ٹیکساس چرچ میں قتل عام

291

سلمان علی
ایک وقت تھا کہ ہم کراچی میں آئے دن کوئی نہ کوئی بُری خبر بم حملہ، دھماکا، فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ، ہدفی قتل، ہڑتال اور دیگر ان جیسی خبروں میں گھرے رہتے تھے۔ اب حال یہ ہوا کہ چند روز قبل انٹرنیٹ و سوشل میڈیا سرفنگ کے دوران یکم نومبر کو امریکہ میں ہیلووین ( مذہبی تہوار)کے موقع پر نیویارک ٹرک حملے پر ہونے والی رپورٹنگ اور تجزیوں پر نظر ڈال ہی رہا تھا کہ امریکہ کی دوسری سب سے بڑی ریاست ٹیکساس میں 3 نومبر کو ایک 29 سالہ ماں کے ہاتھوں اپنی دو (5سالہ اور7سالہ) بیٹیوںکے لرزہ خیز قتل کی واردات پر امریکی عوام کے سخت تبصرے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ کچھ ہی دیر میں اسکرین پر مزید نئے نوٹی فکیشن کی آمد شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اُسی ریاست کی ایک اور کاؤنٹی میں واقع ایک چرچ پر بدترین دہشت گردی کی کارروائی رپورٹ ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ تفصیلات آنا شروع ہوئیں تو امریکی پالیسیوں کا بدترین، کریہہ اور شرمناک چہرہ ایک بار پھر نمایاں ہوتا چلا گیا۔ خبروں کا معاملہ ہی یہ ہے کہ 2 افراد کے قتل کے بعد اگر 26 لوگوں کے قتل کی واردات کا معاملہ آجاتا ہے تو ساری توجہ کا رُخ وہیں مڑ جاتا ہے۔ پھر حملہ بھی ایسا جو کہ امریکہ کی کسی مسجد میں نہیں بلکہ ایک گرجا گھر میں ہوا، وہ بھی اتوار کے دن، یعنی دورانِ عبادت۔ یہ بالکل ایسا ہی دن ہوتا ہے جیسا کہ مسلمانوں میں جمعہ۔ رات زیادہ ہوگئی تھی اس لیے اسکرین بند کی اور آرام کو ترجیح دی۔ واردات کے دو دن بعد امریکی اخبارات اور بیانات کا جائزہ لینا شروع کیا جو انتہائی اختصار سے پیش خدمت ہیں۔ ویسے آپ بھی سوچیں گے کہ امریکی اخبارات یا دیگر ابلاغی اداروں کی رپورٹنگ اور تجزیوں سے ہمیں کیا لینا دینا! مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی ماچو پیچو، ایتھوپیا، مالی نہیں… بلکہ اِس وقت دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک کا معاملہ ہے، جس کی غیر اعلانیہ غلامی میں ہمارے جیسے کئی ممالک کے حکمران شامل ہیں۔ وہیں سے ہمارے ملک کے خزانے کے اخراجات کا فیصلہ ہوتا ہے، وہی ہماری خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں مکمل اختیار جماتے ہیں، اُنہی کا برگر، اُنہی کی پینٹ، اُنہی کا کلچر، تعلیمی ادارے، زبان ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ اس اہم اور گہرے تعلق کو ذہن میں رکھ کر وہاں کے حالات اور وہاں کے زبان وبیان کو جاننا نہایت ضروری ہے تاکہ پتا توچلے کہ ’’مائی باپ‘‘کے اپنے دیس میں کون سی خوشحالی اور امن کی گنگا بہ رہی ہے؟ جسے وہ اپنے باج گزار ممالک میں بھی بہانے پر تلا ہوا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی 6 نومبر کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق ’’یہ ریاست کی تاریخ کے بدترین قتل عام کا واقعہ تھا‘‘، مگر اہم بات یہی ہے کہ یہ دہشت گردی نہیں۔ واقعے کی تفصیل کے مطابق ’’ٹیکساس کی کاؤنٹی میں واقع فرسٹ بیپٹسٹ چرچ میں اتوار کے دن معمول کی عبادت جاری تھی۔ صبح 11بج کر 20 منٹ پر ڈیون پیٹرک کیلی نامی سفید فام چرچ کے باہر اپنی گاڑی سے اترا۔ اُس نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا اور چہرے پر ماسک بھی لگایا ہوا تھا۔ چرچ کے باہر سے اُس نے فائرنگ شروع کی اور فائرنگ کرتا اندر داخل ہوا۔ اُس کے پاس جدید آٹومیٹک ہتھیار کے ہمراہ 15کے قریب لوڈڈ میگزین موجود تھے۔ باہر 2 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بقیہ 24 مرد و خواتین چرچ کے اندر ہلاک ہوئے۔ باہر نکل کر اُس نے اطراف میں کھڑے مقامی لوگوں پر بھی فائر کیے۔ مرنے والوں کی عمریں 18 تا 77سال کے درمیان پائی گئیں۔‘‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی خاصی گرما گرمی رہی۔ ایک جانب کالوں اور گوروں کے درمیان بحث چھڑ گئی، مگر چونکہ یہاں دونوں جانب سفید فام ہی تھے اس لیے زیادہ دیر بحث چل نہیں سکی۔ ایک اور طبقے نے اس عمل کا ذمہ دار امریکی اسلحہ پالیسی کو قرار دیا۔ ٹیکساس کے گورنر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’ہم بطور ریاست تاریخ کے بدترین قتلِ عام کے اس واقعے کو ڈیل کررہے ہیں‘‘۔ کسی نے ملحدین کی تحریک قرار دیا تو کہیں اینٹی ٹرمپ محرک پر بات کی گئی۔ بس دہشت گردی کہتے ہوئے شاید ان کی تحریروں سے جان نکل جاتی، البتہ ایک 24 salo امریکی معروف پاپ گلوکارہ ملی سائرس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس (ٹوئٹر اور انسٹا گرام) پر اسے سخت الفاظ میں’’سفید فام کی کھلی دہشت گردی‘‘ قرار دیا، ’’جس پر وہ شرمندہ بھی ہے اور اُس کا دل بھی ٹوٹا ہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اُس وقت اپنے ایشیائی دورے پر جاپان میں موجود تھے، اسلحہ استعمال کے حوالے سے قانون سازی پر چھڑنے والی بحث کو رد کرتے ہوئے جاپان میں بیٹھ کر اس حملے کو ذہنی مرض کا نتیجہ قرار دیا (وال اسٹریٹ جرنل،7نومبر(۔ لاس اینجلس ٹائمز (7نومبر، جین جروی) سمیت دیگر ابلاغی اداروں نے دو دن بعد دہشت گرد ڈیون کیلی کو دماغی مریض ثابت کرنے کا ماحول بنانا شروع کیا۔ مزید یہ کہ واشنگٹن پوسٹ اور سی این این کے تجربہ کار رپورٹروں نے بالآخر8 نومبر کو یہ بات دنیا کو ان الفاظ میں بتائی کہ’’”Texas gunman escaped mental health facility in 2012″۔ 26سے زائد لوگوں کے قاتل کے لیے اتنے خوبصورت الفاظ کا چناؤ امریکی میڈیا کو ہی زیب دیتا ہے کہ ٹیکساس کا بندوق بردار 5 سال قبل کسی دماغی صحت کے مرکز سے فرار ہوا تھا۔
اسی طرح نیویارک ٹائمز کی 6 نومبر کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایئرفورس نے اپنی ایک غلطی کا اقرار کیا ہے جس کے نتیجے میں کیون ہتھیار خریدنے میں کامیاب ہوا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ماضی میں اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی قتل کرچکا تھا جس کی وجہ سے اُسے امریکی فضائیہ کی نوکری سے نکال دیا گیا تھا، البتہ اُس کا ڈیٹا وفاقی ڈیٹا بیس میں نہیں ڈال سکے جس کی وجہ سے وہ گزشتہ چار برسوں میں ہتھیار خریدنے میں کامیاب ہوا۔ اُسی رپورٹ میں اس واقعے کو گھریلو تنازعے سے بھی جوڑنے کی مکمل کوشش کرتے ہوئے اسے کسی قسم کی ٹرمپ مخالف مہم، گوروں اور کالوں کی متعصبانہ مہم یا کسی مذہبی عقائد کے امکانات سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی۔
بی بی سی سمیت دیگر تمام بڑے مغربی میڈیا گروپس نے اس حملے کو سال کا تیسرا بڑا حملہ قرار دیا، جبکہ اُن کی گنتی یا پھر یادداشت کو بہتر کرنے کے لیے اُنہی کے خبر رساں اداروں سے سال بھر کی دیگر وارداتوں کی کچھ جمع کردہ تفصیل درج ذیل ہے:
14جون2017ء کے نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کی سُرخی یوں تھی :”Steve Scalise Among 4 Shot at Baseball Field; Suspect Is Dead”، اخباری رپورٹ کے مطابق ایک 66سالہ امریکی جیمس ہاجکنسن نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہوجانے پر ری پبلکن کانگریس کی بیس بال ٹیم پر دورانِ پریکٹس فائرنگ کردی، جس میں کانگریسی مرکزی رہنما اسٹیو کیلس اور ان کے چار ساتھی بری طرح زخمی ہوئے۔ حملہ آور نے دن دہاڑے دو بندوقوں (رائفل اور ہینڈ گن) سے لگ بھگ 66گولیاں فائر کیں اور پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا۔ اس واقعے کا بھی کوئی سرا میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوا، ماسوائے اس کے کہ وہ ایک دماغی مریض تھا۔21 جون کی نیویارک ٹائمز کی اشاعت میں ایف بی آئی کی اس کیس کے حوالے سے کارکردگی یوں سامنے آئی کہ “Congressman’s Shooting Likely a Spontaneous Act, F.B.I. Says” بہرحال یہ بھی صرف تین ماہ قبل کا واقعہ تھا جسے بآسانی دبا دیا گیا۔
رائٹرز نے 7 نومبر کو ایک خبر جاری کی کہ ’’کولوریڈو کا شہری ڈینور وال مارٹ اسٹور پر فائرنگ اور قتل کے جرم میں گرفتار‘‘، تفصیلات یہ ہیں کہ یکم نومبر کی شب اسکاٹ ایلن نامی 47 سالہ سفید فام شخص نے ڈینور شہر کے ایک وال مارٹ اسٹور میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو مرد ایک خاتون موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور قاتل فرار ہوگیا۔ دو دن بعد اُس کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ مجرم کا کوئی کرمنل ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔‘‘
8 اکتوبر: ایج وڈ بزنس پارک فائرنگ واقعہ، جس میں 37 سالہ ردی لبیب نامی سیاہ فام امریکی نے صبح نو بجے تین لوگوں کو فائرنگ سے ہلاک اور چھے کو زخمی کردیا تھا۔ اُسی شام مقامی پولیس کے ہاتھوں اس کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
یکم اکتوبر کی شب لاس ویگاس میں 64 سالہ سفید فام امریکی اسٹیفن پیڈاک نے موسیقی کے ایک پروگرام میں شریک سیکڑوں افراد پر فائرنگ کرکے 58 سے زائد کو ہلاک اور پانچ سو کے قریب لوگوں کو زخمی کردیا۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق اُس نے فائرنگ مکمل کرکے خودکشی کی۔ اس حملے میں 23 مختلف خودکار جدید ہتھیار استعمال ہوئے تھے جن میں اے کے 47، اے آر 15کے علاوہ ڈی ڈی ایم 4، ایف این 15رائفل استعمال ہوئیں۔
14جون کو سان فرانسسکو میں 38 سالہ ایشیائی نژاد جمی لیم نے اپنے تین ساتھیوں کو اندھادھند فائرنگ کرکے ہلاک اور دو کو شدید زخمی کردیا۔ اس نے پولیس کی وقوعہ پر آمد کے بعد اپنے آپ کو بھی فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق اسے بھی دفتری معاملات میں مختلف رویوں کی بنیاد پر ذہنی مریض قرار دیا گیا۔ اس حملے میں اُس نے میک ٹین اسٹائل کی تیس راؤنڈ پسٹل استعمال کی۔
5 جون 2017ء کو 45 سالہ جان رابرٹ نیومین نے اپنے سابقہ دفتر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کردیا اور وہیں موقع پر خودکشی کرلی۔ رپورٹوں کے مطابق اُسے تین ماہ قبل کمپنی نے نوکری سے فارغ کردیا تھا۔
12مئی کو اوہائیو میں 43 سالہ سفید فام تھامس ہارٹلیس نے نرسنگ ہوم میں گھس کر اپنی ایک سابقہ گرل فرینڈ، نرسنگ ہوم کے ایک اور ملازم اور مقامی پولیس افسر کو ہلاک کردیا۔ تھامس بھی موقع پر ہلاک ہوگیا تھا، جبکہ اخباری رپورٹوں کے مطابق پولیس کو دورانِ تفتیش اُس کے گھر سے مزید 5درجن آٹومیٹک ہتھیار ملے، اُس کی ذہنی صحت کو بھی مشکوک بتایا گیا کیونکہ اُس کی سابقہ متوفی گرل فرینڈ نے اُس سے بچاؤ کے لیے کورٹ آرڈر بھی لیا ہوا تھا۔
18اپریل کو کیلی فورنیا میں 39 سالہ سیاہ فام مسلمان، کوری علی محمد نے فریسنو کے بازار میں اندھا دھند فائرنگ کرکے تین لوگوں کو ہلاک کردیا، بعد ازاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوگیا۔ پولیس کے بیان کے مطابق اس واقعے کا مذہبی پس منظر نہیں، بلکہ سیاہ فام و سفید فام کے مابین کشمکش کو قتل کی وجوہات قرار دیا گیا۔
ریاست فلوریڈا کے شہر فورٹ لوڈرڈیل میں 6 جنوری کو 26 سالہ اسٹیبین سانتیاگو (لاطینی) نے الاسکا شہر سے فورٹ لوڈرڈیل کے ہوائی سفر کے بعد ایئرپورٹ کے سامان کے وصولیابی حصے میں اچانک اندھا دھند فائرنگ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کردیا جبکہ چھے زخمی ہوئے۔ رپورٹوں کے مطابق اُسے پولیس نے موقع پر گرفتار کرلیا۔
یہ سب وارداتیں ماس شوٹنگ یعنی قتلِ عام کی کیٹگری میں شامل ہیں جنہیں ہم نے نہیں بلکہ خود امریکی تحقیقاتی اداروں نے شامل کیا ہے۔ زیادہ تر وارداتوں میں مجرم نے یا تو خود اپنے آپ کو مار ڈالا، یا اگر پکڑا گیا تو بھی اُسے ذہنی مریض ثابت کرنے کی مکمل کوشش کی گئی۔
نیویارک میں یکم نومبر کو ہونے والے واقعے میں ٹرک کے روڈ پر چڑھ جانے کے واقعے کو دہشت گردی سے فوری تشبیہ دیتے ہوئے نیویارک کے میئر نے اسے دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی سے تشبیہ دی۔ اس واقعے میں ایک ٹرک ڈرائیور نے اپنا ٹرک فٹ پاتھ (بائیک پاتھ) پر چڑھا دیا جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ ٹرک ڈرائیور کو مقامی پولیس نے مقابلے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کرلیا۔ ازبکستان سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ شخص کو داعش سے بھی جوڑ دیا گیا، لیکن ذہنی مریض قرار دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چلیے ہم مان بھی لیں کہ یہ سب ذہنی مریض تھے، تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’قتلِ عام کرنے والا پاگل ہوتا ہے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا صرف امریکہ میں ہوتا ہے؟ پاکستان میں عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو امریکہ میں عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا پاگل کیوں؟ پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جہاز ٹکرانے والے پاگل کیوں نہیں؟

حصہ