ہائر ایجوکیشن کمیشن کا المیہ

215

ڈاکٹر مظفر اقبال
پاکستان کی قومی و ملّی ابتری کے اسباب تلاش کیے جائیں تو اس کا کلیدی سبب ’’تعلیم کی تباہی‘‘ ہے۔ پاکستان میں مختلف سطح پر کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے تعلیم کے حوالے سے بہت سے تجربات کیے ہیں، لیکن ان کا بھی کوئی مثبت اثر نظر نہیں آتا۔
اسی حوالے سے جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور میں اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ہائرایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا، جس نے کئی فیصلے کیے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بارے میں کینیڈا میں مقیم پاکستانی اسکالر ڈاکٹر مظفر اقبال نے 2012ء میں ایک مضمون لکھا تھا جو تاحال تازہ ہے۔ ڈاکٹر مظفر اقبال سینٹر فار اسلامک سائنس کے بانی صدر ہیں۔ انہوں نے کینیڈا اور امریکہ کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کیمیا میں پی ایچ ڈی ہیں۔ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز اسلام آباد کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ذیلی ادارے COMSTECHکے بھی ڈائریکٹر رہے۔ اس کے علاوہ سینٹر آف تھیالوجی اینڈ نیچرل سائنسز برکلے امریکہ کے مسلم دنیا کے لیے پروگرام ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ کئی کتب اور مقالات تحریر کرچکے ہیں۔ اسلام اور سائنس ان کے مقالات، تحقیقات اور غور و فکر کا خصوصی میدان ہیں۔
………٭٭٭………
مشرف آمریت کے دوران میں بڑے بڑے رچائے گئے ڈراموں میں ایک ڈرامہ اعلیٰ تعلیم کا تھا۔ فوجی انقلاب کے فوراً بعد مشرف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وہ اختیارات دے دیے جو اس کے آمرانہ اقتدار کا شاخسانہ تھے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اُس کا اس لیے محبوب نہیں بن گیا تھا کہ وہ ہائر ایجوکیشن، سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔ بلکہ اس کا سبب محض یہ تھا کہ جس شخص نے یہ ناٹک ایجاد کیا وہ چرب زبان تھا اور پرویزمشرف کو اپنا ایک امیج پروان چڑھانے کی ضرورت تھی جو اس کے سخت گیر فوجی آمر کے امیج کو نرم کردے۔
یہ ناٹک ایک ایسے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے پیچیدہ مسئلے کو آناً فاناً حل کرنے کے لیے رچایا گیا تھا جہاں ’’ادنیٰ‘‘ تعلیم بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ ڈرامہ اس لیے بھی ہے کہ اس نے اعلیٰ تعلیم کو صرف سائنس اور ٹیکنالوجی تک محدود کردیا، اور وہ تمام چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں جو تخلیقی تھیں اور سائنس کے نام پر لیبارٹریوں کے ٹیکنیشنز کی ذہنی سطح سے کہیں ارفع و اعلیٰ مقام رکھتی ہیں، حتیٰ کہ ناقص شہری منصوبہ بندی سے جنم لینے والی دیرینہ قومی تباہیوں کے سدباب کی اسکیمیں، اصلاح طلب ٹرانسپورٹ سسٹم اور گنے چنے ماہرینِ تعمیرات کے ادارے جو ماحول دوست اور توانائی بچانے والی عمارتیں تعمیر کرسکتے تھے، سب اٹھا کر باہر پھینک دیے گئے اور ان کی جگہ ناقص، ادھوری اور تیز تر اسکیمیں متعارف کرائی گئیں، جن کے متعلق یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ ان سے بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی پیدا ہوں گے۔ اس ڈرامے کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ ہوائی قلعے بنانے کی سی کوشش تھی، جیسے بنیاد کے بغیر کوئی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی جائے، یا پہلی چودہ منزلیں تعمیر کیے بغیر پندرہویں منزل بنانے کی سعی کی جائے۔
ایچ ای سی کا بنیادی مسئلہ یہ ناقص تصور تھا کہ اعلیٰ تعلیم کا مطلب سائنس اور ٹیکنالوجی ہے، اور یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی منزل کا فوری حصول اس طرح ممکن ہے کہ نوجوان مردوں اور عورتوں کو تربیت کے لیے غیرممالک میں بھیجا جائے اور کچھ تربیت دہندگان ملک میں درآمد کرلیے جائیں۔ اور پوری اسکیم اسی غلط تصور پر استوار تھی۔ ایک بار جب اعلیٰ تعلیم کو سائنس و ٹیکنالوجی تک محدود کردیا گیا تو ریسرچ کی بھاری بھرکم گاڑی اسٹارٹ کرنا آسان ہوگیا، جسے اب ایک مقالہ ساز کارخانہ سمجھ لیا گیا تھا۔
یوں قوم بڑی سرعت سے یکے بعد دیگرے بڑی بڑی خبریں سننے لگی کہ کس طرح پاکستان سائنسی مقالوں کی پیداوار میں قوموں کی برادری میں ابھر رہا ہے۔ چونکہ کیمیا میں بالخصوص قدرتی مصنوعات کے میدان میں یکسر بے معنی مقالے گھڑ نکالنا آسان ہے، ان کا گراف واقعی اوپر جاتا محسوس ہوتا تھا کیونکہ یہاں مقالوں کا متن جانچنے کے بجائے ان کا وزن کیا جاتا تھا۔
ایچ ای سی کو دیے گئے اختیارات نے ملک میں تمام دیگر تعلیمی ادارے تباہ کردیے۔ ہر چیز ایک ادارے میں مرتکز ہوگئی اور اس ادارے کو بس ایک شخص ]ڈاکٹر عطاء الرحمن[ چلا رہا تھا۔ تیز رفتار مطبوعاتی کاوشوں کے نئے ہیروز نے تمام معمر تجربہ کار پروفیسروں کو الگ تھلگ کردیا، جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں سنجیدہ ریسرچ کو ترقی دینے میں عمریں گزار دی تھیں۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ بہت زیادہ تعداد میں تھے، مگر جو بھی اس میدان میں تھا اُسے چھومنتر قسم کے حل ڈھونڈنے کے اس دور میں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ جس طرح سیاسی میدان میں پرویزمشرف عقلِ کُل تھا، اسی طرح ایچ ای سی کا سربراہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں عقل و فہم کا مجسمہ تھا، حالانکہ اس کے پاس تعلیم یا کسی متعلقہ شعبے کی کوئی ڈگری نہ تھی۔
ایچ ای سی کی شکل میں اعلیٰ سطحی ڈرامے نے ناقص فہم پر مبنی منصوبوں کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں نظرانداز کردیں۔ درآمد شدہ ’’اسکالرز‘‘ نے جو پاکستانی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی مشاہروں پر لا بٹھائے گئے تھے، ملک کا سارا تعلیمی ڈھانچہ تباہ کردیا۔ ان نیلی آنکھوں والے چھوکروں کو عملاً شاہانہ سرخ قالین والا پروٹوکول دیا گیا، اور ان درآمدی دماغوں نے پرانے کم تنخواہ دار عملے کی اس قدر حوصلہ شکنی کی کہ ان میں جو کچھ جذبہ تھا، وہ بھی جاتا رہا۔ چونکہ سائنس کے سوا ہر چیز غیر متعلق اور غیر ضروری سمجھی جانے لگی، لہٰذا وطنِ عزیز منظم طور پر ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوا کہ وہ تھوڑی بہت تخلیقیت اور علمی توانائی بھی جاتی رہی جس سے یہ بہرہ ور تھا۔
پاکستان کے 99 فیصد مسائل جن کے سائنسی و فنی حل درکار ہیں انہیں تمام عملی مقاصد کے لیے کوئی سائنسی تحقیق درکار نہیں ہوتی، کیونکہ ان کے متعلق سائنسی تحقیق پہلے ہی کھلی مطبوعات میں دستیاب ہے۔ وہ ایک فیصد جسے مقامی ریسرچ درکار ہے (خصوصاً دفاع کے شعبوں میں) اسے بس ٹیکنیشنز اور ٹیکنالوجسٹس کی ضرورت ہے، سائنس دانوں کی نہیں۔ وہ مٹھی بھر افراد جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کو پروان چڑھانے کا تصور گھڑا، انہیں قومی مفادات کا کوئی فہم نہ تھا اور نہ وہ یہ جانتے تھے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
یہ ایک اعلیٰ سطحی ناٹک تھا اور اس کے لیے میڈیا کی مستقل سرپرستی اور اعداد وشمار کی شعبدہ بازی درکار تھی۔ چونکہ اس ڈرامے کے لیے امداد فراہم کرنے والے عالمی ڈونر اداروں کے مقاصد پورے ہوتے تھے، لہٰذا ایسے پروگراموں کے لیے فراخدلی سے سرمایہ فراہم کیا جاتا تھا۔ یوں ذاتی مفاد پر استوار اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر انگریزی کے لبادے میں یوں بیان کیے جاتے تھے:
’’1947ء سے لے کر 2002ء تک پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی افسوسناک کیفیت یہ رہی کہ اس عرصے میں ہماری تمام یونیورسٹیوں نے کّل 3321 پی ایچ ڈی پیدا کیے، جب کہ اگلے 9 برسوں میں یعنی 2003ء سے 2011ء تک غیرمعمولی طور پر 4000 پی ایچ ڈی پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘
لیکن جب آپ اگلا منطقی سوال پوچھتے ہیں: ان نئے پی ایچ ڈی حضرات نے ملک کو اس کے سنگین توانائی کے خسارے سے نکالنے کے لیے کیا کیا ہے؟ خراب فصلوں یا دوسرے شعبوں میں جہاں فوری سائنسی و فنی حل درکار ہیں، انہوں نے کیا تیر مارا ہے؟ تو اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ اور اگر کوئی ان مردوں اور عورتوں کے اصلی مقام و مرتبے میں جھانک کر دیکھے جو اس فاسٹ ٹریک اسکیم کے ذریعے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے آراستہ ہوئے ہیں تو وہ اس ناگوار نتیجے تک پہنچتا ہے کہ ان کی بہت بڑی تعداد کا پاکستان میں کوئی پیشہ ورانہ مستقبل نہیں۔ آخر انہیں یہ ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے ملک سے باہر کیوں بھیجا گیا جن کا کوئی مقصد ہی نہیں؟
کروڑوں روپے لائبریریوں کو ’’انقلاب آشنا‘‘ کرنے پر صرف کردیے گئے تاکہ ’’ایچ ای سی ڈیجیٹل لائبریری پروگرام‘‘ کے ذریعے 25,000 بین الاقوامی جرائد اور 60,000کتب تک مفت رسائی ہوسکے۔ درست کہ مخصوص شعبوں میں چند سو پیشہ ورانہ جرائد شائع ہوتے ہیں جن کا آن لائن ممبرشپ کے ذریعے مطالعہ کیا جاسکتاہے، مگر جن سیکڑوں دیگر جرائد پر بھاری رقوم اڑا دیں، وہ تو پہلے ہی انٹرنیٹ پر کھلے اور مفت دستیاب تھے۔
“HEC Pakistan”ایک ناٹک تھا جو ایک شخص کی طرف سے بدترین آمریت کے دور میں رچایا گیا۔ وہ بددماغ شخص کسی کے آگے جوابدہ نہ تھا۔ اس نے پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس سے ابھی اسے باہر آنا ہے۔ اس کی آمرانہ حکمرانی کے دُوررس نقصانات میں سے ایک نقصان یہ تھا کہ ایچ ای سی پر مسلط ٹولے نے ہر سال قومی خزانے سے 6 ارب روپے ایسے پروگراموں میں جھونک دیے جن سے بعض افراد کی انا کو تسکین ہوگئی مگر قوم کو کچھ حاصل نہ ہوا۔
(بہ شکریہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور سمبر 2012ء
مدیر: ڈاکٹر محمد امین)

حصہ