درد کا درماں

269

صائمہ افروز
’’امی یہ خاتون کب جائیں گی؟‘‘ ثوبیہ نے دوسری بار دروازے سے اشارہ کیا تو ثمن نے اپنی گفتگو کو سمیٹا:
’’اچھا ٹھیک ہے پروین! تم گھر جاؤ، میں ثوبیہ کے ابو سے بات کرکے تمہیں جواب دیتی ہوں۔‘‘
’’جی اچھا باجی! میں پھر چکر لگالوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر پروین نے اپنی چادر سنبھالی اور کمرے سے نکل گئی۔‘‘
’’امی آج نانی کی طرف بھی جانا ہے، اتنی دیر ہوگئی ہے۔ کب سے یہ خاتون آئی بیٹھی ہیں۔‘‘ ثمن نے جب کچن کا رخ کیا تو ثوبیہ اس کی طرف آتے ہوئے بولی۔
’’جی بیٹا! مجھے یاد ہے، لیکن یہ بیچاری اتنی دور سے آتی ہے اور اپنی پریشانی بتارہی تھی تو اچھا نہیں لگا یہ کہنا کہ مجھے کہیں جانا ہے۔ اور نانی کا گھر کون سا بہت دور ہے جو ہمیں بہت دیر لگے گی جانے میں!‘‘ یہ کہہ کر ثمن نے کسٹرڈ بنانے کی تیاری شروع کردی۔ اس کی امی کو اس کے ہاتھ کا کسٹرڈ بہت پسند تھا اور آج اس کا ارادہ ہورہا تھاکہ وہ امی کے لیے بنا کر لے جائے۔ بہت دن ہوگئے تھے امی کی طرف گئے ہوئے۔ جب سے بچے بڑے ہوئے ہیں گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہر ایک کے اوقات الگ الگ۔
’’اب تم لوگ جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ تم لو گوں کی تیاری بھی گھنٹے سے پہلے نہیں ہوتی۔ اور ابو کو بھی کہہ دو۔‘‘ ثمن نے تیزی سے سجاوٹ مکمل کی اور ڈونگے کو فریزر میں رکھ دیا تاکہ ٹھنڈا ہوجائے۔ پھر وہ تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے میںچلی گئی۔
’’آج پروین آئی تھی دوپہر میں۔‘‘ جب نعمان کپڑے تبدیل کرکے کمرے میں آئے تو ثمن نے انہیں اطلاع دی۔
پروین کا شوہرکریم پہلے نعمان کے آفس میں ہی نوکری کرتا تھا۔ اور پروین نے اس سے شادی کرنے سے پہلے نعمان کے ذریعے ہی معلومات لی تھی۔ اسے ثمن اور نعمان پر بہت زیادہ اعتماد تھا۔
’’ہاں مجھے ثوبیہ نے بتایا تھا۔ خاصی دیر رکی، خیریت تو ہے؟‘‘ نعمان نے کتاب سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’’خیریت کہاں! وہی پرانا مسئلہ، شوہر نے پھر پٹائی کردی۔ اس کو سمجھایا بھی تھا کہ اس سے نہ کرے شادی۔ لیکن نہیں، اس پر تو اُس کی محبت کا بھوت سوار تھا۔‘‘ ثمن نے اس کو تفصیل بتائی۔
’’لیکن وہ مارتا کیوں ہے؟ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ اچھا خاصا سلجھا ہوا بندہ تھا۔ جب سے اس نے ہماری کمپنی کی نوکری چھوڑی ہے اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔‘‘
’’اس کی ایک ہی ضد ہے کہ پروین اپنی بیٹی کی شادی اس کے بھائی سے کردے، اور مردوں کے پاس بات منوانے کا یہی حربہ ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب! سبحان سے؟ وہ تو خاصا بڑا ہے اس کی بیٹی سے، اور تعلیم بھی کوئی خاص نہیں ہے۔‘‘
’’اسی لیے تو اس نے بھی انکار کردیا۔ لیکن کریم کو یہ بات کون سمجھائے!‘‘
’’اچھا میں اس کو بلا کر سمجھاتا ہوں، شاید سمجھ جائے۔‘‘
’’دیکھ لیں ورنہ میں تو پروین سے کہہ رہی تھی کہ اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزار لے۔ کریم کو تو ایک عدد نوکرانی کی ضرورت تھی، اب اس کی ضرورت بھی نہ رہی۔‘‘ ثمن نے کمرے کی لائٹ بند کرتے ہوئے کہا۔
ثمن کا تعلق ایک ایسے ادارے سے تھا جو خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا تھا۔ اس کے لیے وہ مختلف مقامات پر قرآنی کلاسز بھی کرواتی تھی، اس کے علاوہ سلائی سینٹرز اور دیگر رفاہی کام بھی ہوتے تھے۔ پروین سے اس کی ملاقات ایک قرآنی کلاس میں ہوئی تھی۔ اس کا تعلق خیبر کے علاقے سے تھا اور اپنے شوہر کے ساتھ وہ کراچی میں رہائش پذیر تھی۔ کسی نے اس کو بتایا تھا کہ ثمن بہت مدد کرتی ہے۔ یہ تقریباً چار سال پرانی بات ہے۔ اس کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر رہتی تھی۔ دو بچے تھے جو اسکول میں پڑھتے تھے۔ دو سال پہلے اس نے اپنے شوہر کے ماموں کے لڑکے سے شادی کرلی۔ وہ خود بھی شادی شدہ تھا اور اس کے تین بچے تھے۔ لیکن اپنی بیوی کی بیماری کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھا، بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا تھا، تو اس نے پروین سے شادی کا ارادہ کیا۔ پروین نے ثمن سے مشورہ کیا تو اس نے منع کیا۔ وہ پہلے ہی گھر بار والا تھا۔ لیکن نہ جانے کریم نے کون سی پٹی پڑھائی اُسے کہ وہ شادی کے لیے تیار ہوگئی۔ پھر اس نے دن رات اپنی سوکن اور اُس کے بچوں کی خدمت کی۔
لیکن پروین کو پہلی چوٹ اُس وقت لگی جب کریم نے اس کے بیٹے کو اپنے گھر میں یہ کہہ کر رکھنے سے انکار کردیا کہ اس کی بچیاں جوان ہورہی ہیں۔ وہ بیچاری، دکھیاری اپنے لختِ جگر کو چھوڑنے پر راضی نہ تھی، لیکن اس کو نہ چھوڑتی تو اپنا گھر تباہ کربیٹھتی۔ ماں باپ کے بہت سمجھانے پر اس نے اپنے دل پر پتھر رکھا اور بیٹے کو بہن کے حوالے کردیا۔ کچھ عرصے بعد کریم کی توجہ بھی اس سے ہٹنے لگی، کیونکہ اس کی پہلی بیوی جو صرف گھر کے کاموں سے بچنے کے لیے بیمار رہتی تھی، بھلی چنگی ہوگئی، اور گھر کے کاموں میں دلچسپی لینے لگی۔
اور اب یہ ایک نیا مسئلہ۔ یعنی کریم اپنے بھائی کا رشتہ اس کی بیٹی سیما سے کرنا چاہ رہا تھا، جس نے اسی سال کالج میں داخلہ لیا تھا، لیکن تھی بے انتہا خوبصورت اور سگھڑ۔ پروین بہت پریشان تھی اور وہ دو ماہ سے اپنا گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی تھی۔ ویسے تو اس کا اپنا بھی گھر موجود تھا، جو کہ اس کے پہلے شوہر نے اسے دیا تھا۔ لیکن اکیلے پن کی وجہ سے وہ ماں باپ کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ نعمان نے اسے سمجھانے کا کہا تو ہے لیکن اسے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی تھی۔ پروین نے ایک دن بعد آنے کا کہا تھا۔ ثمن نے اپنی دوست ثمینہ کو بھی بلا لیا تھا کیونکہ پروین سے اس کی بہت اچھی جان پہچان تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ دو لوگوں کے سامنے بات ہو تو اچھا ہے۔
’’ثوبیہ! سدرہ کہاں ہے؟ ابھی تک کھانے پر نہیں پہنچی۔‘‘ ثمن نے کھانا لگاتے ہوئے پوچھا۔
’’امی آپ کو تو معلوم ہے وہ کتنی سست ہے۔ پہلے تو وہ ایک گھنٹہ سوئے گی، پھر محترمہ کو کچھ سُجھائی دے گا۔‘‘ ثوبیہ، سدرہ کی اس عادت سے بڑی نالاں تھی، کیونکہ اس وجہ سے کھانا دیر سے لگتا، جبکہ اسے اسکول سے آنے کے بعد فوراً کھانا چاہیے ہوتا۔ لیکن ثمن ایک ساتھ ہی کھانا کھانے پر زور دیتی۔
’’بیٹا ساتھ مل کر کھانے میں برکت ہوتی ہے اور آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔‘‘ وہ ہمیشہ بچوں کو یہی سمجھاتی۔
’’بیٹا آپ دونوں کھانا کھالو! میں آپ کی آنٹی کا انتظار کروں گی۔‘‘ آج پروین کو آنا تھا اس لیے اُس نے ثمینہ کو بھی بلا لیا تھا۔
’’اچھا جبھی کھانے پر اتنا اہتمام ہے!‘‘ سدرہ نے امی کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، تم لوگوں کو جیسے میں اچھا کھانے کو نہیں دیتی۔‘‘ ثمن نے ہنستے ہوئے کہا۔
اتنے میں گھنٹی کی آواز آئی۔ ماسی نے دروازہ کھولا تو ثمینہ نے زور سے سلام کیا۔ بچیوں نے بھی بہت خوش ہوکر جواب دیا۔ ثمینہ کے آنے سے بچے بھی خوش ہوجاتے کیونکہ وہ کافی بدلہ سنج اور اچھے مزاج کی تھی۔
’’اوہو! کھانا کھایا جارہا ہے جناب۔‘‘ اس نے چھوٹی سدرہ کی ناک پکڑتے ہوئے کہا۔
’’جی! اب آپ بھی آجائیں جلدی سے۔ امی آپ کا انتظار کررہی ہیں۔‘‘ سدرہ نے اپنی ناک چھڑاتے ہوئے کہا۔
’’ثمینہ کھانا کھالو۔ پروین کا فون آیا ہے وہ گھر سے نکل چکی ہے، آدھے گھنٹے میں پہنچ جائے گی۔‘‘
’’سدرہ بیٹی آپ ذرا بہن کے ساتھ مل کر برتن سمیٹ لینا اور چائے تیار کرلینا۔‘‘ ثمن نے کھانا کھاتے ہو ئے کہا۔
’’جی اچھا امی! آپ فکر ہی نہ کریں۔‘‘ سدرہ نے ثوبیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’امی آپ اس کو رہنے دیں۔ اس نے چائے کم چیزیں زیادہ بکھیرنی ہوتی ہیں۔‘‘
’’اسی طرح اس کو کام کرنا آئے گا۔ تم چیزیں ہی سمیٹ لو بہن کے ساتھ مل کر۔‘‘ یہ کہہ کر ثمن اندر کمرے میں ثمینہ کے پاس چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں پروین بھی پہنچ گئی۔
’’اور سناؤ تمہارے بچے کیسے ہیں؟‘‘ ثمینہ نے پروین کو دیکھ کر فوراً ہی پوچھا۔
’’کیا بتاؤں باجی! بیٹا جب سے گھر سے نکلا ہے، بیمار رہنے لگا ہے۔ وہ اکیلا ہی ملتان سے کراچی آیا۔ نہ راستوں کا پتا تھا نہ ہی گاڑیوں کا، معلوم نہیں راستے میں اس پر کیا گزری۔ اس کے بعد سے ہی سہم گیا ہے۔‘‘
’’کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤ تاکہ صحیح سے علاج ہوسکے۔ اچھا اب بتاؤ تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘ ثمینہ نے اصل مسئلے کی طرف اشارہ کیا۔
’’سوچنا کیا ہے باجی! کریم مجھ سے محبت تو بہت کرتا ہے، لیکن اس نے اب ضد پکڑ لی ہے۔‘‘
’’تم بھی ایک دم پاگل ہو۔ اب بھی اُس کے گن گا رہی ہو! یہ کیسی محبت ہے جو عقل سے اندھی ہے۔‘‘ ثمن نے غصے سے کہا۔
’’شادی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ تم اپنے بچوں کا مستقبل دیکھو۔ کب تک یہ رُلتے رہیں گے۔ ابھی تم جوان ہو، تمہارے لیے کھلے راستے ہیں، تم اپنا کام کرلو تاکہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہوسکو۔ عورت تو بہت مضبوط ہوتی ہے اور اسے بہت مضبوط ہونا چاہیے تاکہ طوفانوں کا مقابلہ کرسکے۔‘‘
’’تو باجی! آپ ہی بتائیں کیا کروں؟ آپ اور ثمن باجی جو کہیں گی میں وہی کروں گی۔‘‘
’’ہمارے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اصل قدم تو تم کو ہی اٹھانا ہے۔ اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔ شادی برقرار رکھوگی تو بچے بکھر جائیں گے اور ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی، جبکہ تم خود بھی ذہنی مریضہ بن گئی ہو۔ لیکن اگر تم کہتی ہو تو ہم تمہارے شوہر سے بات کرتے ہیں۔ لیکن کیا وہ سمجھ جائے گا اور اپنی حرکتوں سے باز آجائے گا، اس بات کی کیا گارنٹی ہے؟‘‘
’’بہت دنوں سے پروین نہیں آئی، خیریت تو ہے ناں؟‘‘ نعمان نے کھانے کے دوران پوچھا۔
’’میں خود بھی پریشان ہوں، فون بھی بند جارہا ہے ۔ بہت دنوں سے کلاس میں بھی نہیں آرہی ہے۔‘‘ ثمن نے بھی پریشانی ظاہر کی۔ اتوار کا دن تھا اسی لیے نعمان بھی دوپہر کے کھانے پر گھر میں تھے۔
’’اچھا میں ذرا آرام کرلوں… پھر شام کو امی کی طرف چکر لگا لیں گے۔‘‘ نعمان نے اپنے کمرے کی طرف رخ کیا۔
ثمن بچیوں کے ساتھ مل کر کچن سمیٹ رہی تھی۔ اس کی عادت تھی کہ وہ ہر کام میں بچیوں کو اپنے ساتھ لگا لیتی، اس طرح بچیاں الجھتی بھی نہیں تھی اور پورے دن کی روداد بھی ان سے سن لیتی۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ اتوار کی وجہ سے ماسی کی چھٹی تھی، اس لیے دروازے پر ثمن گئی۔
’’السلام علیکم باجی…‘‘ پروین نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’وعلیکم السلام… بڑی لمبی عمر ہے تمہاری، ابھی کھانے پر نعمان تمہارا ہی پوچھ رہے تھے، کہاں چلی گئی تھیں…؟ تین مہینے کے بعد شکل دکھا رہی ہو، اندازہ ہے میں کس قدر پریشان ہوگئی تھی!‘‘ ثمن نے پروین کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’جی باجی! اندازہ ہے، لیکن کیا کروں… بہت مصروفیت ہوگئی تھی… کل ہی فارغ ہوئی تو سب سے پہلے آپ سے ملنے آگئی ہوں۔ آپ سے مل کر گئی تو یہی سوچتی رہی کہ کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، اور سچ پوچھیں تو ہمت بھی نہیں پڑ رہی تھی، لیکن کریم نے تو حد ہی کردی۔ مجھے کمرے میں بند کردیا کہ جب تک اس کی بات نہ مان لوں، وہ نہیں نکالے گا۔
دودن تک کچھ کھانے کو نہ دیا۔ یہ تو اللہ نے کرم کیا کہ اسے اچانک کسی کام سے شہر سے باہر جانا پڑگیا، تو میں نے اپنی سوکن کی منت سماجت کی اور وعدہ کیا کہ میں دوبارہ شکل نہیں دکھائوں گی۔ باجی! اسی روز دونوں بچوں کو لے کر امی کے پاس چلی گئی۔ نمبر بھی پھینک دیا تھا تاکہ کریم رابطہ نہ کرسکے۔ اس میں آپ کا نمبر تھا، تو اس لیے آپ کو فون نہ کرسکی۔‘‘ پروین سانس لینے کے لیے رکی۔
’’بس جی اس کے بعد میں نے پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا، اپنا گھر کھولا، اس کی صفائی ستھرائی کی، پھر امی اور چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اکیلے پن کا مسئلہ بھی ختم ہوا اور بچے بھی اب مطمئن ہیں۔ بیٹے کا ڈاکٹر سے علاج ہورہا ہے، پہلے سے کافی بہتر ہے۔ میں نے سلائی کڑھائی کا کام شروع کردیا ہے، بیٹی کو وہاں کالج میں داخل کرادیا ہے، فارغ وقت میں وہ میرے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب بہت سکون ہے زندگی میں۔‘‘
’’کریم تو تنگ نہیں کرتا؟‘‘ بہت دیر سے سوال میرے ذہن میں گھوم رہا تھا۔
’’شروع میں تو اس نے بہت چکر لگائے، مجھے ڈرایا دھمکایا بھی، لیکن باجی میں بھی اس بار ڈٹ گئی، آپ کی باتیں میری ہمت بندھاتی رہیں، میں نے بھائیوں کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، وہ کون سا کریم سے خوش تھے…! انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ پھر اس کی بیوی نے گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تو اس کے چکر ختم ہوئے۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے کہ تمہارے ساتھ تمہاری بیٹی کی زندگی بچ گئی…‘‘
’’جی…! اس کی وجہ سے ہی تو میں نے حوصلہ کیا، کریم تو اس کی زندگی خراب کردیتا… اب ہم بہت خوش ہیں… امی آپ کو دن رات دعائیں دیتی ہیں۔‘‘
’’پروین! اپنی امی کو میرا سلام کہنا۔ ہاں ایک اور بات کہ میں شادی کے خلاف نہیں ہوں، لیکن یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے، اور نہ انسانی زندگی اتنی ارزاں ہیں کہ سسک سسک کے گزار دی جائے۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے تدابیر بھی اختیار کرنے کو کہا ہے۔

حصہ