام کرنے کے عنوان سے خاصی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ وہ ایک اینی میشن اسٹوڈیو کی بھی چیف ایگزیکٹو ہیں جس نے 2015ء میں پاکستان کی ایک مقبول ترین بچوں کی 3D کارٹون فلم ’’تین بہادر‘‘بنائی۔ اس فلم کو باقاعدہ سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ ریلیز کے ابتدائی دنوں میں یہ فلم پاکستان کی سب سے زیادہ کما کر دینے والی ساتویں فلم بن گئی۔ اس کے بعد 2016ء میں اس فلم کا سیکوئیل یعنی دوسرا حصہ ریلیز ہوا، جس نے دوبارہ ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ یوٹیوب کے صرف ایک چینل پر یہ کارٹون فلم اب تک چالیس لاکھ بار دیکھی جا چکی ہے۔ مذکورہ خدمات پر انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز، فلمی دنیا کے سب سے بڑے آسکر اکیڈمی ایوارڈز، ٹیلی ویژن کی دنیا کے سب سے بڑے امریکی ایمی ایوارڈ، پاکستانی لکس اسٹائل ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکاہے۔ ارے نام تو بتایا ہی نہیں… ذکر ہورہا ہے فخرِ پاکستان، ہلالِ امتیاز محترمہ ’شرمین عبید چُنائے‘ کا۔ مگر بات تو سوشل میڈیا کی ہورہی تھی۔ تو اب آتے ہیں اصل واقعے کی جانب، جس کی تفصیلات شرمین صاحبہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں جاری کردہ بیان سے ملیں۔
محترمہ کی ٹوئٹس کے مطابق اُن کی بہن کراچی کے سب سے معروف ہسپتال کی ایمرجنسی میں علاج کی غرض سے گئیں، بعد ازاں اُن کو اٹینڈ کرنے والے ڈاکٹر نے انہیں فیس بک پر فرینڈ بننے کی درخواست بھیج دی۔ ڈاکٹر کی جانب سے فرینڈ کی درخواست بھیجنے کے اس عمل کے بارے میں جب شرمین کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے اس عمل پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کوئی سات کے قریب ٹوئٹس کردیں، جن کا مجموعی مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’پاکستان میں کسی چیز کی کوئی حد ہی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر جو ایمرجنسی مریضوں کو اٹینڈ کررہا ہو، وہ یہ سوچے کہ کسی خاتون مریض کی معلومات نکال کر اُسے فیس بک پر اپنے ساتھ شامل کرے۔ یہ انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے۔ بدقسمتی سے اُس ڈاکٹر نے غلط خاتون اور غلط خاندان کے ساتھ گڑبڑ کی ہے اور اب میں اس کی رپورٹ ضرور کروں گی، خواتین کو ہراساں کرنے کے عمل کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
23اکتوبر کی دوپہر چند منٹوں کے دوران کی جانے والی یہ ٹوئٹس اہلِ سوشل میڈیا پر برق بن کر گریں۔ اتنی بڑی سیلیبرٹی اور اتنی لبرل خاتون نے ’’اتنی بڑی‘‘بات کردی! فیس بک پر دوستی کی درخواست بھیجنے کو خواتین کو ہراساں کرنے سے تشبیہ دے ڈالی! بس پھر کیا تھا، عوام کو تو مسالہ چاہیے تھا وہ مل گیا۔ پھر چاروں طرف سے ایسی دھلائی شروع ہوئی کہ کیا فیس بک، کیا ٹوئٹر، کیا بلاگ، کیا واٹس ایپ ایک دن تو ٹوئٹر پر ٹرینڈ بن گیا۔ کسی نے ٹوئٹ میں پاکستان کا لفظ استعمال کرنے پر سخت ردعمل دیا، کسی نے ٹوئٹ میں لفظ ’’رانگ وومن‘‘ اور ’’رانگ فیملی‘‘ کے الفاظ پر خوب دھویا۔ شرمین عبید کی خود ایسی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں وہ ایک ہالی ووڈ فلمساز کے ساتھ موجود ہیں، جو خود خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ نت نئے طنزیہ کمنٹس اور بے لاگ تجزیوں کی بہار آگئی۔ ’’شرمین عبید نے لفظ harassment کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو عمران نے لفظ ’تبدیلی‘ سے کیا۔ ایک دوست لکھتے ہیں کہ ’’شرمین چنائے نے اتنا شرمناک کردیا ہے کہ کسی بھی خاتون کو’’ہریسمنٹ‘‘ بھیجنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی!‘‘ اسی طرح اس عمل کو لوگوں نے سیلیبرٹی پاورکا غلط استعمال قرار دیتے ہوئے کھود کھود کر شرمین عبید کے ماضی کو کھنگالا۔ ’’محترمہ شرمین عبید چنے والی کا اصلی چہرہ! اپنی بہن کو ایک فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے پر اتنا بڑا پبلسٹی اسٹنٹ بنانے والی محترمہ حاجن شرمین چنے والی نے کس طرح اس غریب ایسڈ وکٹم کا فائدہ اٹھاکر کروڑوں کمائے اور پھر اس کو بے یارومددگار چھوڑ کر کنارا کرگئیں۔‘‘ برطانیہ سے عائشہ غازی نے جو خود بھی دستاویزی فلمیں بناتی ہیں، معروف بلاگر ہیں، مذکورہ خاتون کے ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ’’شرمین عبید کی اخلاقیات، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کا اصل چہرہ‘‘ کے عنوان سے تبصرہ کیا کہ ’’اپنی بہن کو کوئی فیس بک پر صرف فرینڈ ریکویسٹ بھیج دے تو اُس کے حقوق پامال ہوجاتے ہیں، لیکن کیا ایک مظلوم عورت کو استعمال کرکے پھینک دینے پر بھی اخلاقیات لاگو ہوتی ہیں؟ وہ مظلوم عورت جس سے اُس کا چہرہ ایک ظالم مرد نے چھین لیا اور رشتے دار ایک ظالم عورت نے۔ شرمین عبید اور اس عورت پر تیزاب پھینکنے والے کی اخلاقیات میں کیا کوئی فرق ہے!‘‘ واضح رہے کہ یہ اُس خاتون کی ویڈیو تھی جس کی کہانی پر شرمین عبید نے 2012ء میں مالی معاونت کے وعدے کرکے اپنی آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم بنائی تھی مگر بعد ازاں اُسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔
بہرحال اس عمل کی وجہ سے سوشل میڈیا پر یہ اہم موضوع بن گیا کہ کیا کسی انجان خاتون کو فیس بک پر دوستی کی درخواست کرنا اُس کو ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے؟ خاتون کو ہراساں کرنے اور غیر اخلاقی عمل کے درمیان فرق کی نئی لکیر بھی کھینچ دی گئی؟ اب دوبارہ ہانیہ عامر کی ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر اُس کے اس عمل کو اسی طرح خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا اور اسے بھی ’’ہراساں‘‘ کرنے سے تشبیہ دی گئی۔ ارم عظیم فاروقی (سابق ایم پی اے) نے ہانیہ کے عمل کو ’’سخت برا‘‘ قرار دیا۔ عدیل راجا نے اپنی ٹوئٹ میں اسے ’’ واضح طور پر ہراساں کرنا‘‘ قرار دیا، فیضان لاکھانی کہتے ہیں کہ ’’تصور کریں اگر یہی حرکت کوئی مرد کرتا تو ایک کہرام مچ جانا تھا‘‘۔
یہ تو تازہ تازہ واقعہ ہے، شرمین والے واقعے پر تو معروف ٹی وی اینکر اویس منگل والا نے لاہور یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے فیس بک پر بنائے گئے ایک ایونٹ کو شیئر کیا جس کا عنوان ہی یہ تھا کہ ’’سینڈ فرینڈ ریکویسٹ ٹو شرمین عبید‘‘، آخری وقت تک اُس ایونٹ میں ستائیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اسی طرح ایک جانب معروف ٹی وی اینکر و سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ وقار ذکاء نے شرمین عبید کی شکایت پر نوکری سے برخواست کیے جانے والے ڈاکٹر کی نوکری واپس دلوانے کے لیے فیس بک لائیو پر ایک نشریات کرکے خوب بینڈ بجایا، دوسری جانب جیو نیوز کے معروف اینکر شاہ زیب خانزادہ میدان میں اُترے اور شرمین عبید کے پاکستان پر احسانات گنوائے۔ عثمان غازی نے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے مختلف اذہان کی تشریح کرتے ہوئے وضاحت کردی کہ ’’شرمین عبید چنائے کی بہن کو جس ڈاکٹر نے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی، وہ چار بچوں کا باپ ہے، وہ کسی نیک مقصد کے لیے تو فرینڈ ریکویسٹ نہیں بھیج رہا تھا، ایسے میں کیسا ردعمل دینا چاہیے؟ فیس بک پر کسی لڑکی کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا ہراسمنٹ نہیں ہے مگر ایک ڈاکٹر کی نوعیت مختلف ہے، شرمین عبید چنائے نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ فیس بک پر کسی بھی لڑکی کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا ہراسمنٹ ہے، اس نے مخصوص کردار اور حالات کے تناظر میں احتجاج کیا‘‘۔ معروف بلاگر کاشف نصیر اس معاملے پر اس رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’’شرمین عبید چنائے کی پوسٹ کا مذاق بننا تھا، سو بنا۔ لیکن یہ معاملہ مذاق سے بڑھ چکا ہے اور اس کی تلخی ایک ابھرتے ہوئے معالج کے کیریئر کو لے ڈوبی ہے۔ آغا خان اسپتال نے دبائو میں آکر جس سرعت سے کارروائی کی ہے، وہ حیرت انگیز نہ سہی، افسوسناک ضرور ہے۔ شرمین ایک سیلیبرٹی ہیں، ان کی ہمشیرہ ہدیل اسپورٹس جرنلسٹ ہیں۔ اگر ڈاکٹر کی نیت خراب ہوتی تو وہ اُن کی فیس بک کی پبلک آئی ڈی کے بجائے، ڈیٹا سے نمبر نکال کر واٹس ایپ پر کال یا میسج کرتا۔ بچپن سے مولویوں سے سنتے آرہے ہیں کہ نظروں کا بھی زنا ہوتا ہے لیکن فیس بک فرینڈ ریکویسٹ کے پیچھے جنسی ہوس اور بھوک کارفرما ہوتی ہے، یہ شرمین عبید چنائے سے پتا چلا۔ ایک ایکٹیوسٹ سے پوچھا کہ اپر کلاس کی خواتین کو ایک طرف تو اپنے معاملے میں فرینڈ ریکویسٹ بھی ریپ معلوم ہورہا ہے لیکن دوسری طرف جب وہ ارشد چائے والا کی تصویر انسٹاگرام پر ڈالتی ہیں تو انہیں یہ باتیں یاد نہیں آتیں؟ شرمین کی ہمشیرہ کو اگر مذکورہ ڈاکٹر کی شکل پسند نہیں تھی تو وہ موصوف کو بلاک کردیتیں یا طریقہ کار کے مطابق اسپتال انتظامیہ تک اپنی شکایت پہنچا دیتیں۔ یوں سوشل میڈیا پر چار بچوں کے باپ پر ناحق ہراسمنٹ کا الزام لگانا، ان کے اپنے مقام و مرتبے کے شایانِ شان نہ تھا۔ ایک ہفتے بعد 31 اکتوبر کو شرمین عبید نے اپنے بیان سے اس حد تک رجوع کیا کہ ’’شاید میری جانب سے چنے گئے الفاظ درست نہیں تھے‘‘، مگر معلومات لیک ہونے کو وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے مترادف قرار دیتی ہیں اور اس طرح دوستی کی درخواست کرنے پر وہ اُسے ہراساں کرنے کے ہی مترادف سمجھتی ہیں۔ ویسے اتنی طاقتور ٹوئٹس کے بعد آغا خان ہسپتال نے مذکورہ ڈاکٹر کو نوکری سے بھی نکال دیا۔ 31 اکتوبر کو معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر اُن کا یہ مؤقف بھی شائع کیا جس میں اُن کاکہنا تھاکہ ’’مریض ڈاکٹروں پر ایک خاص اعتماد کرتے ہیں اور جب یہ اعتماد توڑا جائے تو یہ ایک اخلاقی خلاف ورزی ہے‘‘۔ سینئر صحافی غلام مصطفی نے فیس بک کی پروفائل سیٹنگ میں موجود ایک آپشن کے اسکرین شاٹ کے ساتھ ایک مدلل بات تحریر کی ’’فیس بک پر اس آپشن کا مطلب ہوتا ہے ’’دعوتِ عام‘‘… جسے آپ بند نہ کریں اور کوئی آپ کو دوستی کی درخواست کردے تو قصور وار آپ خود ہوتے ہیں۔ محترمہ شرمین عبید چنائے نے اپنی بہن سے پوچھا کہ انہوں نے دعوتِ عام کا یہ آپشن کھلا کیوں رکھا…؟ ڈاکٹر نے اگر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی ہے تو وہ عین قانون کے مطابق بھیجی ہے، لہٰذا اگر اسپتال ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو وہ خلافِ قانون ہوگی، کیوں کہ فیس بک پر آپ کی اجازت سے ہی کوئی آپ سے بات کرتا ہے۔ پاکستانی قوانین کے مطابق اس معاملے کو ہراسانی قرار دینا کچھ مشکل ہوگا۔ فیس بک ریکویسٹ، جو کہ قبول یا مسترد کی جا سکتی ہے، ہراسانی نہیں ہے اور اسے پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت کسی عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا ہراسانی کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ شرمین عبید جیسی خاتون اس ملک کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں‘‘۔ بہرحال شرمین کی ٹوئٹ کے بعد اب ہانیہ کی تازہ ویڈیو نے سوشل میڈیا پر اس ہفتے جگہ بنالی ہے۔

حصہ