احتساب کمیشن کے قیام کا بل

280

کیا پاکستان میں شفاف اور منصفانہ احتساب ممکن ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر وہ پاکستانی جاننا چاہتا ہے جو سیاسی اور سماجی نظام کو شفاف دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن لوگوں میں مایوسی غالب ہے کسی کو یقین نہیں ہے کہ اس ملک میں شاید ہی شفاف اور بلاتفریق احتساب ہوسکے گا۔ اس کی وجہ ہماراماضی کا سیاسی تجربہ ہے۔ حکمران طبقہ یا فوجی قیادت جب اس ملک میں احتساب کے نعرے لگاتے ہیں تو لوگوں کو اس پر یقین نہیں آتا۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ مسئلہ احتساب کا نہیں بلکہ سیاسی کھیل کا ہے، اور اس احتساب سے بھی وہی کچھ برآمد ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ یہ اب جب ایک بار پھر احتساب کا شور پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل رہا ہے تو لوگوں کو اس پر یقین نہیں آرہا۔
کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی کا تصور جواب دہی یا احتساب کے عمل میں شفافیت کے بغیر ممکن نہیں۔ جمہوری عمل کا تسلسل محض ووٹ حاصل کرنے، حکومت بنانے اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ عمل ملک میں ایک منصفانہ اور حقیقی معنوں میں شفافیت کے نظام سے جڑا ہوا عمل ہے۔ اگر جمہوریت، شفافیت یا جواب دہی کے عمل کو کمزور بناکر یا اس میں سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر آگے بڑھا جائے تو خود جمہوریت کا عمل بھی اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکتا۔ اگرچہ پاکستان میں سیاسی اور فوجی دونوں قیادتوں نے احتساب کا نعرہ لگوایا، لیکن ہر بار اس کے پیچھے نیک نیتی کم اور اپنی ذاتی و خاندانی یا بنیادوں پر مبنی مفادات اور بدنیتی کی سیاست زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں احتساب کا عمل مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
احتساب کے عمل کی کمزوری میں چار اہم عوامل کارفرما رہے:
اوّل: احتساب کے عمل کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی و فوجی حکمران طبقوں نے عملاً اداروں کو کمزور کیا اور ان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔
دوئم: احتساب کا عمل اگر کچھ آگے بڑھا تو اس کا مقصد حقیقی معنوں میں احتساب کرنا نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین یا کمزور طبقات کے خلاف اس احتساب کو بطور ’’سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنا تھا۔
سوئم: حکمران طبقات اور ریاستی و حکومتی اداروں سمیت مختلف فریقین کے درمیان ایک ایسا گٹھ جوڑ قائم ہو گیا ہے جس کا مقصد ایک دوسرے کے مفادات اور بدعنوانی و کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا تھا، اس کے لیے ایسی قانون سازی کی گئی جو اس حکمران طبقے کے مفاد میں تھی۔
چہارم: حکمران طبقے سمیت مختلف فریقین جو احتساب کو اپنے لیے مشکل سمجھتے تھے انہوں نے ایک خاص مقصد اور فکر کی بنیاد پر یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ اس ملک میں احتساب کے نعرے کے پیچھے جمہوریت دشمنی کارفرما ہے۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ لندن میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کیے تھے، اس میں ایک نقطہ اقتدار میں آکر منصفانہ، شفاف اور بلاتفریق احتساب کے لیے احتساب کمیشن کا قیام اور اس پر عملدرآمد تھا۔ لیکن سیاست دانوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے ہی نعروں اور وعدوں کی پاسداری کے خلاف کام کرنے کا مزاج رکھتے ہیں۔ پانچ برس پیپلز پارٹی اور اب چار برس سے مسلم لیگ(ن)کی حکومت ہے، لیکن دونوں مقبول جماعتوں نے احتساب کمیشن کے قیام کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کی کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کی سیاست کو تحفظ دیا۔ اقتدار میں شامل ان دونوں جماعتوں نے نہ تو احتساب کمیشن بنایا اور نہ ہی پہلے سے موجود ’’قومی احتساب بیورو‘‘ یعنی نیب کو فعال کیا، یا اس میں جو خامیاں یا کمزوریاں تھیں انہیں دور کرکے اس ادارے کی شفافیت کو یقینی بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملک کی حکمران جماعتیں اپنے مخالفین کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کی دہائی دیتی ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتیں۔
ظاہرہے کہ جب خود حکمران طبقات کا دامن صاف و ظاہر نہ ہو تو وہ کیسے حقیقی احتساب کو یقینی بناسکتے ہیں! پچھلے دنوں حکمران طبقے نے ایک بار پھر دیگر سیاسی فریقین کی حمایت کے ساتھ ’’احتساب کمیشن‘‘ کے قیام کا بل پیش کیا ہے۔ اس بل کا مقصد نیب کو ختم کرنا اور احتساب کمیشن کا قیام ہے۔ نیب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایک انتقامی ادارہ ہے جس کا مقصد سیاست دانوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی جماعت کی توپوں کا رخ آج کل نیب کی طرف ہے اور وہ بڑی شدت کے ساتھ اس ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ اسی نیب کے سربراہ کا تقرر وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی باہمی مشاورت سے ہوتا ہے۔ لیکن ان کو لگتا ہے کہ اس ادارے کی لگام ان سے زیادہ کسی اور پس پردہ طاقت کے ہاتھ میں ہے جو ان کے مفاد کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقات ایسے مفلوج، لاچار اور اختیارات سے محروم ادارے اور افراد چاہتے ہیں جو قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں ان کے مفادات کا تحفظ کریں۔ جب بھی کوئی ادارہ احتساب کی بات کرتا ہے یا اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ طبقات سیاسی انتقام کی دہائی دے کر احتساب کے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، جے یو آئی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتیں احتساب پر سیاست کرکے اس عمل کو بزور سیاسی طاقت روکنا چاہتی ہیں۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلے ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب کریں۔ نوازشریف شدت سے کہہ رہے ہیں کہ ججوں اورجرنیلوں کا احتساب کیوں نہیں ہوسکتا! اس ملک میں جرنیلوں، ججوں، بیوروکریسی، میڈیا، سرمایہ دار، صنعت کار، کاروباری طبقے سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی فریق کا احتساب شروع ہو تو یہ درد اُس کے پیٹ میں کیوں اٹھتا ہے کہ پہلے اس کا نہیں فلاں کا احتساب کرو۔
جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے لیے پہلے حکمران طبقے کو اپنا مقدمہ شفاف انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ ایک کرپٹ اور بدعنوان حکومت کبھی بھی دوسرے طاقت ور طبقے کا احتساب کیونکر کرے گی! سب کو احتساب کے دائرے میں لانا وقت کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں کوئی شفاف نہیں، اور سب کے دامن کسی نہ کسی شکل میں دھبوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ احتساب کے لیے پہلے خود حکومت اپنے آپ کو پیش کرے، اس کے بعد وہ دوسرے طاقت ور طبقات کے احتساب کے لیے آگے بڑھے گی تو سماج کی طاقت بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ ایک مسئلہ عوام کا بھی ہے۔ ہمیں احتساب کے عمل میں جذباتیت، دیوانگی اور بادشاہت پر مبنی اپنی پسند و ناپسند کے دائرے سے باہر نکل کر شفاف نظام کے لیے بڑی جنگ لڑنی ہے۔ آپ کا تعلق کسی سے بھی کتنا ہی عشق پر مبنی کیوں نہ ہو، لیکن کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست کی حمایت نہیں ہونی چاہیے۔
ایک بنیادی اصول یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاست اور کرپشن یا بدعنوانی کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہے اس کو توڑنا ہے۔ یہ عمل عملاً ایک مافیا کی صورت اختیار کرگیا ہے جس سے ادارے اور پورا انتظامی ڈھانچہ کرپٹ ہوگیا ہے۔ میں اس نقطے پر بار بار زور دیتا ہوں کہ معاشرے میں بدعنوانی کے خلاف اور شفاف نظام کی حمایت میں ایک بڑی سیاسی اور سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر تعصب کے بغیر چلنی چاہیے۔ ایسی تحریک میں ہماری نئی نسل اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس ملک کو اگر محفوظ بنانا ہے تو یہ کام اب صرف ایک بڑی تعداد میں موجود نئی نسل ہی کرسکتی ہے۔ اس نئی نسل کے پاس طاقت بھی ہے اور جوش بھی، اور اس کی مؤثر شمولیت ہی کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کو لگام دے سکتی ہے۔
حکمران طبقات سمیت مختلف فریقوں کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہم کرپٹ نہیں بلکہ کرپشن کے نام پر ہمیں بدنام کیا جارہا ہے۔ کچھ دیرکے لیے یہ بات مان لیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں ماہانہ بنیادوں پر ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کون کررہا ہے؟ جو کررہا ہے اُس کے خلاف حکمران طبقات قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ یہ محض ایک دھوکہ دہی ہے، اصل میں حکمرانی کا یہ نظام کرپشن اور بدعنوانی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس ملک کا ایک بڑا دانشور اور رائے عامہ بنانے والا طبقہ خود حکمرانوں کی بدعنوانی کے کھیل میں شریک ہوکر اس پر مجرمانہ پردہ ڈال کر ان جرائم کو تحفظ دیتا ہے۔ بالادست طبقہ لوٹ مار کے نام پر رائے عامہ بنانے والے اس طبقے کو بھی اپنے گھنائونے کھیل میں حصہ دار بنالیتا ہے۔
یہ جو اہلِ دانش بڑی شدت اور گلے پھاڑ کر کرپشن اور بدعنوانی کا بھاشن دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جمہوری عمل کرپشن کے کھیل میں متاثر نہیں ہونا چاہیے، ان سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ کیا جمہوریت کرپشن اور بدعنوانی کے سائے میں تقویت حاصل کرسکتی ہے؟ اسی طرح جب حکمرانی کے نظام اور ادارہ جاتی بنیاد میں بدنیتی شامل ہوگی تو اس حکمران ریاستی طبقے سے شفاف احتساب کی توقع بھی محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ بنیادی خرابی اس عمارت میں ہے جس کو ہم نظام کا نام دیتے ہیں۔ یہ نظام جس کی بنیادوں میں اب کرپشن اور بددیانتی طاقت پکڑ چکی ہے اور اس کی سماجی و سیاسی سطح پر قبولیت بھی غالب ہے وہاں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف ایک بڑی جنگ آسان نہیں ہوتی۔ کیونکہ جب بھی آپ اس جنگ کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو صرف کرپٹ اور بدعنوان طبقہ ہی نہیں بلکہ اس کھیل میں معاونت کرنے والے تمام ادارے، افراد اور وہ معصوم لوگ بھی آپ کے خلاف میدان میں ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی کے نعرے کے پیچھے اصل کھیل جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو جمہوریت کے لیے ڈھال بنتی ہے اور نام نہاد جمہوری لوگ اس کو ہی بنیاد بناکر لوگوں کا استحصال بھی کرتے ہیں اور خود کرپشن اور بدعنوانی کے مرتکب ہوکر اس پورے نظام کو کرپشن سے آلودہ کرتے ہیں۔ ان کے خلاف ہر سطح پر بڑی جنگ ہونی چاہیے، یہی ہماری بقا کی جنگ بھی ہے۔ کیونکہ کرپشن سے نہ جمہوریت آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کا تصور۔

حصہ