افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال

242

کابل سے آمدہ تازہ اطلاعات کے مطابق کابل کے محفوظ ترین سمجھے جانے والے سفارتی علاقے میں آسٹریلین سفارت خانے کے قریب ہونے والے ایک تازہ خودکش حملے میں ڈیڑھ درجن کے قریب افراد جاں بحق جب کہ کئی زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ حملہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ غیر اعلانیہ بلکہ چوری چھپے کیے جانے والے پہلے دورۂ کابل کے بعد کیا گیا ہے جس میں کابل کے سفارتی علاقے کو دن دہاڑے کامیابی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد کابل کا اپنا حالیہ دورہ سیکورٹی وجوہات کے باعث نہ صرف چوری چھپے کیا ہے بلکہ انہیں حفاظتی نقطہ نظر سے کابل کے قصرِ صدارت جانے کی ہمت بھی نہیں ہوئی، اور انہوں نے بگرام ائیرپورٹ پر واقع امریکہ کے محفوظ ترین سمجھے جانے والے بیس کیمپ میں ہی افغان صدر کو تمام بین الاقوامی روایات اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طلب کرکے ہدایات جاری کیں۔ دوسری جانب کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں پچھلے چند دنوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں دو سو سے زائد سیکورٹی فورسز اہلکاروں اور سول افراد کی ہلاکتوں سے بگڑتی ہوئی صورت حال نے افعانستان میں قیام امن کے حوالے سے افغان حکومت اور امریکی دعووں پر ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں پچھلے چند دنوں کے دوران قندھار میں ایک فوجی چھائونی، گردیز میں قائم پولیس ہیڈکوارٹر، کابل میں افغان آرمی کے کیڈٹس کی بس اور کابل سمیت بعض دیگر شہروں میں ایک ہی روز مختلف امام بارگاہوں پر ہونے والے خودکش حملوں میں کئی سیکورٹی اہلکاروں سمیت 213 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ اسی دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور کرم ایجنسی کے علاوہ کوئٹہ میں بھی پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر حملے کیے گئے جن میں ڈیڑھ درجن سے زائد اہلکار جاں بحق جبکہ کئی زخمی ہوئے۔
ڈیورنڈلائن کے آرپار ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات کو اگر خطے کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں جوڑ کر دیکھا جائے تو ان میں غیر ملکی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے امکانات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہ قوتیں اپنے مذموم عزائم اور مفادات کے لیے ایک تیر سے پاکستان اور افغانستان کو نشانہ بناتے ہوئے جہاں ان دونوں برادر پڑوسی ملکوں کو غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں وہاں اپنی ان بزدلانہ کوششوں کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں غلط فہمیوں کی خلیج کو بھی مزید وسیع کرنا چاہتی ہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں جنہیں نہ تو افغانستان میں امن و استحکام عزیز ہے اور نہ ہی پاکستان میں لوٹتا ہوا امن اور استحکام انہیں ہضم ہورہا ہے۔ دراصل یہ وہی قوتیں ہیں جو اس خطے کو غیر مستحکم رکھ کر اگر ایک طرف اس خطے میں اپنے طویل قیام کے لیے جواز تلاش کرنا چاہتی ہیں تو دوسری طرف یہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ اس خطے میں دو ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں چین اور روس کے درمیان شنگھائی تعاون تنظیم اور ون بیلٹ ون روڈ کے نظریے کے تحت اس خطے میں اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے امکانات پیدا ہوں۔ لہٰذا یہ طاقتیں اس خطے کے لیے برائی کے محور کا کردار ادا کرتے ہوئے یہاں ہر وہ قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کررہی ہیں جس کے ذریعے اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کے سابق صدر بارک اوباما کے فیصلے کو روندتے ہوئے یہاں دوبارہ فوج کی تعداد میں اضافے اور زیادہ جارحانہ انداز میں طالبان کو کچلنے اور اس ضمن میں پاکستان کو ہدف بناکر دبائو میں لانے کی جو نئی حکمت عملی اپنائی ہے یہ اُس کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کا زخم مندمل ہونے کے بجائے مزید بگڑکر ناسور کی شکل اختیار کررہا ہے۔ واضح رہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھے سات ماہ طویل انتظار اور غور وخوض کے بعد افغانستان اور اس پورے خطے کے لیے جو نئی حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے اُس کا زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، کیونکہ امریکہ نے طالبان کا صفایا کرنے کے لیے افغانستان میں جو چار ہزار مزید فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے اُس سے افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدگی اختیار کرے گا، کیونکہ پچھلے سولہ برسوں کے دوران امریکہ اور اُس کے اتحادی اگر ڈیڑھ لاکھ افواج کے ساتھ طالبان کا وجود ختم نہیں کرسکے تو چودہ پندرہ ہزار امریکی فوجی یہ ناممکن کام کیونکر سر انجام دے سکیں گے! جبکہ ایسے حالات میں جب طالبان پہلے سے زیادہ منظم اور متحرک ہوچکے ہیں اور ایران اور روس کی جانب سے اُن کی سپورٹ کے الزامات خود امریکہ بھی بارہا عائد کرچکا ہے، اور جنہیں سیاسی دھارے میں لانے اور ان کے سیاسی وجود کو امریکہ اور افغان حکومت سے تسلیم کروانے کے لیے چین اور پاکستان پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کررہے ہیں ان حالات میں امریکہ کی طرف سے طالبان کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کا اختیار کیے جانے اور اس ضمن میں بھارت کو زبردستی افغان قضیے میں کوئی عملی کردار ادا کرنے پر مجبور کرنے سے اس بحران کے ٹلنے کے بجائے اس کا مزید پیچیدگی اختیار کرنا بعید از قیاس نہیں ہے۔
یہاں امریکہ کو یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں طاقت اور دھونس کے ذریعے کسی قوم کی آزادی کو وہاں کے عوام کی خواہشات کے برعکس عارضی طور پر تو سلب کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے کسی غاصبانہ قبضے کو کم ازکم افغانستان جیسے ملک میں دیر تک برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا امریکی حکمران سمجھ رہے ہیں۔ اسی تناظر میں امریکہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے افغانستان کی دلدل میں بھارت کو جو قائدانہ کردار دینے کی فاش غلطی کرنے جا رہا ہے اس کا خمیازہ امریکہ سمیت بھارت کو بھی بڑی قیمت کی صورت میں بھگتنا ہوگا۔ امریکہ کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ عراق پر حملے اور وہاں عارضی فتح سے امریکہ کی پوزیشن مستحکم ہونے کے بجائے القاعدہ، داعش اور کئی دیگر جنگجو گروپوں کے وجود میں آنے سے پورا مشرق وسطیٰ آتش فشاں کا منظر پیش کررہا ہے، اور اب اگر امریکہ یہی غلطی افغانستان میں ازسرنو دہرانے پر بضد ہے تو اس سے یہ پورا خطہ تو عدم استحکام کا شکار ہوگا ہی، لیکن اس کی لپیٹ اور تپش سے امریکہ اور اس کا نیا کاسہ لیس بھارت بھی خود کو نہیں بچا پائے گا۔ اسی طرح بھارت کو افغانستان میں فعال کردار کی ادائیگی کی شہہ دینے سے امریکہ افغان بحران کے کئی حوالوں سے سب سے اہم فریق پاکستان کو جو سرخ جھنڈی دکھا رہا ہے وہ بھی نہ تو قرین مصلحت ہے اور نہ ہی ایسے بھونڈے اور خلافِ حقیقت فیصلوں اور اقدامات سے امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب ہوسکتا ہے۔

حصہ