مزدور اور حاسد

230

تابندہ جبیں
ایک گائوں میں ایک غریب مزدور اپنی فیملی کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کی تین بیٹیا ںاور ایک بیٹا تھا۔ وہ نہایت محنت کش اور دیانتدار انسان تھا۔اس کی دیانتداری کی کیا بات کریں گائوں کے زمین دار تک اس کے اوپر پختہ یقین رکھتے تھے ۔جب بھی کسی کی زمین کا مسئلہ درپیش آیا کرتا تھاتو اس سلسلے میں زمین دار بہادر خان کو بلاتا تھا۔ اس کی گواہی پہ پورا قبیلہ ہاں میں ہاں ملاتا تھااگر بہادر خان کچھ کہہ دے وہاں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔
بہادر خان کو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ اس کا یہ کہنا تھا اگر رب نے کوئی شے میرے نصیب میں ہے کوئی کتنی بھی کوشش کرے مگر مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ لیکن جب آپ سچائی کے راستے پر ہوتے ہیں تو انسان کے اندر کا چھپا شیطان آپ کو بار ہاکوشش میں لگا رہتا ہے کہ آپ سچائی کے راستے سے ہٹ جائیں اور ایسے میں وہ آپ کے راہ میں روکاٹیں کھڑی کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کے سچے اور کامل بندے اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ابلیس کے کسی قسم کی حرکات پہ توجہ نہیں دیتے۔ تو بہادر خان نے بھی ایسا ہی کیا وہ اپنے بچے کے اچھے مستقبل اور تعلیم وتربیت کے لیے گائوں چھوڑ کے شہر گیاتاکہ اپنے ننھے منے بچوں کو اچھی زندگی مہیا کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اچھا روزگار مہیا کردیا۔ وہ ہر مہینے اچھے خاصے پیسے اپنے بچوں کو بھجواتا جس سے اس کی بیوی اور بچوں کی زندگی اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ بہادر خان بہت خوش تھا کہ وہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرپایا مگر اس کے بچے اچھی زندگی اور تعلیم حاصل کر پائیں گے۔
ایک دن گائوں سے ایک شخص شہر بہادر خان کے پاس آیا۔ اس شخص کو گائوں والے عزت نہیں دیا کرتے تھے کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ بری طرح پیش آیا کرتا تھا۔ لوگوں کے پیسے قرض کے طور پہ لیتا تھا واپس ہی نہیںکرتا تھا۔بہادر خان اس کے ساتھ بھی محبت کے ساتھ پیش آتا۔ اس کا کہنا تھا کے اگرہم برے کے ساتھ بھی اچھا رویہ رکھیں گے تو وہ بھی برائی چھوڑ کے اچھائی اپنالیں گے۔ اس شخص نے بہادر خان سے کہاگائوں میں آگ لگ گئی ہے اور تمہاری بیوی بچے جل گئے ہیں ۔ تم فوراً گائوں پہنچ جائو۔
بہادر خان کو یقین تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ بہادر خان نے تسلی سے اس جواب دیا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہم سب کو ہی اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ جان و مال سب میرے رب کا عطا کیا ہواہے ۔ جو تو کہہ رہا ہے ہوسکتا ہے سچ ہو مگر مجھے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ میں اپنے بیوی بچوں کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کرآیا ہوں۔ اگر میرے رب کی یہی مرضی ہے تو میں پھر بھی کوئی شکوہ و شکایت نہیں کروں گا۔
بہادر خان نے یہ چند جملے ادا کیے اور نماز کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا۔ جب بہادر خان نماز سے فارغ ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ شخص اس کے پیچھے کھڑا ہوا رو رہا ہے اور زور زور سے کہہ رہا ہے بہادر خان مجھے معاف کر دومیں نے تم سے جھوٹ کہا تھا۔ گائوںمیں کوئی آگ نہیں لگی ہے بلکہ زمین دار نے تمہارے بیٹے کو کھیتوں کی زمین داری سونپ دی ہے کہ کھیتوں کی دیکھ بھال بہادر خان کا بیٹا عاصم کرے گا۔ مجھ سے یہ دیکھا نہیں گیا کیونکہ میرے دونوں بیٹے میری طرح نکمے ہیں۔ میں نے سوچا تمہیں ایسے کہوں گا تو تمہارا روز گار بھی چلا جائے گا اور یوں تم یہاں پر آرام سے جو زندگی گزار رہا ہے ختم ہوجائے گا۔ مجھے معاف کردو میں بھی اب تمہاری طرح محنت کش بنوں گا اور اللہ پر بھروسہ کروں گا۔ بہادر خان نے اسے معاف کرکے اپنے ساتھ کام پر لگوا دیا۔ اس کے بعد وہ بھی محنتی بن گیا۔

حصہ