بلوچستان: سیاسی جماعتوں کے جلسے

199

بلوچستان میں پچھلے دنوں بڑے سیاسی اجتماعات ہوئے، گویا کارکنوں کو متحرک کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام نے کوئٹہ میں ’’مفتی محمود کانفرنس‘‘ کے عنوان کے تحت جلسہ منعقد کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پشین میںجلسہ کیا، جبکہ نیشنل پارٹی کا میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی برسی کی مناسبت سے جلسہ ہوا۔ پنجگور میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کا مرکزی کونسل سیشن ہوا جو 19 اکتوبر سے 20 اکتوبر تک جاری رہا۔
جمعیت علمائے اسلام کے تحت26 اکتوبر کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کے فٹبال گرائونڈ میں ہونے والا جلسہ بہت بڑا تھا، جہاں تک میری یادداشت ہے، کوئی بھی سیاسی جماعت اس میدان کو عوام سے پُر نہیں کرسکی ہے۔ اسی گرائونڈ میں19مئی کو تحریک انصاف نے اس اعتماد اور زعم کے ساتھ جلسہ رکھا تھا کہ وہ کوئی تاریخ رقم کرے گی۔ عمران خان نے جلسے سے خطاب کیا لیکن میدان خالی کا خالی رہا۔ جمعیت علمائے اسلام نے کمال کردیا۔ گرائونڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ گرائونڈ کی سیڑھیوں پر بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس جم غفیر کو دیکھ کر مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں سے عہد لیا کہ وہ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ داد و تحسین کی مستحق جے یو آئی بلوچستان اور کوئٹہ کا نظم ہے، جن کی محنت کی بدولت جے یو آئی ایک تاریخی سیاسی اجتماع کے انعقاد میں کامیاب ہوئی۔ اس نظم کے تحت پی بی7زیارت اور اس کے این اے 260 کے ضمنی الیکشن میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جے یو آئی کے اندر کا وہ دھڑا جو مولانا محمد خان شیرانی کی قیادت میں الگ سوچ، حکمت عملی اور پالیسیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، کا گمان تھا کہ مولانا شیرانی کے بغیر جمعیت صوبے کی سیاست میں، بالخصوص پارلیمانی سیاست میں پیچھے رہ جائے گی۔ مگر یہ گمان یا ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی، جے یو آئی آنے والے انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے اورکوئٹہ کا اجتماع اس پر دلالت کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ’’بین الاقوامی برادری چاہتی ہے، امریکہ اور یورپ کی خواہش ہے اور ہمارے ادارے ان کے دبائو میں آکر یہی کررہے ہیں کہ ملک کا مذہبی نوجوان اشتعال میں آئے اور ریاست کی طاقت کے ساتھ ان نوجوانوں کو ملیامیٹ کردیا جائے۔ لیکن ہم نے ہوش و حواس، عقل مندی اور خوبصورت حکمت عملی سے کام لیا اور اپنے نوجوان کو اشتعال کا راستہ نہیں دیا بلکہ اعتدال کی راہ دکھائی۔ جب نوجوان نے ملک اور اس کے مستقبل کو سمجھا، ملک کی بقاء کو عزیز رکھا اور امن کو اپنے سینے سے لگایا تو آپ کی سازش ناکام ہوگئی، آپ کا ایجنڈا ناکام ہوگیا۔ دعوے سے کہتا ہوں اگر علمائے کرام، جمعیت علمائے اسلام اور دینی مدارس کا تعاون نہ ہوتا تو اکیلے فوج یہ ہدف حاصل نہ کرپاتی اور بین الاقوامی سازش کا شکار ہوجاتی۔ انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو تنہا کرنے والے مدارس، علماء اور تنظیموں کے کردار کو تسلیم نہیں کیا جارہا، آج پاکستان کو غیر مستحکم بنایا جارہا ہے، امریکی صدر پاکستان کو اقتصادی طور پر قلاش بنانے اور پاکستان کے اندر آکر حملے کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، لیکن میں امریکیوں کو خیر خواہی کی بنیاد پر کہنا چاہتا ہوں کہ تم پاکستان کا مت سوچو۔ افغانستان میں ذلیل وخوار ہوکر رہ گئے ہو، عزت کے ساتھ نکل جائو۔ تم شکست کھاچکے ہو، دنیا پر اس طرح حکومت نہیں کی جاسکتی۔ یہاں لوگوں کے اندر احساسِ حریت موجود ہے اور وہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء کا احساس رکھتے ہیں‘‘۔
اگرچہ عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے اندر دوسری بڑی پشتون قوم پرست جماعت ہے۔ دیکھا جائے تو بلوچستان کی پشتون آبادی میں دو ہی قوم پرست جماعتیں ہیں جن میں بڑی جماعت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا بلوچستان کی سیاست میں اہم رول رہا ہے، تاہم ان کی اسمبلی میں نمائندگی اکا دکا رہی ہے، اور ماضی میں صوبائی قیادت زیادہ مؤثر نہیں رہی ہے۔ اِس وقت اس جماعت کی صوبائی صدارت پر اصغر خان اچکزئی فائز ہیں جو پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہ چکے ہیں۔ کمال کے متحرک اور چست سیاست دان ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں کوئی میٹنگ اور کوئی اجتماع کررہے ہوتے ہیں۔ گویا میری دانست میں اس جوان سیاست دان نے بلوچستان کے اندر عوامی نیشنل پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ صوبے کے اندر بڑے بڑے سیاسی اجتماعات ان کی بیدار مغزی کی گواہی دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بڑی سیاسی قوت کا مظاہرہ ضلع پشین میں27 اکتوبر کو کیا گیا جس سے اسفند یار ولی خان نے خطاب کیا۔ یہ جلسہ عام وہاں تاج لالہ فٹبال گرائونڈ میں تھا اور خلافِ توقع فٹبال کا یہ میدان عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یقینا اس قدر بڑے عوامی جلسۂ عام کا انعقاد اصغر خان اچکزئی اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ رفتہ رفتہ بلوچستان کے پشتون قوم پرست سیاسی کارکنوں اور عوام کا میلان عوامی نیشنل پارٹی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یعنی وہ اس جماعت سے وابستگی اختیار کررہے ہیں۔ اصغر خان اچکزئی اگر اسی تندہی اور محنتِ شاقہ سے آگے بڑھتے رہے تو یقینا عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں صفِ اول کی پشتون قوم پرست جماعت ہوگی۔ اس بڑے اجتماع سے اسفند یار ولی نے بھی جذبات و احساسات سے لبریز خطاب کیا۔ ان کا موضوع پشتون عوام کے مسائل، فاٹا کا انضمام اور افغانستان کے حالات تھے۔ اسفند یار ولی نے باور کرایا کہ ’’میاں نوازشریف نے ولی خان کے ساتھ پشتون خوا صوبے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں مکرگئے اور انہیں جدہ میں پناہ لینی پڑی، اور اب ایک بار پھر سی پیک کے معاملے پر پشتونوں سے کیے گئے وعدے سے مکر گئے ہیں اور اب ان کی جگہ جدہ کے بجائے اڈیالہ جیل ہے۔ فاٹا پشتون خوا صوبے میں ضم ہوکر رہے گا۔ فاٹا کے انضمام کے بعد شمالی اور جنوبی پشتون خوا (بلوچستان کے پشتون علاقے) کو ایک کرکے ملک کے پشتونوں کی ایسی وحدت بنائیں گے کہ جس کے سامنے پھر پنجاب کی بھی ایک نہیں چل سکے گی۔‘‘ انہوں نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ ’’پورے خطے کے امن کا افغانستان کے امن سے سے بہت گہرا تعلق ہے، وہاں امن نہیں ہوگا تو یہاں یا خطے میں بھی امن نہیں آسکتا۔ پُرامن ترقی یافتہ افغانستان کے لیے پُرامن ترقی یافتہ پاکستان ضروری ہے اور چین کو سہولت کار کے بجائے ضامن کی حیثیت سے آگے آنا ہوگا۔
نیشنل پارٹی کا23 اکتوبر کا جلسہ عام بھی بڑا تھا۔ اس جلسے میں پارٹی کے صدر حاصل بزنجو نے جمہوریت کے خلاف ہر سازش کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری بھی خصوصی دعوت پر جلسے میں شریک ہوئے۔ نواب زہری فکری طور پر میر غوث بخش بزنجو کے حلقۂ سیاست میں شامل رہے ہیں، نیشنل پارٹی سے وابستگی بھی رہی ہے، چنانچہ نواب زہری نے اپنے خطاب میں بڑے تلخ لہجے میں شدت پسندوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ ’’نام نہاد آزادی کی آڑ میں بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنے والے اور بلوچستان کے عوام کے سروں کی قیمت پر یورپ میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو کے فلسفے کو مان لیا جاتا تو اس وقت صوبے کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ اُس وقت بھی بزنجو کے بعض ساتھی بزور طاقت حقوق لینے کی بات کرتے تھے۔ بزنجو کا فلسفہ رد کرنے والے نام نہاد آزادی پسندوں نے برادر کُشی کی بنیاد رکھی اور بندوق کے زور پر اپنے نظریے کو مسلط کرنے کی کوشش کی، جس کا نقصان آج صوبہ اٹھا رہا ہے۔ اس فلسفے کو رد کرنے والے بیرونِ ملک دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔
اب کچھ ذکر بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کی سیاسی سرگرمی کا۔ یہ جماعت 2013ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئی۔ محض ظفر اللہ زہری صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوسکے۔ لیکن وہ فعال نہیں ہیں، اور کبھی اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو بی این پی عوامی نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ چنانچہ پنجگور میں تین روزہ مرکزی کونسل سیشن20 تا 22 اکتوبر منعقد کیا، اور آخری روز کھلا سیشن ہوا جس میں کارکنوں کی اچھی تعداد شریک تھی۔ اس کونسل سیشن میں میر اسرار اللہ زہری دوبارہ پارٹی کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ اسد اللہ بلوچ سیکریٹری جنرل، سید احسان شاہ سینئر نائب صدر اور مختلف عہدوں پر عہدیدار منتخب ہوئے۔ بی این پی عوامی، نیشنل پارٹی کی حریف جماعت ہے خصوصاً آج کل۔ کیونکہ نیشنل پارٹی نے ہی اسے شکست سے دوچار کیے رکھا۔ لہٰذا اُس کی توپوں کا رخ عموماً نیشنل پارٹی کی طرف ہی ہوتا ہے۔ کونسل سیشن کے اختتام پر بھی پارٹی رہنمائوں نے نیشنل پارٹی کو تنقید کی نوک پر رکھا۔ آنے والے عام انتخابات میں بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل کے درمیان انتخابی اتحاد کا امکان موجود ہے۔

حصہ