اقبال ؒ

270

رحمان کیانی
توریت کی، انجیل کی، قرآن کی سوگند
اے دیدہ ورو! مجھ کو یقیں ہے کہ بجز چند
اس ملکِ خداداد کے افرادِ خرد مند
پوچھو تو عنادل کی طرح خرم و خورسند
لاریب کہیں گے کہ تہِ گنبدِ افلاک
ہم سجدہ گزارانِ حرم کا وطنِ پاک
اس شخص کے اِک خواب کی تعبیر ہے جو خود
رکھتا تھا نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
جس شخص کا یہ ذکر ہے اربابِ خوش اوقات
اس قوم میں پیدا ہوا اُس وقت کہ ہیہات
تھی لب پہ ہر اک فرد کے حالیؔ کی مناجات
کاٹے نہیں کٹتی تھی غلامی کی مگر رات
ایسے میں بیک نعرۂ جاں سوز و جگر پاش
اس مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش
اور ولولۂ تازہ دیا سب کے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخاراؔ و سمرقندؔ
تا عمر یہ کرتا رہا لوگوں کو ہدایت
یہ نام و نسب منصب و دولت کی سیادت
بوبکرؓ و علیؓ کے لیے آپس میں عداوت
یا نسل و وطن اور زبانوں کی رقابت
تفریق ہے توحید کا پیغام نہیں ہے
بوجہل کی تقلید ہے اسلام نہیں ہے
’’ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد‘‘
آگاہ کیا اُس نے فقیہانِ حرم کو
ہر صاحبِ دل، اہلِ نظر، اہلِ قلم کو
رکھتے ہو قریں دِل سے اگر قوم کے غم کو
آشفتہ سرانِ عرب و ہند و عجم کو
سمجھائو کہ افرنگ کی اصنام گری کا
عیاری و سفاکی و ایماں طلبی کا
تریاق فقط خود نگری خود شکنی ہے
شمشیرِ جگردار ہے بازوئے قوی ہے
آیا سرِ محفل تو یہ کرتا ہوا اعلان
ہے پیروِ اسلام تو اے مردِ مسلمان
اُٹھ حلقۂ پیرانِ طریقت سے مری جان
اِک ہاتھ میں تلوار لے اک ہاتھ میں قرآن
اور نعرۂ تکبیر سرِ رزم لگا کر
پھر قیصرؔ و کسریٰؔ کے در و بام ہلا کر
کر سرِّ نہاں فاش کہ ہر دَور میں مومن
یا خالدِؓ جانباز ہے یا حیدرِؓ کرار
یہ نکتۂ آخر بھی بتاتے چلو رحماںؔ
اقبال کا ارشاد ہے اے مردِ مسلماں
ہے کارگہِ جہد و عمل عالمِ امکاں
لا تدعُ مع اللہ پہ رکھتے ہوئے ایماں
ہے جرأتِ پرواز تو پھر کاہکشاں تک
اور شوقِ تگ و تاز تو اقصائے جہاں تک
شاہیں کے لیے صحنِ فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا ملکِ خدا تنگ نہیں

حصہ