اقبال کی شاعری پر فکری مباحث

1620

معراج رعنا
’’شاعر نہ فلسفی ہوتا ہے اور نہ نظریہ ساز۔ شاعری دنیا، عام علوم یا انسانی تجربوں یا اقدار کے بارے میں وہ باضابطہ مواد بھی فراہم نہیں کرتی جو فلسفے یا سماجی علوم سے حاصل کیا جاتا ہے، کیونکہ شاعری اساسی طور پر اس استدلال سے عاری ہوتی ہے جس کے بغیر کسی فلسفیانہ اور علمی تصور کو ثبات نہیں ملتا۔ شاعری کسی مخصوص انسانی صورتِ حال کے بارے میں بتاتی نہیں بلکہ اس کا انکشاف کرتی ہے، اور اس طرح معنی کے ایک انوکھے نقش کو منور کرتی ہے۔‘‘ (شمیم حنفی)
اقبال کی شاعری کو اُن کے زمانے سے لے کر تاحال ایک خاص نقطۂ فکر کے حوالے سے پڑھنے اور سمجھنے کی روایت عام رہی ہے، جو اس اعتبار سے غلط نہیں کہ اُس میں یقینا ایک مربوط نظامِ فکر کو سرچشمۂ تخلیق کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اقبال کی شاعری کی بڑائی اس بات میں مضمر ہے کہ اُس میں ایک خاص نظامِ فکر کی توسیع نمایاں ہے تو یہاں بعض سوالات نہ چاہتے ہوئے بھی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا شاعری میں نظامِ فکر کا ہونا ضروری ہے؟ یا پھر یہ سوال کہ وہ نظامِ فکر حیات و کائنات کے کس شعبے سے متعلق ہو جس کی بنیاد پر کوئی شاعری اپنے تخلیقی مدارج طے کرکے پایۂ عظمت تک پہنچ سکتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ شاعری کا فکر سے رشتہ ہے لیکن یہ رشتہ اُس وقت تک گہرا نہیں ہوسکتا جب تک کہ فکر اشیاء سے مربوط ہوکر تخیل کی سطح پر انکشاف کرنے کی حامل نہ بن جائے۔ شاعری میں انکشاف کی یہ سطح اتنی واضح ہوتی ہے کہ اس پر انسانی تجربے، مشاہدے یا جذبے کا گمان یقین کی حد تک ممکن ہوتا نظر آتا ہے۔ شاعری میں اس قسم کی فکری شمولیت کی باقاعدہ ابتدا غالب سے ہوتی ہے۔ اس لیے غالب کی شاعری کا ایک بڑا اور توانا حصہ اُن اشعار پر مشتمل ہے جن میں فکر پہلے تو اشیاء میں منتقل ہوتی ہے اور پھر اشیاء تخیلی سطح پر انکشاف کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مثلاً
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
پہلا مصرع محض ایک بیان ہے اور اس بیان کا بنیادی نکتہ ویرانی سے متعلق ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ویرانی کوئی ٹھوس شے نہیں بلکہ کسی ٹھوس شے (دشت) کی صفاتی فکر یا تصور کا نام ہے۔ دوسرے مصرعے میں ویرانی کا یہی تصور دشت اور گھر کی ٹھوس معروضات میں منتقل ہوکر یہ انکشاف کرتا ہے کہ دشت کے مقابلے میں گھر کی ویرانی کہیں زیادہ ہے۔ رائج مفروضات کو مسترد کرنے یا بدلنے کا رویہ غالب کی شاعری میں انکشافی سطح پر کسی کاہن یا جوگی کا سا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی شاعری جب اس قسم کا کام انجام دینے کی اہل ہوجاتی ہے تو وہ اُن اقدار سے بھی مزین ہوجاتی ہے جن کا براہِ راست تعلق فن کے عالم سے ہوتا ہے، اور پھر یہ دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کا نظام فکر حیات و کائنات کے کس شعبے سے متعلق ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اس نوع کا شعری وظیفہ کسی فکر یا فلسفے کو تخلیقی تقلب کے بعد اسے راہبانہ انکشاف کا اہل بنادیتا ہے جو بجائے خود اپنی فنی قدروں کا موجد بھی ہوتا ہے اور محافظ بھی۔
غالب کے بعد اقبال اردو کے واحد بڑے شاعر ہیں جن کی شاعری انکشاف سے عبارت ہے۔ ان کے یہاں انکشاف کا دائرہ اس لیے اتنا وسیع ہے کہ اس میں فلسفہ اپنی تمام تر تقلیبی منزلوں کو طے کرکے جذبے سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے:
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
……
تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی
……
حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
……
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اقبال کے یہ تمام اشعار اپنی فلسفیانہ بنیادوں پر قائم ہیں۔ وہ فلسفے جن سے اقبال کو فطری نسبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فلسفہ جذبے سے ہم آہنگ ہوکر انکشاف کی وہ سطح دریافت کرلیتا ہے، جہاں نوائے فکر نوائے فقر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پہلا شعر عقل و دل کے مابین ہونے والے تصادم کے نتیجے میں برآمد ہونے والی حقیقت کا تحیر انگیز عرفان ہے۔ انسانی صفات میں ایک اہم صفت عقل ہے لیکن اُس کی قوت اپنی حدوں سے اُس وقت تک متجاوز نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس میں دل یعنی عشق کی حدت شامل نہ ہوجائے۔ عقل جب عشق سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے تو پھر حقیقت بھی وہ حقیقت نہیں رہتی جو بظاہر زمین و آسمان کی بیکرانی سے مخصوص معلوم ہوتی ہے۔ عقل پر عشق کی مغلوبیت انسان کے اندر جہانِ مخفی کی دیدنی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان اُن حقائق کا معارف بن جاتا ہے جو زمین و آسمان کی بیکرانی سے ماورا ہوتی ہے۔ دوسرے شعر میں ’’صنم خانے‘‘کی عارضیت کا نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں صنم خانہ دنیا کا استعارہ ہے۔ چونکہ صنم خانے کا تعلق پرستش سے ہے، اس لیے یہاں اُن لوگوں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے جو دنیا اور دنیوی تعیش کی پرستش کرتے ہیں۔ جس کی اصل حقیقت حبابِ ناتواں سے زیادہ نہیں۔ مطلب یہ کہ دنیا جو اپنی نوعیت و ماہیت میں خالصتاً مادی واقع ہوئی ہے، ایک نہ ایک دن فنا ہوجائے گی۔ لہٰذا ایسے صنم خانوں کی عبادت سے کیا فائدہ جن کو بقائے دوام حاصل نہیں۔ بقائے دوام تو اُن چیزوں کو حاصل ہے جن کی تعمیر میں جذبۂ عشق کارفرما ہو۔ مادی یا خاکی چیزیں جسمانی سکون کا ذریعہ تو بن سکتی ہیں لیکن روحانی فرحت کا سامان بہم پہنچانا اُن کے بس میں نہیں۔ تیسرے شعر میں حیات اور خودی کے متعلق سوالیہ نشان قائم کرکے اُن کی بقا اور جِلا بخشی کی سبیل کو جواب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خیال و نظر کا کسی شے میں جذب ہوجانا شاعر کے نزدیک زندگی سے عبارت ہے۔ خیال کا تعلق ذہن و دل سے ہے اور نظر کا رشتہ مظاہرِ فطرت سے ہے۔ مظاہرِ فطرت میں حسنِ کائنات سے لے کر حسنِ زن تک حسین چیزوں کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہے جو نگاہوں کے لیے سامانِ دید ہوتا ہے۔ لیکن یہ سامانِ دید اُس وقت تک زندگی کے ظہور کا وسیلہ نہیں بنتا جب تک کہ اُن میں نظر جذب نہ ہوجائے۔ کسی شے میں نظر کی انجذابی، خیال کی انجذابی ہے جو خودی کی شکل میں زندگی کا عرفان ثابت ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ شے میں نظر کی انجذابی زندگی کا ظہور ہے اور اُس کا انتشار خودی کی موت۔ لہٰذا انسان یا عاشق کو چاہیے کہ وہ کسی ایک شے یا خیال میں خود کو اس وارفتگی کے ساتھ مستغرق کردے کہ اُس کا اصل مقصود و مطلوب مل جائے۔ چوتھا شعر مغرب و مشرق کے اُس تقابل پر استوار ہے جو مغربی علوم پر مشرقی علوم کی برتری کو ثابت کرتا ہے۔ یہاں ’’دانشِ فرنگ‘‘ مغربی فلسفے کا استعارہ ہے جس کی بنیاد عقل و منطق پر قائم ہے۔ جب کہ ’’مدینہ و نجف‘‘ نہ صرف یہ کہ مشرق کے مقدس مقامات ہیں بلکہ عشق اور علم کی علامت بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مغرب و مشرق کی تمام علمی اور عقلی جلوہ سامانیوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود اُس مقام تک نہیں پہنچتا جہاں اُس کی آنکھیں چکا چوند ہوجائیں۔ یعنی یہ کہ مغربی علوم اپنی تمام تر کشش کے باوجود چشمِ شاعر کو خیرہ کرنے سے قاصر ہیں تو اس لیے کہ اُس میں مدینہ و نجف کا علمی نور و سرور موجود ہے، جس کی بنیاد مغربی معلوم کے برعکس عشقِ صادق پر قائم ہے۔ شعر میں یہ جذبہ بھی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ قوم مغربی یا نوآبادیاتی فکر و فلسفے کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوکر اس میں خود کو کبھی غرق نہیں کرسکتی جس کی جڑیں اپنی مذہبی، علمی اور تہذیبی اقدار میں نہایت مضبوطی سے پیوست ہوں اور جس کے دینی خطے میں مدینۃ العلم آباد ہو۔ مذکورہ اشعار اس لحاظ سے اہمیت کے حامل نہیں ٹھیرتے کہ ان کی بنیادیں فلسفے پر قائم ہیں، بلکہ ان کی بڑائی فکر کے اس تجسیمی رویّے میں پوشیدہ ہے جو زمین و آسمان، مدینہ و نجف، صنم خانہ وغیرہ کے تلازمات سے ہم آہنگ ہوکر ایک ایسے استعاراتی نظام کے ظہور کا وسیلہ بن گئے ہیں جہاں فلسفہ، فلسفہ نہ رہ کر احساس کا متبادل بن گیا ہے۔ اس لیے یہاں ان قدروں کی نشان دہی مشکل نہیں جو فلسفے کو شاعری بناتی ہیں۔ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے:
’’اقبال نے ہمارے جذبۂ تخیل اور فکر کو جس خوبی سے غیر معمولی حد تک متاثر کیا وہ ان کا فلسفہ نہیں ہے، ان کی شاعری ہے۔ اس میں جہاں کہیں تنوع یا تضاد ملتا ہے وہ اس کا ثبوت ہے، تنوع یا تضاد شاعری کا حسن یا مزاج ہے اور فلسفے کا نقص یا نارسائی۔‘‘
رشید صاحب کے اقتباس سے اس بات کی تصدیق تو ہوجاتی ہے کہ اقبال کی شاعری کو اس کا جذبی اور کشفی کمال ہی بڑا بناتا ہے، نہ کہ اس کی فلسفیانہ یا فکری بنیادیں۔ لیکن اس سوال کا کوئی تشفی بخش نہیں ملتا کہ ان کے یہاں اس نوع کی کشفی کیفیت کس چیز سے پیدا ہوتی ہے جو جذبۂ تخیل کو غیرمعمولی حد تک متاثر کرتی نظر آتی ہے۔ دراصل وہ چیز اقبال کا فلسفیانہ شعور ہے جو جذب کے مرحلے سے گزر کر کشف کی منزل میں پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے یہ شاعری پہلے ان اقدار کے حوالے سے پڑھے جانے کی متقاضی ٹھیرتی ہے جنہیں بڑی شاعری کا اساسی اختصاص سمجھاگیا ہے، اور پھر ان حوالہ جات کی طلبگار ہوتی ہے جو فلسفے کے عالم سے برآمد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو اس کی فلسفیانہ بنیادوں سے کاٹ کر کلی طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی فلسفے کو اس کی عظمت کی واحد وجہ ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا دیکھنے کی بات یہ رہ جاتی ہے کہ اقبال کے یہاں وہ کون سا فلسفیانہ شعور ہے جو وجدان و تخیل سے ہم آہنگ ہوکر شاعری بن جاتا ہے۔ ایک ایسی شاعری جس کا رنگ دلبرانہ اور آہنگ موسیقانہ ’’دامنِ دل می کشید‘‘ کا مسبوب ٹھیرتا ہے۔ اس میں کیا شک کہ اقبال کے یہاں قرآن و احادیث کی تعلیمات کے علاوہ مغرب و مشرق کے وہ تمام فلسفے موجود ہیں جنہوں نے اقبال کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری کے فلسفیانہ مباحث میں یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ ان کے یہاں مولانا روم، مجدد الف ثانی، نطشے اور برگساں وغیرہ کے نظریات کا گہرا اثر ہے، لیکن اس بات میں کم دلچسپی لی گئی کہ ان کے یہاں اس نوع کو اثر پذیری کیوں ہے اور یہ نظریات کن عوامل سے گزر کر شاعری بنے ہیں۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اقبال پہلے شاعر ہیں پھر فلسفی۔ اس لیے ان کی شاعری پہلے فنی قدروں کے حوالے سے پڑھی جانے کی مستحق ہے پھر کسی دوسرے حوالے سے۔ تخلیقی سطح پر کوئی بھی فلسفہ یا نظریہ اُس وقت تک قابلِ قدر نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ وجدان کا حصہ نہ بن جائے۔ فلسفے کی کورانہ تقلید الگ چیز ہے اور اس کا تخلیقی استعمال الگ۔ اقبال کے یہاں فلسفے کا تخلیقی استعمال موجود ہے اس لیے ان کی شاعری فن کے اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔ اگر اقبال کی شاعری کے فلسفیانہ نظام پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت تک پہنچنا دشوار نہیں کہ ان کے یہاں وہی فلسفے کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوئے ہیں جن میں تحرک کی قوت موجود ہے۔ مولانا روم کی مثنوی ہو یا مجدد الف ثانی کا شہودی فلسفہ… نطشے کا فوق البشر ہو یا برگساں کا تصورِ وقت… ان سب کی مشترک صفت تحرک ہے۔ اگر صرف فلسفے سے شغف ہی اقبال کی بنیادی جبلت ٹھیرتا تو ان کے یہاں ان فلسفیوں کی نشان دہی بھی ضرور ہوتی جن کا فلسفہ یاس و قنوطیت سے عبارت رہا ہے۔
فلسفے کے متعلق Thales کے زمانے سے لے کر آج تک یہ بات قولِ فیصل کا درجہ رکھتی ہے کہ یہ استدلالی طور پر عالمِ موجودات کا مطالعہ ہے جس کی سطح معروضی بھی ہوسکتی ہے اور موضوعی بھی۔ چونکہ فلسفے کی ابتدا استفسار اور تفتیش سے ہوتی ہے، اور اختتام حقیقت کی دریافت پر… اس لیے جرمن فلسفی Stumpft اُسے استفہامی علم یعنی Question Science کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہی استفہامی علم خصوصیت کا حامل ٹھیرتا ہے جو مغرب و مشرق کی فلسفیانہ روایت سے قطع نظر خود ایک روایت کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد عقل و منطق پر قائم نہیں بلکہ وجدان و انکشاف پر استوار ہے۔ مثلاً:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
شعر کا کلیدی موضوع عشق کی برتری اور عقل کی نارسائی ہے، لیکن یہ شعر محض اپنے موضوع کی وجہ سے اہم نہیں بلکہ اس کی عظمت حقیقت کے عرفانی طریقے میں پوشیدہ ہے۔ شعر کے مطالعے کی دو سطحیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی سطح عشق کے اُس تصور سے تعلق رکھتی ہے جو اقبال کے یہاں روحانی طاقت یعنی Divine Force کے طور پر ماورائے مظاہر کی حقیقتوں کا انکشاف کرتی ہے۔ عقل چونکہ پابندِ منطق ہے اس لیے اُس کا دائرۂ ادراک محدود ہے، اور جو چیز محدود ہوگی اُس میں یہ صفت ناپید ہوگی کہ وہ ماورائے موجودات کی حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ آگ میں کودنا عقلی منطق کے سراسر خلاف ہے، لیکن جب کوئی شخص آگ میں کودنے کا فعل انجام دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سراپا عشق ہے۔ وہ عشق جو جذبۂ صادق اور محویت کے نقطۂ اتصال سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اُس وجود کو آگ میں کودنے سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔ خطرہ تو اُس وجود کو ہوتا ہے جو خام حالت میں ہو۔ یہاں عشق چونکہ اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے اس لیے اُسے پا بہ زنجیر کرنے سے قاصر ہے۔ مطالعے کی دوسری سطح اُس قصے کے حوالے سے ہوگی جو مذہبی نوعیت کا حامل ہے۔ مذہبی قصے کا حوالہ شعر میں یہ حُسن پیدا کرتا ہے کہ آگ، عشق اور عقل کی جداگانہ حیثیت متعین ہوجاتی ہے۔ اور پھر یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ آگ اپنی خاکستری اور عقل اپنی تسخیری قوتوں کے باوجود عشق سے نشو و نما پانے والی ذاتِ پاک کو آگ میں کودنے سے روک سکتی ہے اور نہ ہی آگ اُس ذات کو جلا سکتی ہے۔ انکشاف کا یہی رویہ آتش، نمرود، عشق، عقل، تماشا، لبِ بام وغیرہ کی مناسبتوں سے منسلک ہوکر ایک مکمل پیکری نظامِ فن کا وسیلہ بن گیا ہے۔ استفہامی علم کی وجدانی یا انکشافی صورتِ حال مندرجہ ذیل اشعار میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
……
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
……
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
………
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
پہلے شعر میں خطر پسند طبیعت کی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہاں خطر پسند طبیعت اشارہ ہے اُس فرد کا جو مزاجاً چاق و چوبند واقع ہوا ہو۔ ایسا فرد اس باغ کی سیر کا کبھی تمنائی نہیں ہوتا جہاں صیاد کی گھاتوں سے اس کے صید ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ یہی وہ احساسِ خطر ہے جو اسے ہمیشہ ناموافق حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس نوع کی باخبری فرد یا انسان کے اندر شعورِ ترقی کی افزائش کا ذریعہ بنتی ہے۔ دوسرے شعر میں عظمتِ آدم کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ آدم جو اپنی لغزشوں کے باعث پہلے تو عرشی شوکت سے محروم ہوا، پھر اس شعور سے ہم کنار، جس نے خرابے کو آباد کیا، ستاروں پر کمندیں ڈالیں اور سفال سے ایاغ بنائے۔ نتیجتاً رفتہ رفتہ اس کی نسلی اشرافیت ثابت ہوتی گئی۔ یہی اثباتِ وجود ستاروں کی پریشانی کی وجہ ہے۔ مطلب یہ کہ اگر انسان اسی رفتار سے روئے زمین پر ترقی کرتا رہا تو عین ممکن ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ضرور اپنی تکمیلِ عظمت کے نقطۂ عروج پر پہنچ جائے گا۔ یعنی یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل میں تبدیل ہوجائے گا۔ شعر میں عروجِ آدمِ خاکی کو مہِ کامل کے مماثل ٹھیرا کر اس کا رشتہ ستاروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لیکن چاند میں بظاہر ایک نوع کا تغیر رونما ہوتا رہتا ہے۔ ایک زمانی وقفے میں ہلال کا بدر میں منتقل ہونا اس کی تحرّکی صفت کا غماز ہے۔ لہٰذا انسان کے اندر یہی تحرک اس کے فرشی وجود کو عرشی عظمت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ تیسرے شعر میں باغِ بہشت سے آدمی کی بے دخلی ایک استفسار کی صورت میں ظاہر کی گئی ہے۔ یہ قاعدۂ فطرت ہے کہ جو شخص روئے زمین پر بھیجا گیا ہے اسے ایک متعینہ مدت کے بعد ملکِ عدم بلا لیا جاتا ہے۔ یعنی حیات کے بعد موت کا واقع ہونا اصل حقیقت ہے، لیکن شاعر یہاں اصلی حقیقت کو انتظار کی شرط سے مربوط کرکے کارِ جہاں کی طوالت کے تئیں اپنے مضبوط ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا انسان کے لیے میدانِ عمل ہے۔ شاعر اس دنیا میں اعمال کو انجام دینے کے لیے مطلوبِ وقت نظر آتا ہے تو اس لیے کہ وہ اپنی وجودی برتری ثابت کرسکے۔ چوتھے شعر میں آزادی اور پابندی کے تصادم سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا اظہار ہے۔ دنیائے موجودات کی ہر چیز کل نفسٍ ذائقۃ الموت کے عمل سے گزرتی ہے، جب کہ عالمِ آخرت میں موت کا تصور نہیں۔ یعنی دنیا میں موت اور آخرت میں زندگی ہوگی۔ لیکن شاعر کے نزدیک آزاد بندوں کے لیے اس نوع کی پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی تو اس لیے کہ وہ اپنی تمام سرشاری اور وارفتگی کے ساتھ عشقِ مصطفوی میں غرق ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً اس پر موت حرام اور زندگی کا ٹھہرائو ہیچ ثابت ہوتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اقبال کے یہاں استفہامی علم اپنی وجدانی قلبِ ماہیت کے بعد شعری بیان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے فلسفیانہ دروبست میں ایک خاص قسم کی خوش آہنگی نمایاں ہے۔ ابوالکلام قاسمی نے لکھا ہے:
’’اقبال کو اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات میں علامتوں کا ایک مرتب نظام نظر آتا تھا جس کے اسرار کی عقدہ کشائی وہ اپنا منصب تصور کرتے تھے۔ اسی منصب کے باعث وہ اپنے شعری اظہار بشمول غزل میں نئے محاورے کے متلاشی تھے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے یہاں کائنات کو علامت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا رویہ نمایاں ہے۔ شاعری میں اس طرح کا تجسس الفاظ کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقتیں خواہ خارجی ہوں یا داخلی، الفاظ کے بغیر نہیں سمجھی جاسکتیں۔ اقبال کے یہاں لفظ یا محاورے کی تلاش و جستجو وسعتِ اظہار کی ناگزیر شرط ہی نہیں بلکہ فلسفے کی شعری تقلیب کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ یہ فلسفے کی عظمت نہیں علامہ کی عظمت ہے کہ انہوں نے فلسفے کو جذب و کشف کے استعاراتی نظام میں ڈھال کر شاعری بنادیا ہے۔ ایک ایسی شاعری جس کی فکری سطح مائل بہ رقص نظر آتی ہے۔
اقبال کی زندگی میں فلسفے کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس بات پر اتفاق آسان نہیں کہ وہ شاعری میں بھی فلسفے کے اتباع میں پابندِ اصول رہے ہیں۔ یوں تو ان کے نثری بیان میں عرب و عجم اور مغرب و مشرق کے فلسفیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شخص سے یہ توقع کی بھی نہیں جاسکتی جس نے اپنی عمر کا شاندار حصہ دنیا کے عظیم فلسفوں کے مطالعے میں صرف کیا ہو اور پھر بھی اس کے یہاں اس کے اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں۔ یہاں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اقبال کی شاعری میں فلسفے کی اثر انگیزی موجود ہے لیکن اس بات کو شاید قبول نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں فلسفہ خواہ وہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، اپنی اصل حالت میں نمایاں ہے۔ اس ضمن میں ایک چھوٹی سی مثال نطشے سے دی جاسکتی ہے۔ نطشے کے نزدیک فوق البشر کی پیدائش اقداری نظام کی شرط سے مشروط ٹھیرتی ہے۔ یعنی نطشے کا فوق البشر اُس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمام بنی نوع انسان اپنی متعینہ قدروں سے انحراف کرکے ایک نئے نظامِ اقدار کے خالق نہ بن جائیں۔ چوں کہ نطشے کا فوق البشر انحراف و تردید کا نتیجہ ہے اس لیے وہ ہر قسم کی انسانی کمزوریوں کا منافر ہے۔ قوت، اعلیٰ ظرفی اور بلند حوصلگی اس کی بنیادی صفات ہیں۔ لیکن اقبال کا مردِ کامل خارجی صورتِ حال کا نتیجہ نہیں بلکہ خودآگہی کا ثمرہ ہے۔ وہ انسانی وجود کی دو رُخی قوت یعنی ’’نارِ خودی‘‘ اور ’’نورِ خودی‘‘ کا حسین تناسب ہے:
دلبری بے قاہری جادوگری
دلبری باقاہری پیغمبری
دلبری اور قاہری کا یہی حسین امتزاج اقبال کے مردِ کامل کو مادی کائنات کی تسخیر کا اہل بنادیتا ہے، لیکن وہ اس نوع کی تسخیری قوت کو اپنا مقصودِ حیات نہیں سمجھتا۔ اس کا نصب العین روح کی شفافیت اور خدا کی خوشنودی ہے۔ اس لیے اقبال کا مردِ کامل اپنی تمام تر حرکیاتی خوبیوں کے باوجود ایک درویش کی طرح بارگاہِ یزداں میں سربسجود نظر آتا ہے۔ حرکت و عمل اقبال کے مردِ کامل کی نمایاں خوبی ہے۔ یہ حرکت اس کے اندر شعورِ خودی سے پیدا ہوتی ہے، اور اسی سے موت پر فتح پائی جاتی ہے:
اے کہ از ترک جہاں گوئی، مگو
ترکِ ایں دیر کہن تسخیر او
……
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
………
گزر اوقات کرلیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
……
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
متذکرہ بالا اشعار میں ان تمام صفات کا اظہار نمایاں ہے جن سے متصف ہونے کے بعد ایک انسان، انسانِ کامل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہاں شاہین محض ایک پرندہ نہیں بلکہ انسانِ کامل کی علامت ہے، اور یہ علامت مردِ کامل کے شایانِ شان اس لیے ہے کہ شاہین کی سی بلند ہمتی، بلند پروازی، قوتِ تسخیری، بے نیازی اور سرشاری و درویشی انسانِ کامل میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرندوں کی دنیا میں شاہین اقبال کو سب سے زیادہ عزیز ہے کہ اس کی نقل و حرکت میں انہیں انسانِ کامل کی نقل و حرکت نمایاں نظر آتی ہے، جس کا نمائندہ صرف مردِ مومن ہی ہوسکتا ہے کہ نورِ خودی اور نارِ خودی سے تعمیر ہونے والی اس کی شخصیت میں اسے رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتِ کاملہ اور فیضانِ صالحہ کی مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ یہی رہنمائی اس کی شخصیت کو امتیازی شان عطا کرتی ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
یہاں آفاق میں گم ہونے سے مراد مادی دنیا کی آسائشوں کا حصول ہے جو صرف اور صرف شعارِ کافر ہے۔ کافر میں ایمان و ایقان کی وہ قوت نہیں ہوتی جو ماورائے ظہور کی حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ یہ قوت تو مردِ مومن کی صفت ہے۔ خودی کی معراج ظاہر کو باطن میں گم کردیتی ہے۔ مردِ مومن میں آفاق کا گم ہونا اس کی شانِ بے نیازی کا مظہر ہے۔ عاشقِ صادق جب عشق و خودی کی انتہا پر پہنچ جائے تو معشوق میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اس کی ذات ایک ایسے بحرِ بے کنار کی سی ہوجاتی ہے جس میں آفاق ایک قطرے کی طرح آسانی سے سما جاتا ہے۔ آفاق کی گم شدگی مردِ مومن کی وجودی کشش کا اثبات ہے جو نطشے کے فوق البشر کو نصیب نہیں۔ ان تمام اشعار میں اقبال نے شاہین کے وجود کو مردِ مومن کی علامت میں منقلب کرکے ایک ایسے عالم کی تخلیق کی ہے جو آسمان کی طرح بے کنار و لامحدود ہے۔ شاہین سے پرواز کا جو تصور قائم ہوتا ہے وہی تصور مردِ مومن کی جسمانی فعالیت اور ذہنی تحرک سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ خیال و شے کا یہ تلازمہ فلسفے کو شاعری بناتا ہے اور اسی سے فنی قدروں کی نشان دہی ہوتی ہے، جس کے متعلق شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’فنی اقدار کی نشان دہی کرنا ہی تنقیدی عمل کا جزوِ اعظم ہے۔ لیکن یہ نشان دہی اسی وقت ممکن ہے جب ان فنی اقدار کی انفرادیت کا انعکاس فن پارے میں ثابت ہوسکے۔‘‘
اقبال کی شاعری کا عمدہ ترین حصہ خواہ وہ نظمیہ شاعری کا ہو یا غزلیہ شاعری کا، فنی اقدار کی انفرادیت کے انعکاس سے معمور ہے جو اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ یہ شاعری صرف فلسفے کی موشگافی نہیں کرتی بلکہ فلسفے کو جذب و اکتشاف کا ذریعہ بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں باطنی سچائی خارجی حوالوں سے متشکل ہوتی نظر آتی ہے۔ یہاں اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ یہ نظم صرف داخلی احساس یا صداقت کا خارجی حوالہ ہی نہیں بلکہ اقبال کے بنیادی تصور یعنی تصورِ حرکت کی اعلیٰ ترین صناعی ہے۔ وقت، عشق اور تاریخ اس کی تین شکلیں ہیں کہ تینوں میں جو چیز مشترک ہے وہ قوت و حرکت کی غیر منقسم صفت ہے۔ یہ نظم تاریخ کے ایک شاندار عہد کی یادگار ہے۔ اس لیے اسے وقت کے لامتناہی سلسلے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مثل فوکوؔ نے لکھا ہے:
“History in its traditional form, undertook to memorize the monument of the past, transform them into document.”
فوکوؔ سے بہت پہلے اقبال نے ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ یا اس نوع کی دوسری نظموں میں یہ کام کر دکھایا ہے کہ تاریخ کس طرح عہدِ رفتہ یا گزشتہ کی یادگار کو حافظے کا حصہ بناتی ہے اور پھر وہی یادگاریں دستاویز میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ منتقلی کا یہ عمل وقت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے مسجدِ قرطبہ میں وقت کا تسلسل کہیں منقطع نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں وقت کا تسلسل کسی قسم کا کوئی جبری تسلط قائم نہیں کرتا کہ یہاں وقت کے پیش نظر وہ مسجد ہے جس کی بنیاد جذبۂ عشق پر قائم ہے جو اقبال کے یہاں ایک زبردست روحانی طاقت سے عبارت ہے۔ اس لیے اس پر وقت اثرانداز تو ہوتا ہے لیکن اپنی تخریبی قوت کا اس طرح مظاہرہ نہیں کرتا جس طرح اختر الایمان کی نظموں اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مسجدِ قرطبہ کا یہی اختصاص ماضی کے احساس کو مستقبل کی بشارت سے وابستہ کردیتا ہے، جس سے وقت کی لامتناہیت بھی ثابت ہوتی ہے اور اس کی جبریت کی نفی بھی۔
ایلیٹؔ نے اپنے ایک مضمون ’’شاعری اور فلسفہ‘‘ میں لکھا ہے:
“Poetry is not substitute for philosophy or theology or religion. It has its own function. But as this function is not intellectual but emotional, it cannot be defined adequately in intellectual terms.”
ایلیٹؔ صاف صاف کہتا ہے کہ شاعری فلسفے یا دینیات یا مذہب کا متبادل نہیں۔ اس کا اپنا وظیفہ ہے جو تعقلی نہیں جذباتی ہے۔ اس لیے اسے دانش ورانہ اصطلاحات میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اقبالؔ کی شاعری کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ وہ فلسفے کی متبادل نہیں بلکہ فلسفے کا وہ تخیلی وظیفہ ہے جو انسانی جذبات کے تابع بھی ہے اور اس سے ماورا بھی۔ اس لیے اقبال کی شاعری پر فلسفیانہ مہر ثبت کرکے اس کی معنوی عظمت اور فنی قدر و قیمت کو مخصوص و محدود کرنا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔

حصہ