جدید چڑیا کا دانہ

244

افسانہ مہر
چڑیا سے کون واقف نہیں… لڑکیاں، لڑکے، بچے، بوڑھے، جوان سب جانتے ہیں کہ چڑیا… ’’کس ثریا کا نام ہے‘‘ معصوم، بے ضرور اور مسحور کر دینے والی چہچہاہٹ رکھنے والی چڑیا معصوم زندگیوں سے معصومیت کے اوائل میں ہی جڑ جاتی ہے۔ اور پھر بڑھاپے تک حسین احساسات کی رمق زندگی میں جگاتی رہتی ہے۔ بالکل درست… اس چڑیا اور اس کے ان سنٹ جذبات کی تعمیرات سے ہم بالکل بھی انکار نہیں… لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج اس نعمت سے لطف اندوز ہونے والے اور اس حقیقت کا ادراک و اقرار کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہی ہو رہی ہے۔ کیونکہ ’’جدید چڑیا‘‘ آگئی۔ ماضی کے پڑھائے سبق میں چڑیا دانا لاتی اور کھچڑی پکاتی دکھائی جاتی تھی۔ لیکن آج معصوم بچوں کو معصومیت کے دور میں دکھائی جانے والی شے چڑیا کے بجائے موبائل اور ٹیب ہیں۔ اس موبائل اور ٹیب میں فطرت کی تخلیقی چہچاہٹ نہیں بلکہ انسانی ذہن کی تراشیدہ گنگناہٹ ہے۔
4 ماہ اور اس سے بڑے بچوں کو مسلسل شوق اور توجہ سے دکھائی جانے والی تصاویروں، سنائی جانے والی نظموں اور کہانیوں میں جو گنگناہٹ محفوظ ہے، جو رنگ مقید ہیں اور جو سبق پوشیدہ ہے وہ معصوم ذہن معصوم اخلاق اور معصوم کردار پر گہرے اثرات منتقل کرکے خاص پیکر تراش رہا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کچھ دنوں قبل کا اقصہ ہے کہ ہم نے ڈیڑھ سالہ بچہ کو شدید گرمی میں بوسکی کی میرون شیروانی اور نیکر اور جوتوں میں گھر کے باہر کھڑے پایا تو حیرت و مسکراہٹ سے لبریز تاثرات میں… برابر میں بیٹھے بچے کے والد سے پوچھا کہ اتنی گرمی میں یہ گرم شیروانی… کیا ہو گیا تمہیں؟ بچے کی جان لوگے؟ والد نے انتہائی لاچاری سے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مانتا ہی نہیں۔ رو، رو کر برا حال کر لیا… مجبوراً پہنائی ہے۔
اتنی معصوم عمر اور اتنی پختہ ’’ضد‘‘ ہم اپنے ہی خیالات خود کو سناتے اور کسی کے حوالے نہ کرتے ہوئے گھر میں چلے آئے۔
کیا بچہ خود بخود ضدی ہو گیا…؟؟
کوئی سوچتا ہی نہیں کہ اتنی بری عادت کس کی محبت سے اتنی سی عمر میں اس حد تک پروان چڑھ گئی۔ محابیات کی زندگی پر غور کریں… امہات اور مومنات کے طرز عمل اور طرز پرورش کو چھانیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ مائیں بچوں میں صبر، برداشت، اور تحمل جیسے اوصاف پروتی تھیں۔ مگر کیسے…؟؟
اسلاف کی تقلید اور سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسانی نفسیات اور جسمانی ضروریات کے تحت پیدا ہونے والی طلب کو ایک حد تک بہلانا کرداری ساخت میں صبر اور برداشت کی پرورش کرتا ہے۔ جلد بازی اور بے قراری کے رجحانات میں توازن لاتا ہے۔ لیکن جب طلب ضرورت میں تبدیل ہو جائے تو اس کو بروقت پورا کر دینے کا عمل جذبات میں ٹہرائو اور شکر کی کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ بچپن سے روزے کی تربیت کو جنم دیتا ہے۔ بچپن سے روزے کی تربیت ان ہی اوصاف کی تعمیر کرتی ہے اور امہات و موضات میں یہ طرز عمل کوب نظرآتا تھا۔ واہ… نسخہ اکسیر، عمدہ تدبیر، بہتر تعمیر کے ہلکے اور مضبوط انداز جواب متروک ہو چکے ہیں… کیسے متروک ہو گئے …؟؟
بس ایک ٹچ پر مطلوبہ کھیل، مطلوبہ جیت حاصل انتطار نہیں… تکلیف نہیں… نہ سانس پھولتا ہے نہ چوٹ لگتی ہے۔ جیسے ہم سہولت سمجھ کر اپنی نسلوں کی مہیا کر رہے ہیں کیا وہ ’…سہولت‘‘ ہے؟؟
ہمیں اپنے عمل اور اس عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اثرات پر بہت باریک بینی سے سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ