سچ کی کہانی

333

صبا احمد
اسمبلی کے بعد اسد اور رضا دونوں بھاگتے ہوئے جماعت میں آئے اور آکر بولے کہ ہماری کلاس میں ایک نیا طالب علم حماد احمد آیا ہے مس زاہدہ ہماری کلاس ٹیچر اسی لمحے کلاس میں داخل ہوئی اور کہا کہ بچوں آپ کا ایک نیا کلاس فیلو حماد آئے ہیں ان سے ملو یہ راولپنڈی سے آئے ہیں۔ ان کو ٹائم ٹیبل بتا دو اور سلیبس بھی بتا دیں تاکہ یہ اپنی نئی کتابیں خرید لیں حماد جتنی جلدی آپ پانچویں جماعت کی کتابیں خریدیں گے اتنا ہی آپ کے لیے اچھا ہے۔ آپ اپنا کورس جو آپ نے نہیں پڑھا جلد ہی کور کر لو گے۔
اس کے بعد مس نے حاضری لگائی پریڈ اسلامیات کا تھا مس نے نماز کا سبق پڑھایا اتنے میں پریڈ کے ختم اور انگلش کے پریڈ شروع ہونے کی گھنٹی بجی۔
مس زاہدہ کے بعد مس حنا کا پریڈ شروع ہوا وہ جماعت میں داخل ہوئیں انہوں نے حارث کے ساتھ ایک نیا بچہ بیٹھے دیکھا انہوں نے پوچھا کہ آپ نیو ایڈمیشن ہو حماد نے کہا جی ٹیچر نے نام پوچھا تو اس نے جواب دیا حماد احمد مس حنا نے انگلش کا سبق پڑھایا سوال جواب لکھوائے اس کے بعد ان کا پریڈ ختم ہوا۔
آج حساب کی ٹیچر بیماری کے سبب اسکول نہیں آئیں ان کا پریڈ فری تھا۔ سب کلاس کے بچے حماد سے ملنے کے لیے بے چین تھے۔ باری باری سب اس سے ملے اپنا تعارف کروایا ہماری جماعت میں سارے بچے با تمیز اور فرمانبردار تھے سوائے مجاہد کے مگر وہ بھی آہستہ آہستہ بہتری کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ بہر حال حماد سب سے متعارف ہوئے۔
اتنے میں سائنس کا پریڈ شروع ہو گیا مس ماریہ کلاس میں آئی حماد کو دیکھا نام پوچھا اس کے بعد انہوں نے پڑھانا شروع کر دیا۔
پھر بریک ہوئی تو ساری کلاس حماد کے گرد چکر بنا کر کھڑی ہوگئی جیسے گڑ پر مکھیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ اس طرح آخری پریڈ کی گھنٹی بجی اور سب بچے بیگ کو پیک کر کے گھر کو جانے کے لیے کلاس میں لائن بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایک ایک کرکے کمرۂ جماعت سے باہر نکلے حماد مجاہد کے پیچھے نکلا اور پوچھا کہ تمہاری وین کون سی ہے میں نے بھی لگوانی ہے تمہارا گھر میرے گھر کے قریب ہے حماد نے کہا کہ ٹھیک ہے میں انکل سے تمہاری بات کروا دیتا ہوں مجاہد نے وین والے انکل سے حماد کو لے جانے کے لیے کہا۔ انکل نے کرایہ کی بات کی اس نے کہا کہ انکل ابھی آپ گھر چھوڑیں گے تو امی سے بات کر لیں۔ دونوں وین میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے پہلے مجاہد کو چھوڑا کیونکہ اسے کہیں جانا تھا اس لیے اس کے بعد حماد کے گھر گئے اس کی امی سے کرائے کی بات ہوگئی۔
دوسرے دن 9 بج گئے اسمبلی کے بعد تمام جماعتیں اپنے کمرہ جماعت میں پہنچ گئی مس نے حاضری لگائی تو مجاہد نہیں آیا تھا۔ غیر حاضر تھا اور آج حساب کا ٹیسٹ تھا وہ ذہین لڑکا تھا ٹیسٹ میں چھٹی نہیں کرتا تھا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں مجاہد ہانپتا ہوا جماعت میں ایا۔ میں نے پوچھا کہ لیٹ کیوں آئے مجاہد نے بتایا کہ آج وین والے انکل نہیں آئے۔ یہاں دیکھا تو گیٹ کے باہر انکل کی وین کھڑی تھی۔ ابو نے پوچھا تو انکل نے بتایا کہ حماد نے بتایا کہ میں آج اسکول نہیں جا رہا تو اس لیے مجھے لیا نہیں کیونکہ حماد کا گھر پہلے آتا ہے۔ اس نے بتایا اور مس سے اجازت لے کر جماعت میں بیٹھ گیا۔ بریک کے بعد مجاہد نے حماد سے پوچھا کہ میں نے تو تم سے نہیں کہا تھا کہ کل میں چھٹی کروں گا تم نے انکل کو کیوں کہا تو حماد نے کہا کہ میں نے انکل کو کچھ نہیں کہا۔ تم واپسی پر انکل سے پوچھ لینا چھٹی کے وقت انکل سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس نے وین والے بچوں کے سامنے کیا کہا۔ حماد نے کہا کہ میں نے نہیں کہا بچے حیران ہو گئے انکل نے کہا کہ چلو سب وین میں بیٹھو دیر ہو رہی ہے۔ بہر حال ہم سب نے اس واقع کو فراموش کر دیا۔
دوسرے دن حماد عمران کے ساتھ بیٹھا بریک ہوئی تو حماد نے کہا کہ آئو کھیلیں عمران نے کہا کہ نہیں آج مجھے معاشرتی علوم یعنی S.S.T کا سبق اچھی طرح یاد نہیں مس زاہدہ بہت سخت ہے۔ نہیں یاد کروں گا مرغا بنا دیں گی۔ حماد نے کہا کہ وہ تو آج نہیں آئیں۔ میں نے اسمبلی میں دیکھا تھا۔ اپنے دوست سے بھی پوچھا تھا۔ عمران خوش ہو گیا اور کھیلنے کے لیے اس کے ساتھ باہر گرائونڈ میں چلا گیا بیل بجی سب بچے اپنی کلاسوں کی طرف بھاگے اور عمران خوش تھا کہ یہ پریڈ فری ہے مس زاہدہ نہیں آئیں۔
مگر جیسے ہی وہ جماعت میں پہنچے مس زاہدہ سامنے کھڑی تھی عمران کے طوطے اڑ گئے، اس نے کہا کہ آج تو پکا پکا مرغا بنوں گا وہ ہی ہوا مس نے سب سے پہلے عمران کو کھڑا کیا وہ سبق نہ سنا سکا مگر اس کے ساتھ کھڑے حماد نے سنا دیا وہ بیٹھ گیا۔ عمران کھڑا رہا سزا کے طور پر مس کے جانے کے بعد عمران نے کہا کہ تم تو کہہ رہے تھے کہ مس نہیں آئی۔ حماد نے کہا کہ صبح تو نہیں تھیں۔
ایک دن حماد رضا کے ساتھ بیٹھا رضا سے پنسل مانگی کے آج گھر رہ گئی۔ رضا کے پاس فالتو تھی اس نے دے دی رضا نے کہا کہ چھٹی کے وقت مجھے دے دینا۔ مگر حماد نے اسے نہیں دی۔ دوسرے دن رضا نے اپنی پینسل مانگی تو کہا کہ میں نے تمہیں چھٹی کے وقت واپس کر دی تھی۔ مگر اس نے واپس نہیں کی تھی، اسی طرح وہ اکثر کسی نہ کسی کو دھوکہ دیتا اور جھوٹ بولتا آہستہ آہستہ ٹیچرز اور کلاس کے سب بچوں کو اس کی جھوٹ بولنے کی عادت کا پتا چل گیا، کلاس میں بہت کم بچے جھوٹ بولتے تھے بلکہ کبھی کبھار کو اکا دکا واقع ہوا تھا۔ مگر جب سے حماد کلاس میں آیا تھا۔ کلاس کا ماحول خراب ہو رہا تھا۔ سب پریشان تھے سب نے کہا کہ اب اس سے کچھ نہ پوچھیں گے سب نے کہا ٹھیک ہے۔
ایک دن حماد سیف اللہ کے ساتھ بیٹھا اور اس سے کہا کہ کل میری دادی بہت بیمار تھی ہسپتال میں ایڈمٹ تھی میں گھر پر چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ تھا اسکول نہ آسکا مجھے حساب کی کاپی دے دو میں تمہیں واپس کر دوں گا۔ اس نے دے دی چھٹی کے وقت وہ لینا بھول گیا۔ گھر جا کر ہوم ورک کرنے کے لیے کاپی نکالنے لگا وہ نہ ملی تو یاد آیا کہ میں نے حماد کو دی تھی اب کیا کرو۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس نے حماد کا فون نمبر لے لیا تھا۔ فون کرکے معلوم کیا کہ تم نے کاپی واپس نہیں کی تو وہ بولا کہ میں نے واپس کر دی تھی۔ سیف اللہ نے کہا کہ اگر واپس کی ہوتی تو میرے بیگ میں ہوتی۔ وہ پریشان ہو گیا رونے لگا کہ مس ماریں گی۔ امی نے سمجھایا کہ بیٹا مس کو جا کر سب بتانا وہ کچھ نہیں کہیں گی۔ دوسرے دن سیف اللہ نے حماد سے پوچھا تو اس نے وہ جواب دیا۔ اس نے ٹیچر کو بتایا۔ اس طرح کی حرکتیں وہ دوتین بچوں کے ساتھ پہلے بھی کر چکا تھا۔ سب کو اس نے یہ ہی کہا مگر کاپی کسی دوسرے کے ڈیسک میں ہوتی یا دو تین دن بعد ملتی ارشد نے بتایا کہ مس یہ میرے گھر چھٹیوں میں کاپی لے کر گیا دو دن کے ہوم ورک مکمل کرنے کے لیے مگر دس دن تک نہ آیا پھر میں بڑی مشکل سے جا کر اس کے گھر سے لے کر آیا۔ پھر مس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ہوم ورک کے لیے کوئی طالب علم کاپی نہیں دے گا۔
سب بچے اس سے اکھڑے اکھڑے رہتے اس سے زیادہ بات بھی نہیں کرتے تھے اور نہ کھیلتے تھے۔
مگر وہ پرواہ نہ کرتا۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کرتا۔ ایک مرتبہ تو حد ہی کردی مس سب بچوں کی فیس کلاس میں لے رہی تھی اور ان کے فیس کارڈ پر سائن کررہی تھی پیسے پاس ہی پڑے تھے حماد نے مس کو کارڈ دیا مس نے کہا کہ فیس کے روپے تو کہنے لگا مس میں نے ان روپوں میں رکھ دیے ہیں مس نے کہا کہ رکھ دیے ہوں گے مس نے کہا کہ آئندہ سے پیسے میرے ہاتھ میں دینا۔
دوسرے دن مس جماعت میں آئیں حماد کو کھڑا کیا کہ سچ بتائیں آپ نے پیسے ان روپوں میں ہی رکھے تھے میں نے سب جمع کیا تو آپ کی فیس کے پیسے کم ہیں۔ باقی سارا حساب ٹھیک ہے آپ نے میرے ہاتھ میں فیس نہیں دی۔ مگر وہ نہیں مانا یہ ہی کہتا رہا کہ میں نے دے دیے ہیں۔ مس کو غصہ آیا انہوں نے کہا اس مرتبہ میری غلطی ہے میں خود سے بھرتی کرتی ہوں مگر آئندہ سے اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
سب بچے تو سمجھ گئے تھے کہ اس نے یہ حرکت کی ہو گی مگر کسی نے ٹیچر سے نہیں کہا کیونکہ اس نے عابد سے دو مرتبہ ادھار لیے اسے واپس نہ دیے تھے۔ کہا کہ میں نے دے دیے تھے۔ ساری کلاس کا مس کے ساتھ اس رویہ کی وجہ سے حماد سے دل کھٹا ہو گیا تھا کہ یہ نہیں سدھر سکتا۔ مگر عمران اور سیف اللہ نے کہا کہ نہیں ہم اسے ضرور ٹھیک کریں گے کہ سچ کی سچائی کے ساتھ ہم اس سے ہمیشہ سچ بولیں گے۔ مگر کچھ دنوں کے لیے سب بچے اس سے بات نہیں کریں گے اور نہ اس کی بات پر اعتبار کریں گے سب نے ہم آواز ہو کر کہا کہ ٹھیک ہے۔
دوسرے دن پوری کلاس نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ وہ سلام کرتا وہ جواب دیتے مگر اس سے اور کوئی بات نہ کرتے جماعت میں بھی اور وین میں بھی اس کے محلے کے بچوں نے مجاہد کو بتایا کہ وہ اپنے محلے میں بھی ایسا ہی کرتا ہے محلے کے دوستوں نے بھی بولنا چھوڑ دیا۔ اب حماد پریشان ہو گیا کہ کلاس کے سب بچے تو مجھ سے نہیں بولتے تھے۔ مگر اب گلی کے بچوں نے بھی بولنا اور کھیلنا چھوڑ دیا ہے۔ اس نے غور کیا کہ میرا رویہ ہی سب کے ساتھ غلط ہے۔
اسلامیات کی ٹیچر پڑھا رہی تھیں دورِ جہالت میں عرب کے سب لوگ جھوٹ بولتے تھے برے کام کرتے تھے آپس میں لڑتے رہتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے مگر ہماری پیارے نبیؐ انہیں بچوں اور لوگوں میں رہنے کے باوجود صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے، وہ ہمیشہ سچ بولتے تھے وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے۔ کسی سے لڑتے نہیں تھے، اس نے یہ سبق پڑھا تو اس کو خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں کریں گے تو قیامت کے دن میرا کیا حال ہو گا۔
جمعہ کے دن مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا تو امام صاحب نے بھی اپنے خطبے میں سچ بولنے کی تلقین کی نماز کے بعد دعا ہوئی تو اس کے آنکھوں میں زارو قطار آنسو آ رہے تھے وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہا تھا اپنی نادانی کی دوسروں کو تنگ کرنے اور جھوٹ بولنے کی اس نے سچے دل سے توبہ کی۔ امام صاحب نے کہا تھا کہ سچے دل سے کی ہوئی توبہ اللہ تعالیٰ فوراً قبول کرتے ہیں۔ اور اس کے گناہ معاف کر دیتے ہیں۔
پھر اگلے دن وہ اسکول گیا بریک کے وقت اس نے پوری کلاس سے معافی مانگی اور توبہ کی سب نے اس کو معاف کردیا۔ اور سب نے اس سے دوستی کر لی گلے ملے اور عمران نے کہا کہ ہم نے بول چال صرف تمہیں ٹھیک کرنے کے لیے تمہاری بھلائی کے لیے چھوڑی تھی تاکہ تمہیں سبق آئے کہ سچے اور اچھے دوستوں کو دھوکہ دینا اور جھوٹ بولنا کتنا غلط ہے جبکہ ہم مسلمان ہیں۔ اس نے جھوٹ سے توبہ کر لی اور پوری کلاس نے اس سے دوستی کر لی۔ دیکھا بچوں سچ میں کتنی سچائی اور طاقت ہے۔ حماد بھی ٹھیک ہو گیا جس طرح حضورؐ نے عرب کے لوگوں کو ٹھیک کیا۔ پیار و محبت کے ساتھ اسی طرح آپ بھی اپنی جماعت کے بچوں کو اسی طرح ٹھیک کریں بھلائی اور نیکی کے راستے پر لائیں۔ شاباش اور ہمیشہ سچ بولیں۔

حصہ